جماعتِ اسلامی کو دائیں بازو سے خطرہ ہے


مینارِ پاکستان کے سائے میں گزشتہ ہفتے جماعتِ اسلامی کے سالانہ اجتماع میں وہ سب کچھ تھا جس کی کسی بھی جدید سیاسی کلچر میں توقع کی جاسکتی ہے۔ ایک اونچا، لمبا سا ڈیزائنر اسٹیج، باوردی حفاظتی رضاکار۔ اسٹیج پر غیر ملکی تحریکی مہمان، پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں اور جہادی تنظیموں کی نمائندگی، کچھ ہم خیال شیعہ علما، آشتی کے متلاشی اِکا دُکا مقامی غیر مسلم چہرے۔ صلیب اور ہلال کے نشان والے ’ ہمارا حق تمہارا، حق سراج الحق، ٹائپ بین المذاہب یکجہتی کے نمائندہ چند پوسٹرز، پاکستان بھر سے چنیدہ صحافی و قلم کار، ہر قابلِ ذکر چینل کے کیمرے اور ایک عکاس میڈیائی ڈرون سمیت سب ہی کچھ تو تھا۔

امیرِ جماعتِ اسلامی اور دیگر ذمہ داران کی تقاریر میں روایتی نظریاتی تڑکے کے ساتھ ساتھ کثیر جہتی عوامی منشور ؛ مزدوروں، کسانوں، نوجوانوں اور خواتین کے مسائل اور علاقائی، نسلی صوبائی معاملات پر فوکس ؛ ظالم و مظلوم کی کش مکش، غربت، جہالت، کرپشن، وی آئی پی کلچر کے خلاف جہادی عزم، حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کی عوام دشمنی اور عسکری بے اعتدالیوں کی گفتگو، حقیقی اسلامی جمہوریت کے قیام و فروغ کا ارادہ نیز قتال فی سبیل اللہ، خلافت کا خواب، کشمیر بنے گا پاکستان، ہر مسئلہ طاقت سے حل کرنے کی ذہنیت کی مذمت، جناح دراصل کیسا پاکستان چاہتے تھے، جناح کی مولانا مودودی سے توقعات و ربط، ملتِ اسلامیہ کی مضبوطی اور فروغ ِ پاکستانیت کی خواہش، اپنوں اور غیروں کی سازشیں، امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے وغیرہ وغیرہ۔ سب ہی کچھ تو سننے کو ملا۔

یوں لگا، گویا بدلے حالات سے ہم رکابی کا دباؤ، امیر سراج الحق کی جماعتِ اسلامی کو نظریاتی ری بوٹنگ، ری ڈسکوری اور ری برانڈنگ پر آمادہ کر رہا ہے۔
( یہ دیکھ کے خوشی ہوئی کہ جماعت کے فلاحی بازو الخدمت نے اپنے نام کا منرل واٹر بھی بوتل کر لیا ہے۔ ) سراج الحق کو اپنے پیشروؤں سے مختلف چیلنجز درپیش ہیں اور جماعت کے لئے سب سے بڑا چیلنج خود دایاں بازو بن چکا ہے۔

جب تک لیفٹ فعال تھا تو رائٹ کے خواندہ نوجوانوں اور کٹھ ملائیت سے تنگ متوسط طبقے کے ادھیڑ عمروں کے لئے سید مودودی کا تیار کردہ پُرکشش نظریاتی پلیٹ فارم میسر تھا جس پہ چڑھ کے کوئی بھی معتدل اسلامی ریاست کو جانے والا منطقی راستہ دیکھ سکتا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کی جماعتِ اسلامی کا نظریہ پاکستان بھی اسٹیبلشمنٹ نے قبول کرلیا اور جماعت کی اسٹریٹ پاور، نیوسنس ویلیو، ڈسپلن اور سوچ بعد از ایوب خان اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک قیمتی اثاثہ بھی بنی، جسے قوم پرستی، طلبہ طاقت اور ٹریڈ یونین تحریک کو ایک خاص رخ پر رکھنے کے علاوہ داخلی و خارجی اہداف حاصل کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا رہا۔ 1980ء کے عشرے میں بالخصوص قاضی حسین احمد مرحوم کی جماعتِ اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ افغانستان اور کشمیر کے جہاد میں شمولیت کے متلاشیوں کے لئے ایک پُرکشش استعارہ بن کے ابھری اور دونوں خطوں میں جماعت کا اپنا نظریاتی اثر و رسوخ بھی بے پایاں ہوگیا۔

مگر پھر نائن الیون ہوگیا اور عالمی سطح پر ریڈ یکلائزیشن برق رفتار ہوگئی۔ کیا مسلمان، کیا عیسائی، یہودی، ہندو، بودھ، سنی، شیعہ سب ہی ایک نئی اور مہلک شدیدیت میں مبتلا ہونے لگے۔ مغربی پالیسیوں کے تاریخی ردِ عمل کا انتہائی نتیجہ القاعدہ کلچر کی شکل میں ایسا سامنے آیا کہ اس کے مقابلے میں جماعتِ اسلامی، اخوان المسلمون، حزب اللہ، حماس جیسی جماعتوں کا پولیٹیکل اسلام لبرل لبرل سا لگنے لگا۔ چنانچہ جلد از جلد کچھ کرگزرنے کے خواہش مند بہت سے نوجوان ان جماعتوں کی سیاسی حکمتِ عملی سے برگشتہ ہو کر ٹوٹنے لگے اور متشدد و بے لچک جہاد کا حصہ بننے لگے۔

مگر جو نوجوان مزاجاً شدت پسند نہیں تھے ان کے لئے تحریکِ انصاف جیسے متبادلات ابھرنے لگے۔ اب تصویر کچھ یوں ہے کہ ایک جانب ریڈیکل جہادی قتّالہ تنظیمیں باعثِ کشش ہیں، دوسری جانب دائیں بازو کا لبرل اسلامک رنگ لئے تحریکِ انصاف ( ترکی کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی یا تیونس کی النہضہ وغیرہ ) جیسے پلیٹ فارم پیدا ہوچکے ہیں اور کہیں بیچ میں جماعتِ اسلامی ( اور اخوان المسلمون ) وغیرہ موجود ہیں، جن کا روایتی حلقہِ اثر لبرل دایاں بازو یا الٹرا رائٹسٹ گروہ تیزی سے کترنے میں مصروف ہیں۔

جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا معاملہ ہے تو کئی گروہ اور تنظیمیں اس کے اہداف کا براہِ راست یا بلاواسطہ بوجھ ”اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے“ کی شرط پر چاروں کھونٹوں اٹھانے کو تیار ہیں۔ اب جماعتِ اسلامی ساتھ نہ بھی دے تو اسٹیبلشمنٹ کوخاص فرق نہیں پڑتا۔ یہ تبدیل شدہ صورت حال جماعتِ اسلامی کے لئے بہتر ہے بشرطیکہ وہ عوام سے نیا سیاسی رشتہ بنانے کے لئے اپنے پاؤں پر چلنا چاہے۔ مینارِ پاکستان کا کنونشن شاید اسی سمت آگے بڑھنے کی کوشش ہے۔

اس کنونشن میں ہونے والی تقاریر سے ایسا لگا کہ خود جماعتِ اسلامی کے اندر بھی روایت پسندوں اور تبدیلی پسندوں کے درمیان غیر اعلانیہ کشمکش جاری ہے۔ نظریاتی جماعتوں میں ایسی کشمکش کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی۔ یہ کوئی بری بات نہیں۔ اس کشمکش کے تناظر میں جماعت کے سامنے تین راستے ہیں : پہلا یہ کہ جہاں ہے اور جیسی ہے کی بنیاد پر ’ چلتی ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ ’ کے مصداق رواں رہے حتیٰ کہ ماضی ہو جائے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ جارحانہ نظریاتی مارکیٹنگ اختیار کرکے ان تمام گروہوں سے زیادہ شدت پسند ہو جائے جن کی جانب نوجوان کھچتے جا رہے ہیں، مگر اس راہ کو اپنانے میں قباحت یہ ہوگی کہ جماعت اپنے تربیتی و سیاسی مزاج کے اعتبار سے ایک حد سے زیادہ شدت پسند کبھی نہ ہو پائے گی اور ہانپ جائے گی۔ تیسری راہ یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی مصر میں اخوان المسلمون کی اقتداری ناکامی اور ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی اقتداری کامیابی کے اسباب کا سنجیدگی سے مطالعہ کرے اور اپنے پولیٹیکل اسلامک ہدف کے حصول کے لئے عصرِ حاضر کی نفسیات اور تجربات کی روشنی میں اپنے لئے کوئی راستہ نکالے۔

مجھے ذاتی طور پر ”امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے“ کے نعرے پر بالکل اعتراض نہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ امریکہ کے تمام یاروں کی عوام دشمن پالیسیوں پر ایک شفاف اور واضح بنیادی موقف اپنانے کی بھی ضرورت ہے اور یہ بتانے کی بھی ضرورت ہے کہ کن حالات میں سور حلال ہے اور کن حالات میں حرام ؛ تاکہ وہ لوگ بھی جماعتِ اسلامی کے نظریاتی اخلاص کی قدر کرنا سیکھیں جو اب تک اسے مصالحتی سے زیادہ مصلحتی سمجھتے آئے ہیں۔

ایک بات اور۔ اگر جماعتِ اسلامی ایسے پاکستان کی وکیل ہوجائے جو مسلمانوں کا نہیں بلکہ پاکستانیوں کا ہو تو عین ممکن ہے کہ جماعت کی لاٹری نکل آئے اور سراج الحق صاحب کو وہ مطلوبہ ایک کروڑ ووٹ بھی پڑ جائیں جن کے عوض جماعتِ اسلامی نے پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی منصفانہ عوامی نظام دینے کا وعدہ کیا ہے، کیونکہ یہ تو جماعت ثابت کر ہی چکی ہے کہ آج بھی اس جیسا نظم، ملک گیریت، سادگی اور اندرونی جمہوریت پاکستان کی کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت میں نہیں۔ سراج الحق کی جماعتِ اسلامی کیا یہ چیلنج قبول کر پائے گی؟
2014۔ 11۔ 27


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).