دھرنوں کا یرغمال اسلام آباد


فیض آباد انٹرچینج پر ایک مذہبی جماعت کی طرف سے گزشتہ کئی روز سے جاری دھرنے نے جڑواں شہروں کے نظام زندگی کو مفلوج کر رکھا ہے۔ اہم شاہراہوں کی بندش سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے جس کی وجہ سے مسافروں، تاجروں، ٹرانسپورٹرز، ملازمین، مختلف تعلیمی اداروں کے طلباء اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میٹرو بس سروس بھی تعطل کا شکار ہے جبکہ فیض آباد اور آئی ایٹ کے گردو نواح میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔ دھرنے کے منتظمین نے مذاکرات وزیر قانون کی برطرفی سے مشروط کر دیے ہیں، دوسری طرف حکومت نے دھرنے کا اہتمام کرنے والی مذہبی جماعتوں کے کارکنوں اور راہنماؤں کے خلاف پکڑ دھکڑ اور مقدمات کا عمل شروع کر رکھا ہے۔

ختم نبوت کے قانون میں مبینہ ترمیم کرنے کے خلاف احتجاج سے مری روڈ، ڈبل روڈ، پنڈورہ، کٹاریاں، خیابان سرسیدسمیت راولپنڈی کو وفاقی دارلحکومت سے ملانے والے راستوں پر ٹریفک کا اژدھام نظر آتا ہے کیونکہ جابجا کنٹینرز لگا کر راستے بلاک کر دیے گئے ہیں۔ احتجاج کی صورت میں پولیس کے لئے بہت مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں جنھیں روزانہ تقریبا چار لاکھ پچاس ہزار گاڑیوں کو سنبھالنا ہوتا ہے۔ کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے سے تاجر اور خاص طور پر ٹرانسپورٹرز الگ پریشان ہیں۔ دھرنے کے منتظمین حکومت کو کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر دھرنے پر حملہ کیا گیا تو پورا ملک آگ کی لپیٹ میں ہو گا۔ فیض آباد کے قریب قائم ایک پولیس چوکی پر دھرنے کے شرکا کی جانب سے حملہ بھی کیا گیا ہے۔ الغرض دھرنے کے شرکاء ببانگ دہل ریاستی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔

جس مسئلہ پر احتجاج کیا جارہا ہے اس کا ازالہ غلطی کا احساس ہوتے ہی حکومت کی طرف سے بروقت کرد یا گیا تھا اور ختم نبوت کا حلف نامہ اصلی حالت میں بحال ہو چکا ہے۔ سنن ابو داؤد باب الجہاد حدیث 2481 میں روائیت ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ سو دھرنے اور احتجاج کا کوئی جواز نہیں بنتا اور ایسا کرکے دھرنے والے لوگوں کے بنیادی حقوق کو غصب کر رہے ہیں جس کی اسلام بھی اجازت نہیں دیتا۔ ختم نبوت کے نام پر سیاست چمکائی جا رہی ہے۔ یہ ایک غلط ریت پڑ گئی ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی سیاسی یا مذہبی گروہ اپنے متعلقین کے ساتھ وفاقی دارلحکومت پر قبضہ جما کر نظام زندگی درہم برہم کر دیتا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ یہ ایک غلط روش ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔

حکومت اوراپوزیشن کو قومی اسمبلی میں اس حوالے سے قرار داد منظور کرتے ہوئے اس طرح کے دھرنوں کووفاقی دارلحکومت میں ممنوع قرار دینا چاہیے۔ جلسے، جلوس اور دھرنوں کے لئے فیض آباد کے قریب واقع پریڈ گراؤنڈ یا کسی اور جگہ کو مخصوص کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ دھرنا، احتجاج اور حکومت کے غلط اقدامات پر تنقید جمہوری حق ہے لیکن اس عمل میں عام آدمی اور روزمرہ کے امور پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔ شہریوں کے روزمرہ امور میں خلل پیدا کرنا اور رکاوٹ ڈالنا بھی دہشت گردی کے زمرے میں شمار ہونا چاہیے۔ یہ قانون کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس دھرنے سے ایک معصوم بچے کی زندگی جا چکی ہے۔ جاں بحق بچے کے والدین نے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تاہم ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

بہتر ہو گا کہ اس حوالے سے ایک ایس او پی بنایا جائے اور اس پر پوری طرح عمل کیا جائے۔ ایسا کوئی بھی جلسہ، دھرنا یا ہڑتال جو حکومت کی منظوری کے بغیریا مخصوص مقام سے ہٹ کر ہوکرنے کی صورت میں مؤثر قانون سازی کی جائے جس سے تجاوز کی صورت میں متعلقہ تنظیموں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔ ان دھرنوں کے سبب ہونے والے نقصانات کی ذمہ داری دھرنوں کے منتظمین پر ڈال کر ان کی جائیدادیں قرقی کر کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ ویسے بھی سڑک بند کر کے مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح احکامات موجود ہیں کہ شہریوں کو پریشانی سے بچانے کے لئے کسی بھی شخص یا تنظیم کو سڑک بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان کی معیشت دھرنوں، لانگ مارچ اور سیاسی عدم استحکام جیسی قباحتوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کونیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل کرنا ہو گا۔ خدا خدا کر کے پاکستان میں دیگر فرقہ پرست انتہا پسند تنظیموں پر کسی حد تک قابو پایا گیا تھا کہ اب سنی بریلوی انتہا پسند ی کی لہر شروع ہو گئی ہے۔ ان کی سوچ اور اپروچ کتنی بیمار ہے اس کا اندازہ دھرنے کے مقررین کی تقاریر سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک مقرر نے عبدالستار ایدھی کے جنازے میں اعلیٰ سول و عسکری شخصیات کی شرکت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ عبدالستار ایدھی بھیک مانگ کر ناجائز بچے پالتا رہا، مال روڈ پر ان بچوں کے لئے اس نے پنگھوڑے رکھے، یہ رونے والی بات ہے کہ وہ پاکستانی معاشرے کو کیا دے کر گیا ہے اور اس کو کس بات کا سیلوٹ مارا گیا ہے۔ پھر یہ مقرر ایدھی کے جنازے میں شریک ہونے والوں کو ناقابل تحریر گالیاں دیتے ہوئے ایک نرالی منطق پیش کرتا ہے کہ ایک ہزار سال سے بھاٹی چوک میں داتا گنج بخش کتنی دنیا کو پال رہے ہیں۔ عبدالستار ایدھی نے تو ساری زندگی کسی کو اپنی جیب سے کچھ بھی نہیں کھلایا اور ایک طرف ایک ہزار سال پہلے غزنی سے لاہور آکر مقیم ہونے والے داتا صاحب جن کے دربار پر آج بھی دنیا پل رہی ہے اسے تو کبھی سیلیوٹ نہیں کیا گیا۔ ایسی سوچ رکھنے والے لوگ جس دین اور ملک کے راہبر بن جائیں تو پھر اس دین اور ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).