معروف نقاد سلیم احمد پر ایک نظر



کل شب جمال پانی پتی کی مرتب کردہ کتاب ”مضامین سلیم احمد“ سامنے آئی۔ فہرست پر نظر دوڑائی تو ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ“ مضمون پر توجہ گئی۔ سوچا یہاں سے شروع کیا جائے۔ یہ انتخاب محض اتفاقی نہیں تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ فیض اور اس مشہور نظم پر رائے دیکھ کر مجھے مصنف سے وہ لازمی آشنائی براہ راست مل جائے گی، کہ اگر میں کوئی اور مضمون پڑھنا چاہوں تو فہرست سے نسبتاً زیادہ بامعنی انتخاب کر سکوں گا۔

پڑھنا شروع کیا تو سہل و رواں نیز انتہائی کارآمد نثر کا احساس پیدا ہونے لگا۔ ابتدا سے زرا بعد جب ابھی فیض کی تعریف ہی جاری تھی تو میں اتنا اندازہ ضرور لگا سکتا تھا کہ ابھی کچھ ہی سطروں میں ہی یہ بات کس شدت سے الٹائی بھی جائے گی اور بعینہ ایسا ہی ہوا۔ ایک لمحہ کو تو یوں لگا کہ جیسے سیدھا سیدھا مے خواری کا طعنہ دیا جا رہا ہے۔ اس پر بھی اشتیاق بڑھا کہ اختلاف اور تنقید کا کیسا ہمہ گیر پہلو برقرار رکھا گیا ہے۔

مضمون مکمل ہوا تو دوبارہ فہرست کی طرف آیا۔ غزل کے عنوان پر چار مضامین یکے بعد دیگرے پڑھ ڈالے۔ اس لمحے تک یہ کتاب گویا میرے ساتھ ”دو بدو“ کی حالت میں آچکی تھی۔ لگ بھگ درجن سے زیادہ مضامین پڑھ لیے۔ ان میں ایک تو غالباً 35 صفحات پر مبنی تھا۔ بہت دنوں بعد کسی کتاب کے مطالعے میں اتنی یک سو عجلت محسوس ہوئی تھی۔ اس صورت احوال میں فوری تاثر پیدا ہوجانا فطری ہے۔ میں اپنی ذاتی عادات کی تاریخ سے واقفیت کی بنا پر سمجھتا ہوں، کہ فن مطالعہ شکار بازی سے کسی طرح کم نہیں۔ اس میں بھی ایک شخص کو طویل وقت تک محض صبر کرتے ہوئے اپنے ہدف کو مسلسل نظر میں رکھنا چاہیے۔ اس دوران کئی بار ہدف قریب محسوس ہوتا ہے اور عجلت پسند آدمی دھاوا بول دیتا ہے، لیکن ابھی حضوری کا شعور پختہ نہیں ہوتا۔ ہدف بھاگ جاتا ہے۔ کامیاب مطالعہ اور شکار کے لیے ہدف کی حاضری میں رہ کر اس کے عمل اور نفسیات کا بامعنی تخمینہ لگانا پڑتا ہے تب کہیں نشانے کا بہترین موقع پیدا ہوتا ہے۔

یہ نصیحت بہرحال اہم ہے لیکن بقول غالب بعض اوقات وضع احتیاط سے دم گھٹنے سا لگتا ہے اور گریبان چاک کیے بغیر نہیں بنتی۔ ہماری یہ کم زوری تو اپنی جگہ لیکن خود سلیم صاحب کی اس خوبی کا کیا کیجیے کہ ان کی نہایت واضح نثر میں ایک نظم کلی پایا جاتا ہے۔ چناں چہ ان کی فکر کا بنیادی نظام اگر سمجھ میں آنے لگے تو کئی معاملات میں ان کے اخذ کردہ نتائج کا پیشگی اندازہ ہونے لگتا ہے۔ یہ موجودہ تاثر اسی دو بدو کیفیت کے تحت لکھا جا رہا ہے۔

یہ فکر اور اس کا نظام جس قدر مجھے سمجھ آیا ہے کچھ اس طرح سے بنتا ہے۔ سلیم احمد بنیادی طور پر روایت پسند ہیں۔ روایت سے مراد معنویت کا ایک بڑا سلسلہ ہے جو فرد مادی اور روحانی طور پر اپنے گرد پاتا ہے اور اس کلیت میں خود سے ہم آہنگ مقام پر قیام کرتے ہوئے اپنی ذات کے معنی دریافت کرتا ہے۔ ہماری یہ روایت ایک مخصوص تہذیبی شعور ہے جو 1857ء سے پہلے کے مسلم ہند (کے اشرافیائی نظام) کی صورت موجود تھا۔ غدر کے بعد سیاسی شکست اور بعد ازاں جدیدیت کی یلغار نے اس تہذیبی شعور کی منظم روایت کے حصے بخرے کرنا شروع کیے۔ جدیدیت سے مراد تجرباتی انفرادیت اور تاریخی تغیر پسندی ہے۔ اس تعریف ہی سے، جدیدیت اور روایت کا تضاد سامنے آجاتا ہے۔

جدیدیت کی تجرباتی انفرادیت فرد کو اقدار کا منبع مانتی ہے اور صرف تجرباتی حقیقت کو سچائی سمجھتی ہے۔ اس جہت سے جدیدیت کا پہلا مرحلہ نفی اور انکار کا ہے جہاں فرد اپنے سماج اور تہذیبی روایت کے منظم حصوں کو اپنی ذات کے معیار پر نفی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے جدید اردو ادب وہ ادب ہے جو 1857ء کے بعد کے اس متصادم دور میں تخلیق کیا گیا۔ اس میں وہ ادب بھی شامل ہے جو مغرب سے مرعوب ہے اور ایسا ادب بھی جو جدیدیت کا طریقہ اپنا کر، جدیدیت یعنی تہذیب مغرب کا رد کرتا رہا۔ غالبؔ پہلا اور سب سے اہم جدید اردو شاعر ہے جس کی شاعری جدیدیت کی پہلی منزل یعنی فرد کی جانب سے اقدار کی نفی کی بہترین مثال ہے۔

غالبؔ اس وجہ سے بھی عظیم ہے کہ اس کے دور میں جدیدیت کا یہ رجحان خارجی طور پر اس طرح محسوس نہ کیا گیا تھا۔ غالبؔ کی وفات کے بعد یہ کھل کر سامنے آگیا۔ دوسرا اہم جدید شاعر حالیؔ ہے جو سلیم احمد کے خیال میں اپنی طبیعت میں روایتی ہے۔ غزل فارسی سے اردو میں آئی۔ خود فارسی میں غزل مسلم عجمی ثقافت کی تخلیقی نشانی ہے۔ تاہم اردو غزل فارسی سے مختلف ہے۔ غزل کا بنیادی محرک جنسی جذبہ ہے، جسے فارسی شاعری میں پوری شدت سے بیان کرتے ہوئے باقی ضروریات زندگی سے تحقیر کا رویہ اپنایا گیا۔ اردو غزل میں اس کے برعکس جنسی جذبے یعنی عشق و محبت کو دوسری انسانی ضروریات کے ساتھ مفاہمت کی شکل میں دکھایا گیا۔ یہ امر ہندی مسلم ادب کا طرہ امتیاز ہے جو ان کے تہذیبی شعور نے انھیں عطا کیا۔

حالیؔ نے جدیدیت کی تجرباتی نفی سے گزرے بغیر غزل سمیت روایت کی نفی کی۔ ہرچند حالیؔ اچھے انسان تھے۔ اس کے برعکس اکبرالہ آبادی نے جدیدیت کو پوری طرح دیکھ بھال کر اور اس کا تجرباتی شعور رکھتے ہوئے روایت کی حمایت کی۔ یوں اکبر دراصل حالیؔ سے زیادہ جدید شاعر ہوئے۔ سلیم احمد کی روایت پسندی ، اس منہاج کے دلائل اور ان کا تاریخی اطلاق روزن ادب سے تہذیب کے وسیع تر ہال میں داخل ہوجاتا ہے یا یوں کہیے اس سے ہرلمحہ منسلک ہے۔

سلیم احمد کے خیال میں جدیدیت کا دوسرا پہلو اثباتی ہے، جہاں فرد تجرباتی نفی سے گزرنے کے بعد کسی نظام اقدار کا ازسرنو اثبات کرتا ہے۔ یہ نظام گزشتہ روایت بھی ہو سکتی ہے اور کوئی نئی تخلیق بھی۔ یہ اثباتی پہلو اگر وقوع پذیر نہ ہو جدیدیت ادھوری رہ جاتی ہے اور ایک کلچرل کرائسس میں گھری نسل سامنے آتی ہے۔ سلیم احمد جابجا رائے کی آزادی اور اختلاف کے حق کو محفوظ قرار دینے پر زور ضرور دیتے ہیں۔ تاہم صاف نظر آتا ہے کہ انھیں صرف وہی جدیدیت پسند ہے جو نفی کا تکلف تو پورا کر لے لیکن بعد ازاں روایت کا اثبات ضرور کرے۔

اس بنیاد پر انھیں اکبر آلہ آبادی عظیم اور جدید محسوس ہوتا ہے، لیکن سرسید کو راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ جدیدیت کے اصول تغیر (جو دراصل تاریخ کی حرکیات ہیں) سے سلیم احمد اس قدر کد رکھتے ہیں کہ سرسید کی پرجوش مخالفت تک ہی نہیں رکتے۔ اقبال کو عظیم شاعر مانتے ہیں اور غالب کا دوسرا روپ جو نفی کے بعد، اب عظیم اثبات کا فریضہ انجام دے گا۔ لیکن خطبات اقبال کی مناسبت سے اقبال کا کلچر اور اجتہاد کا تصور رد کرتے ہیں۔ ناصرف رد کرتے ہیں بلکہ حرکت کے مقابل سکون کی حمایت کرتے ہیں۔ یہاں ان کی ہمہ گیر روایت پسندی ظاہر ہوتی ہے۔

سلیم احمد کے خیال میں شاعری مکمل انسان کا کام ہے، جب کہ ادھوری جدیدیت (ادھوری کا سابقہ، محض تواضع ہے۔ اس سے مراد کل جدیدیت ہی سمجھا جائے) انسان کی اس سالمیت کو کئی حصوں میں بانٹ دیتی ہے۔ ایک ہی فرد کے اندر سماجی، اخلاقی، مقصدی اور رومانوی منطقے وجود میں آجاتے ہیں، جو خود متصادم حالت میں رہتے ہیں۔ روایت فرد کو سالمیت بخشتی تھی۔ ہماری یعنی مسلمانوں کی روایت کی بنیاد ایک روحانی یا مابعد الطبیعی نظام پر قائم ہے جس میں تصور حقیقت، تصور انسان اور تصور کائنات شامل ہے۔ یہ تصورات سماجی سطح پر صدیوں کے تاریخی تعامل کے نتیجے میں مسلمانوں کے مزاج میں شامل ہو گئے ہیں۔ جدید مغرب کی جمالیات اپنے مخصوص تصور حقیقت کی وجہ سے کثرت میں وحدت پر زور دیتی ہے۔ یعنی اجتماع کی نسبت فرد پر۔

ادب میں یہ معیار نظم کو بخشا گیا ہے چناں چہ نظم کو جدید شاعری نے گود لے لیا۔ اس کے برعکس غزل میں وحدت میں کثرت اور بوقلمونی دکھائی جاتی ہے۔ ردیف و قافیہ کی تکرار اس وحدت کی بندش اور تکرار سمجھ لیں۔ غزل کے یہ معیارات دراصل عجمی اسلامی جمالیات کے پیش کردہ ہیں۔ اس وجہ سے غزل ہماری روایت کی ادبی پہچان ہے۔ غزل کا اختصار جس تخلیقی تیقن پر قائم ہے، وہ روایت اور مستحکم تہذیبی روایت کے اندر ہی ممکن ہے۔ غزل رمزیت پیدا کرتی ہے، جو اظہار کی لطیف ترین اور ارفع ترین شکل ہے۔ لیکن رمزیت کی سطح پانے سے پہلے تجربات کو کندن بننے کے لیے طویل وقت تک اور نیت سے دُہرانا پڑتا ہے جو پرمشقت بھی ہے اور وقت طلب بھی۔ اس کے برعکس نظم میں منظرنگاری اور واقعیت اس کو حسیت اور خام موجودی کے اظہار سے قریب کر دیتی ہے۔

اس منظر نامے میں جب سلیم احمد جدید شاعری کا جائزہ لیتے ہیں، تو انھیں صرف مایوسی ہوتی ہے۔ ادھوری جدیدیت کی ماری نسل کا فرد، جسے وہ کسری بھی کہتے ہیں؛ ابھی تجرباتی نفی سے یوں نہیں گزرا کہ کوئی بامعنی اثبات پیدا کر سکے۔ اقدار فنا ہوگئی ہیں اور تہذیبی بحران میں پیدا ہوئی ایک نسل جنم لے چکی ہے۔ اس نسل میں سے بعض نے اشتراکیت کا اقداری نظام قبول کیا، لیکن سلیم احمد اشتراکیت سے بھی مطئمن نہیں۔ نتیجے کے طور پر فیض، مخدوم، مجاز، ساحر، اخترالایمان ان سب کی سب شاعری ادھوری جدیدیت کی منفی شاعری ہے۔ ادھوری جدیدیت کی یہ بیمار شاعری ترقی پسندوں کے علاوہ آزاد شاعروں میں موجود ہے اور اس کی بنیاد رومانیت ہے۔ رومانیت وہ نظریہ ہے جس کی وجہ سے ایک فرد کا روحانی اور مادی وجود آپس میں ربط کھو بیٹھتا ہے اور کسی نا کسی ایک طرف زیادہ جھک جاتا ہے۔

یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ سلیم احمد نے ادب اور اس کے پس منظر کا جو مقدمہ باندھا ہے، اس میں جدید شاعری ممکن ہی نہیں۔ اگر ممکن ہے تو صرف اسی صورت میں ممکن ہے، کہ وہ جدید کو جان کر دوبارہ قدیم سے جڑ جائے۔ روایت پر سلیم احمد کے اس اصرار کی کم از کم مجھے ابھی تک کوئی واضح دلیل نظر نہیں آئی۔ ان کے یہاں یہ معاملہ زیادہ تر اعتقادی اور ظنی لگتا ہے۔ ویسے بھی وہ جن معنوں میں روایت کے قائل ہیں، اس میں معنویت کا بیان نہیں بلکہ احساس بطور دلیل استعمال ہوتا ہے۔ روایت سے پیدا ہوتے اس احساس کو بطور دلیل استعمال کی میری نظر میں سب سے بہترین ادبی مثال ٹالسٹائی کی مختصر سرگزشت ”دی کانفیشنز“ ہیں۔ ٹالسٹائی اس کتاب میں اپنی زندگی کا داخلی سفر بیان کرتا ہے۔ وہی سفر جسے سلیم احمد نفی اور اثبات کی تجرباتی سچائی کا سفر کہتے ہیں۔ ٹالسٹائی بھی اپنے آپ کو ایک عام آدمی کی طرح پاتا ہے، جسے جدید علوم اور جدیدیت کے نفی پسند رجحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اس کا سامنے کرنے کے بعد تمام معنویت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور داخلی بحران میں مبتلا ہو کر خودکشی کی عظمت پر غور کرتا رہتا ہے۔ اسی کشمکش میں اسے وہ کروڑوں عام انسان نظر آتے ہیں، جن کی زندگی کو اس بحران کا سامنا محض اس لیے نہیں کرنا پڑا کیوں کہ روایت اور ٹریڈیشن نے ان کو آپس میں اس طرح جوڑ رکھا ہے کہ عملی زندگی کے تقاضوں کے لیے درکار معنویت فرد کو مہیا رہتی ہے۔

روایت پسندی پر اصرار دلیل سے زیادہ روایت کے تاریخی طول اور سماجی پھیلاو سے روایت کی افادیت کشید کرتا ہے۔ اس مخصوص جہت سے دیکھا جائے تو روایت پسندی بھی عملیت پسندی یا پریگمٹزم کی ایک شایستہ صورت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ یہیں سے اس کا تضاد بھی سامنے آتا ہے کیوں کہ روایت پسندی اپنی اس عملیت پسندی کے باوجود تاریخی حرکت اور تغیر کی قائل نہیں ہے۔ جب کہ یہ بات ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آزمودہ نسخہ ہمیشہ درست نتیجہ نہیں بھی دیتا۔ روایت پسندی کی اس روش کو تاریخی بے احتیاطی بھی کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ کسی بھی تاریخی چیلنج کے مقابلے میں، روایت کو کافی سمجھا جاتا ہے؛ جس کا دوسرا مطلب اپنے ہدف کو کم زور جاننا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).