پنڈی کا حجام کونسلر اور فیس بک کے دانشور


2002 کے بلدیاتی انتخابات ہوئے، راولپنڈی کا ایک حجام بھی اس میں کسان کونسلر کی سیٹ پر آزاد حیثیت میں الیکشن جیت گیا۔ جیتنے کے بعد اس نے اپنی الیکشن کے پوسٹر والی تصویر کی پانچ ہزار فوٹو کاپیاں بنوا لی۔

وہ روزانہ صبح اپنی دکان پر اخبار پڑھتا، دن بھر لوگوں کی حجامت بناتا اور ان کے ساتھ ساتھ اس دن کی خبروں اور سیاسی موضوعات پر گفتگو بھی کرتا۔ بڑھتی ہوئی مصروفیت کے پیش نظر اس نے ایک اور کاریگر بھی دکان پر ساتھ رکھ لیا تھا۔

وہ شام ہوتے ہی اپنی دکان کا شٹر گراتا۔ دن بھر کے خیالات کی روشنی میں اپنے لیٹر پیڈ پر اپنا بیان بناتا۔ اپنے پیسوں والے دراز سے بیس تصویریں نکالتا اور دکان بند کر کے فوٹو سٹیٹ کی دکان پر جاتا، اپنی خبر کی 20 عدد فوٹو سٹیٹس کراتا۔ پھر اگلے چار گھنٹے وہ صرف ایک ہی کام کرتا۔ اپنی بائیک سٹارٹ کرتا اور ڈان، نیوز، جنگ، نوائے وقت، دی نیشن، ایکسپریس، اساس، جناح اور خبریں سمیت بیس اخباروں کے دفاتر میں اخبارات میں اپنی تصویر والا بیان پہنچاتا۔ اس نے اخبار اور صحافی اور ان کے دفتر میں بیٹھنے کے وقت ٹارگٹ کیے ہوئے تھے۔

وہ ہفتے میں ایک روز اس انداز میں خبر بناتا جیسے پریس کانفرنس کی خبر ہوتی ہے۔ وہ لکھتا کہ وہ اپنی رہائش گاہ پر ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک تصویر الگ سے بنا رکھی تھی جس میں گلدستے والی میز کے سامنے کرسی میں دایاں ہاتھ فضا میں لہراتے ہوئے منہ کھولے دائیں جانب دیکھ رہا ہوتا تھا۔

کبھی اس کا بیان اور تصویر دونوں چھپ جاتے اور کبھی نہیں۔ کبھی تصویر چھپتی اور کبھی خبر، لیکن وہ مایوس نہیں ہوا۔ جس نے شائع کی اس کا بھی شکریہ ادا کرتا اور جو شائع نہیں کرتا، اس کا بھی شکریہ ادا کرتا تھا۔

اس وقت سیکورٹی کا اتنا ایشو نہیں ہوتا تھا۔ میڈیا کے دفاتر میں داخل ہونا بھی کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ ہر شخص بآسانی اخبارات کے دفاتر میں داخل ہوتا تھا اور بغیر کسی روک ٹوک کے نیوز روم میں پہنچ جاتا۔

کسان کونسلر بڑا دلچسب اور موسم شناس آدمی تھا۔ جب کبھی بارش ہوتی تو وہ اخبارات کے دفاتر میں پریس ریلیز کے ساتھ سموسے اور پکوڑے لے کر بھی آ جاتا تھا۔ دفتر کے عملے، صحافیوں اور کمپوزر کے ساتھ اس نے اپنی اٹھک بیٹھک بہترین بنا لی تھی۔ سب ایڈیٹرز کے ساتھ اس کی خصوصی یاری تھی۔

کسی کی شادی ہوتی یا برتھ ڈے، وہ بڑے شاپر میں کیک اٹھائے ضرور حاضر ہوتا۔ کسی صحافی کے کسی عزیز کے انتقال پر بھی وہ بروقت پہنچتا۔ میت کی چارپائی کو اپنے کندھوں پر اٹھاتا اور جنازہ گاہ تک راستے میں اونچی اونچی آواز سے کلمہ شہادت کی صدا بھی لگاتا۔ جنازہ گاہ پہنچ کر صفیں ٹھیک کراتا۔ عرق گلاب لوگوں پر چھڑکتے ہوئے ” صفیں سیدھی کرو جی“ کی بلند آواز بھی لگاتا۔ لوگ کم ہوں یا زیادہ، وہ جنازے میں امام کے بعد اونچی آواز سے تکبیر بھی لگاتا تھا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب وزیر اعظم جمالی کو پرویز مشرف نے نا اہل قرار دے کر وزرات عظمی سے چلتا کر دیا تھا۔ اٹک میں سیٹ خالی کروا کر انتخابات کرائے گئے جس کے نتیجے میں وزیر خزانہ شوکت عزیز وزیر اعظم بن گئے۔

ایک دن حجامت بنواتے ہوئے اسے کسی نے کہا کہ شوکت عزیز کا وزیر اعظم بننا ایک سازش ہے اور امریکا نے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنوایا ہے۔

کسان کونسلر کے ذہن میں آیا کہ یہ تو بڑی خبر ہے۔ اس نے اس شام جلدی جلدی شٹر ڈاؤن کیا اور اپنی رہائش گاہ پر ایک ” پر ہجوم کانفرنس“ سے خطاب کیا۔ تصویر کا پرنٹ نکلوایا اور بھاگم بھاگ انکشافات سے بھرپور اپنا خبری بیان سارے اخبارات میں پہنچا دیا کہ شوکت عزیز کا وزیر اعظم بننا امریکی سازش ہے۔ اس روز اخبارات میں تمام سیاسی رہ نماؤں کی جانب سے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بننے پر مبارک کے آرہے تھے۔ خود شوکت عزیز کی جانب سے اخباروں کے دفاتر میں مٹھائیوں کے ٹوکرے بھجوائے جا رہے تھے۔

یہ واحد خبر تھی جس میں مبارک باد کے بجائے قوم کو ایک گہری سازش سے آگاہ کیا جا رہا تھا۔ کچھ اخبارات نے خبر نمایاں جگہ پر چھاپ دی۔ پھر کیا تھا، حجام نے اگلے دن اخباریں خریدیں، ان میں سے اپنی خبر کی کٹنگ کی، اس کو ایک صفحے پر پیسٹ کیا اور اپنے گرم حمام سمیت پورے محلے میں وہ خبر دیواروں پر چسپاں کر دی۔

لوگوں نے بڑی داد دی، اسے حوصلہ ملا اور اس نے مزید انکشافات گھڑنے شروع کر دیے۔ اس کے بعد اس کے ہاتھ میں استرا چلتا اور دماغ میں بیانات بنتے لیکن کیا مجال کہ کسی کا خط، قلم، مونچھ، داڑھی یا بالوں کا اسٹائل تبدیل ہوا ہو۔

شو کت عزیز کو اس نے اپنے بیانات کا خصوصی ہدف بنا لیا تھا۔ ایک روز ایک صحافی نے اس سے پوچھ لیا، یار تم روزانہ شوکت عزیز کے خلاف بیان لے کر آ جاتے ہو تو چمکیلی آنکھوں اور اصفہانی اسٹائل والے حجام نے کہا کہ ” قبلہ، کبھی تو شوکت عزیز میرے بیان کا جواب دے گا ناں، کبھی تو نوٹس ملے گا ناں، بس تسی مہربانی کر کے چھاپی جاؤ“

کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے لیکن اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ اگر آپ نہیں سمجھے اور نہیں سمجھنا چاہتے تو پھر بہتر ہے کہ آپ غالب فلم دیکھیں اور ہاں جو سمجھنا چاہتے ہیں، میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

کچھ عرصے سے سوشل میڈیائی دانشور اس انتظار میں ہر اس شخص کی پگڑی اچھال رہے ہیں جو کچھ مقام رکھتا تھا یا رکھتا ہے۔ یہ سارے سارا دن لوگوں سے گپ شپ لگائیں گے۔ نائی کی دکان پر بیٹھ کر تبصرے سنیں گے۔ فیس بک پر لوگوں کی تحریریں سے من پسند مطالب نکالیں گے۔ کچھ لوگوں پر بغیر تحقیق اور تصدیق کے الزامات لگائیں گے۔ محرم میں یہ شیعہ سنی جنگ کرائیں گے۔ ربیع الاول میں یہ دیوبندی بریلوی فساد کی طرف بڑھیں گے۔ انہوں نے کبھی کوئٹہ کی شکل نہیں دیکھی ہوگی لیکن یہ ماہر عکسری امور بن جائیں گے۔

یہ ایک شہر میں رہتے ہوئے دوسرے شخص کی طرف اپنی توپوں کا رخ کریں گے لیکن اس سے مل کر جاننے کی کوشش نہیں کر یں گے کہ اس کا موقف کیا ہے؟ یہ گوگل سے تحقیق کریں گے۔ یہ لوگوں کی تقریریں سن کر انہیں اپنے علمی نکات کی صورت میں بیان کریں گے۔ میڈیا میں سب سے برا اسے سمجھا جاتا ہے جو ٹیبل اسٹوریز بناتا ہے۔ جو افواہوں اور خواہشوں کو خبر بناتا ہے۔ جو پروپیگنڈے کو تجزیہ یا تبصرہ قرار دیتا ہے۔ جو لائن لے کر پروگرام کرتا ہے یا کالم لکھتا ہے۔ لیکن اس برائی کے باوجود یہی لوگ سب سے زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔

لوگ انہیں سب سے زیادہ جانتے ہیں اور ان کا کہا ہوا حرف آخر مانتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسےبے شمار لوگ موجود ہیں جو سارا فساد، ذہنی انتشار، مسلکی اختلافات اور علاقائی جھگڑے چھیڑتے رہتے ہیں۔ کچھ کی کنجیاں کسی اور کے پاس ہیں۔ کچھ کے دماغوں کو تالے لگے ہوئے ہیں۔ کچھ نسلی تعصب اور بغض کا شکار ہیں۔ کچھ کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں۔

انہیں بھی شاید علم ہو گا کہ وہ جو کر رہے ہیں، وہ غلط ہے۔ انہیں بھی شاید پتا ہوگا، یہ ملک اس قسم کے فساد کو جھیلنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ آگ لگانے کی پالیسی ٹھیک نہیں، لیکن وہ لگاتے ہیں۔ ان کی داڑھیاں بھی ہیں، نام کی حد تک ارفع و اعلیٰ بھی ہیں۔ ظاہری حد تک زاہد و عابد بھی ہیں۔ جبے بھی ہیں، دستاریں بھی ہیں اور چہروں پر پٹکاریں بھی ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ وہ یہ سب جاننے کے باوجود کیوں لگاتے ہیں؟
کیونکہ اس سے ریٹنگ بڑھتی ہے۔
کیونکہ اس سے آپ زیر بحث آتے ہیں۔
کیونکہ اس سے آپ نمایاں ہوتے ہیں۔
کیونکہ اس سے آپ کو شہرت ملتی ہے۔

لیکن کاش کوئی میرے ان دوستوں اور دوست نما بزرگوں کو کوئی سمجھاتا کہ
ارے مولوی صاحب،
اؤ پیر صاحب
ہاں جی حاجی صاحب،
محترم ”صحافی“ صاحب،
قبلہ پروفیسر صاحب،
ارے ڈاکٹر صاحب
چاند کی طرف منہ کر کےتھوکنے سے، تھوک چاند پر نہیں، خود آپ کے چہرے پر واپس آ گرتا ہے۔

لیکن بات آپ کی بھی ٹھیک ہے اور بات اس نائی کی بھی ٹھیک تھی کہ اس ریٹنگ تو بڑھتی ہے، لیکن یہ سچ ہے آپ نمایاں ہوتے ہیں، لیکن سچ ہے کہ آپ کو شہرت ملتی ہے۔
عزت تو آنے جانے والی چیز ہے، جن کی نہیں، کیا وہ زندہ نہیں رہتے؟

آپ کو کچھ سمجھ آیا یا نہیں لیکن آپ نے پوری کہانی پڑھی، بس جیسے احتیاط کیجئے، اجرکم علی اللہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).