انصاف بھائی انصاف!


خاندانی اقتدار کی تین صدیاں اور ذاتی اقتدار کی تین دہائیاں پوری ہوچکی تھیں۔ اب محل میں دیواروں کے کان کھڑے ہونے لگے تھے، حرم میں ہونے والی کھسر پھسر تندوتیز گفتگو میں بدلنے لگی اور سازشیں سرگوشیوں سے نکل کر بلند آہنگ لہجوں میں ڈھلنا شروع ہوگئیں۔ قلعہ کی غلام گردشوں میں مسلسل ارتعاش کے باوجود بہت سے لوگ پرسکون تھے، اس اطمینان کی وجہ یہ حسن ظن تھا کہ سلطان اور تخت کے اگلے وارث کو یک جان و دو قالب سمجھا جاتا تھا۔ تھا بھی تو ایسا ہی کہ دونوں ہی اچھے منتظم اور قانون کے پابندتھے، دونوں بہترین جنگجو، تلوار باز اور شہہ سواربھی تھے، دونوں کو اپنے خاندان سے بہت پیار اور عوام سے انتہا کا انس تھا، رعایا دونوں کو سلطنت کا اثاثہ سمجھتی تھی اور دونوں ہی رعایا میں بے پناہ مقبول بھی تھے۔

باپ اگر تین براعظموں پر پھیلی سلطنت کا سلطان تھا تو بیٹارعایا کے ساتھ ساتھ فوج میں بھی یکساں مقبول ہونے کی وجہ سے سلطنت کا اگلا وارث بننے کا سب سے مضبوط امیدواربھی تھا۔ دونوں باپ بیٹے میں پیار بھی بہت تھا، بیٹا باپ پر جان چھڑکتا تو باپ بھی بیٹے کو دیکھ کر سانس لیتا تھا۔ محبت اور شفقت کا یہ مثالی رشتہ لیکن حرم کے اندر اور پرشکوہ محل کے باہر بہت سے لوگوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح چبھتا بھی تھا۔ ایسے ہی عناصر نے باپ بیٹے کے پیار کی بلند فصیلوں میں شکوک کے شگاف ڈالنا شروع کردیے۔ یوں سازشیوں کی محنت رنگ لائی اور سلطان کو آہستہ آہستہ یقین دلادیا گیا کہ شہزادہ باغی ہوچکا ہے اور تخت پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے۔

فارس کی مہم سے واپسی پر سلطان نے قونیہ کے علاقے ”ایرگلی“ میں پڑاؤ ڈالا جہاں شہزادے کے خلاف سازش کا آخری ایکٹ چلنا تھا۔ طلب کیے جانے پر شہزادہ حاضر ہوا تو سلطان کے خیمہ میں داخل ہونے سے پہلے شہزادے کو مکمل طور پر غیر مسلح کردیاگیا۔ شہزادہ بے فکر تھا کہ وہ تو اپنے پدر کے پاس جارہا ہے لیکن خیمہ میں داخل ہوتے ہی (گونگے اور بہرے سپاہیوں پر مشتمل) سلطان کے ذاتی محافظ شہزادے پر پل پڑے۔ زور آور شہزادے نے خود کو چھڑانے کی کوشش تو بھرپور کی، لیکن بیسیوں محافظوں نے شہزادے کو زمین پر گراکر اُس کی گردن میں پھندا ڈالا اور پوری قوت سے گانٹھ کو کھینچ لیا۔ چند ثانیوں میں ہی روح شہزادے کے خاکی جسم سے پرواز کرچکی تھی۔ سازشیوں کے پیدا کیے شکوک پر اپنے ہی لخت جگر اور سب سے لائق شہزادہ مصطفی خان کی جان لینے والا کوئی اور نہیں بلکہ سلطنت عثمانیہ کا سب سے ذی حشم سلطان سلیمان خان عالیشان تھا، جس کے نام سے پورا یورپ لرزتا تھا۔

شہزادہ مصطفی کے قتل کا یہ المناک واقعہ 1553ءمیں موجودہ ترکی میں پیش آیا۔ اِس المناک واقعہ نے یورپ کے ادب اور فنون کو بہت متاثر کیا، موسیقاروں نے طربیہ دھنیں شہزادہ مصطفی کے نام کیں اور شاعروں نے مرثیوں اور نوحوں کے دریا بہا دیے۔ اس سانحہ پر ہزاروں مضامین اور کتابیں لکھی گئیں، فلمیں بنیں، المیہ ڈرامے اسٹیج کیے گئے۔ استنبول میں آسٹرین سفیر ”آگیئر گاسلین بسبیک“نے اپنی کتاب ”خطوط ترکی“ میں اس واقعہ کے عینی شاہدین کے تاثرات قلمبند کرتے ہوئے لکھا کہ ”سلطان سلیمان نے شہزادہ مصطفی کے قتل کا منظر ایک باریک جالی دار کپڑے کے پیچھے سے دیکھا۔ آخری سانس لینے سے پہلے شہزادہ مصطفی نے جو جملہ کہا، اس نے ساری سازش بے نقاب کردی، لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی، سلطان سلیمان کئی دن تک مصطفی کی لاش کے پاس بیٹھ کر روتا رہا“۔

القانونی کے لقب سے مشہور سلیمان جیسے سلطان سے اِس طرح کی نا انصافی کی کسی کو بھی توقع نہ تھی کیونکہ شہزادہ مصطفی کے خلاف الزامات کی تحقیقات کی گئیں نہ کوئی تفتیش ہوئی۔ مصطفی کو صفائی کا موقع دیا گیا نہ ہی انصاف کے بنیادی تقاضے پورے کیے گئے، سازشیوں کے جال میں پھنس کر سلیمان نے نہ صرف مصطفی جیسا ہیرا گنوا دیا، بلکہ دنیا کی سب سے عظیم سلطنت عثمانیہ کے زوال کی پہلی اینٹ بھی خود ہی رکھ دی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ سلطنتیں ہوں یا خاندان عموما اُنہیں اِسی طرح زوال آتا۔ شہزادہ مصطفی کے سانحہ کے ساڑھے چار سو سال بعد شریف خاندان بھی اِس وقت اُسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہے۔ شریف خاندان کے اقتدار میں آنے کی تین دہائیاں بھی پوری ہوچکی ہیں۔ قرائن سے یہی لگتا ہے کہ پانامہ کیس شروع ہونے کے بعد اقامہ اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے الزام پر نا اہل قرار دیے جانے والے میاں نواز شریف بھی اس وقت ”ایرگلی“ میں خیمہ زن ہیں۔ حرم میں ہونے والی کھسر پھسر تندوتیز گفتگو میں بدل رہی ہے، سازشیں سرگوشیوں سے نکل کر بلند آہنگ لہجوں میں ڈھل رہی ہیں اورمحل میں دیواروں کے کان کھڑے ہونے لگے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان محبت کی پختہ نیوہوں کو شکوک کی کدالوں سے کھودنے کی کوشش کی جارہی ہے اور شبہات کے بیج بوکر شریف خاندان میں نفا ق کی پنیری لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

شریف خاندان کے قلعہ کی غلام گردشوں میں مسلسل ارتعاش کے باوجود اگرچہ بہت سے لوگ پرسکون ہیں، لیکن جو پرسکون نہیں ان کے نتھنے باہر سے نہیں بلکہ حرم کے اندرسازش کی بو سونگھ رہے ہیں۔ غیر مطمئن متوالوں کہتے ہیں کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے، ورنہ بند کمرے میں باہمی مشاورت سے بڑے بڑے فیصلے کرلینے والے دونوں بھائیوں کے درمیان ایسا کیا ہوا کہ میاں شہباز شریف کو ڈائیس، مائیک، کیمروں اور درجنوں ٹی وی چینلز کا سہارہ لے کر سرعام کہنا پڑا کہ ”جھنڈا اور گاڑی کے لئے پارٹی میں آنے والوں کی بجائے ان لوگوں سے مشاورت کریں، جو آپ کے سامنے بیٹھیں ہیں“۔ کوئی تو بات ہے کہ این اے 120 کے انتخاب میں حمزہ شہباز پر اعتماد نہ کیا گیا؟

کوئی تو الجھن ہے کہ شہباز شریف بھی بار بار اداروں سے تصادم نہ کرنے کا بیان دے رہے ہیں۔ کوئی تو مسئلہ ہے کہ شہباز شریف مخالفین کے خلاف تو بیان دے رہے ہیں، لیکن اپنے بھائی کے حق میں بلند آہنگ لہجہ اختیار کرنے سے کترارہے ہیں۔ ریاض پیرزادہ نے پارٹی قیادت سنبھالنے کا مشورہ دیا تو چھوٹے بھائی کے لہجے میں جالب کیوں ناں اترا؟ کہ ”میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا“۔

پارٹی قیادت سنبھالنے کے معاملے پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بجائے پنجاب اسمبلی میں اس قدر تفریق اور تقسیم کیوں پائی جاتی ہے؟ میاں نواز شریف عمرہ پر سعودیہ عرب گئے تو شہباز شریف ان کے ہمراہ کیوں نہ تھے؟ یا یہ کہ چھوٹے بھائی کی جانب سے بڑے بھائی سے متعلق وضاحتی بیان کیوں نا آیا؟ اگرچہ نواز شریف بھی شہباز شریف کے لئے محبت کا ویسا ہی پہاڑ ہیں، جیسا تاریخ نے سلیمان کو مصطفی کے حق میں دیکھا، لیکن سوالات کی یہ پٹاری ہی تو ہے، جس میں سے پھن نکال کر شکوک کے سنپولیے باہر آرہے ہیں۔ یہ سنپولیے شروع میں کچل نہ دیے جائیں تو نفاق کے ایسے زہریلے ناگ بن جاتے ہیں، جس کاڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔ آسٹرین سفیر لکھتا ہے کہ آخری سانس لینے سے پہلے مصطفی نے پورا زور لگاکر پکارا تھا ”آقا، انصاف! آقا، انصاف!“۔ اگر شریف خاندان کی قسمت میں ٹریجڈی لکھی جاچکی ہے تو دیکھنا ہے کہ آخری جملہ کون بولتا ہے؟ بھائی انصاف! بھائی انصاف!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).