بچوں کی تربیت اور اساتذہ کا کردار


پہلے زمانوں میں کسی کی فکر معلوم کرنے کے لیے، اس شخص کے پاس جانا پڑتا تھا، اور اس سے کسی بھی معاملے کے بارے میں پوچھا جاتا تھا، تاکہ اس کی بصیرت سے آگاہی حاصل کی جاسکے۔ اس کے فہم کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکیں۔ بھلا ہو فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کا، کہ اس نے یہ کام آسان کردیا ہے۔ بس اب کسی کو اپنے فرینڈ لسٹ میں ایڈ کرلو اور نیوز فیڈ کے سیکشن میں اس کے زریں خیالات آپ پر آشکارہ ہوتے رہیں گے۔

آج نیوز فیڈ میں مجھے ایک استانی صاحبہ کی پوسٹ دکھائی دی۔ محترمہ صدمے سے بے حال تھیں، کہ ان کی کلاس کی بچیوں میں سے، کسی کو گلوگارہ بننا تھا، تو کوئی قندیل بلوچ سے متاثر تھی۔ استانی صاحبہ نے جب اپنی شاگرد سے اس کی پسندیدگی کی وجہ پوچھی، تو اس کی اسٹوڈنٹ گویا ہوئی، قندیل بلوچ مظلوم تھیں، وہ اپنی فیملی کو اسپورٹ کرتی تھیں، اور وہ اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتی تھیں۔ استانی کے استفسار پر کہ یہ آپ کو کیسے پتا! جواب آیا کہ اس کو یہ سب کچھ قندیل بلوچ پر بننے والے ایک ڈراما سیریئل سے معلوم ہوا۔

استانی صاحبہ نے اپنے دکھ کا اظہار یوں کیا، کہ وہ اتنی افسردہ ہوئیں، ان کا دل چاہا کہ اپنا سر دیوار پر دے ماریں۔ محترمہ کو سماج کے مستقبل کی فکر لاحق تھی۔ اب کے بقول انھوں نے پیریڈ کے باقی بیس منٹوں میں، بچیوں سے ان عظیم خواتین کا تعارف کروایا، جنھوں نے حق کی سربلندی کی خاطر اپنی جان، اپنا مال حتی کہ اولاد تک قربان کردی۔

آسیہ علیہ السلام سے لے کر، فاطمہ بنت محمد رضی اللہ عنہا کی مثالیں بھی دیں۔ موصوفہ کے کہنے کے مطابق طلبا کے چہروں کے تاثرات سے ایسا لگا، کہ کچھ اثر بھی ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی فرمانا تھا، کہ اس کا وقتی اثر تو ہوگا، لیکن تادیر نہیں۔ اور یہ بھی کہا، چوں کہ سارا قصور والدین کا ہے تو والدین کے ساتھ بھی ایک نشست رکھیں گی، تاکہ وہ بچیوں کے ماحول کو بدل دیں اور جس سے بچیوں کی زندگی اور سوچ میں تبدیلی آئے گی۔

محترمہ نے تو بچیوں کو گزشتہ عہد کی نامور خواتین کے بارے میں تو بتایا، لیکن زمانہ حال میں ایسی کسی خاتون کے بارے میں نہ بتاسکیں، اور ناہی خود ان خواتین کی سنت کے مطابق زندگی گزار کر اپنا عملی نمونہ پیش کر سکیں۔ مجھے کہنا پڑے گا کہ بچیوں کو محض پرانی کہانیوں پر نہیں ٹرخایا جاسکتا۔ ان کو عملی نمونہ دکھانا پڑتا ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ آپ ایک بچے کو منج دھار میں چھوڑ کر اس خوش فہمی میں آگے بڑھ جاتے ہیں، کہ میں نے تو اس کو منج دھار کا مطلب سمجھادیا ہے، باقی وہ خود نمٹ لے گا۔

کہتے ہیں کہ جب اساتذہ کو تربیت دی جارہی ہوتی ہے، تو انھیں سمجھایا جاتا ہے، کہ جب جب سبق میں ”چھلانگ“ لفظ آئے، تو آپ نے اس وقت چھلانگ لگاکر طالب علموں کو اس کا عملی نمونہ دکھانا ہے۔ کیوں کہ یہ ممکن ہے، صرف تھیوری پڑھنے سے بچہ سبق بھول جائے، لیکن پریکٹیکل دیکھنے کے بعد ایسا لفظ، اس کے ذہن میں نقش ہوجائے گا۔

موجودہ حالت میں طالب علم کو خصوصی رہنمائی درکار ہے۔ اگر کوئی طالب علم کہے کہ میں نے بڑا ہوکر شاہ رخ خان بننا ہے اور آپ جھٹلائیں کہ نہیں خالد بن ولید بن جاو، کیوں کہ وہ ایک بہادر انسان تھے۔ انھوں نے اسلام کی خدمت کی، وہ سپہ سالار تھے۔ بلاشبہ ایسا کہنا غلط نہ ہوگا، لیکن کیا دور حاضر کا وہ طالب علم لاکھ کوششیں کرکے حضرت خالد بن ولید بن جائے گا؟ نہیں! بلکہ ہوگا یہ کہ وہ ملاعمر یا ملا فضل اللہ کو اس دور کا خالد بن ولید ماننے لگے گا۔ ان کی پیروی کرے گا۔ سو ایک دہشت گرد بن جائے گا۔

ہمیں زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کے مثالیں دینا چاہیے۔ ماضی میں حالات اور تھے اور آج حالات بدل چکے ہیں۔ اساتذہ کا اپنے کردار سے پہلو تہی کرنا، والدین کو بچوں کی تربیت کے حوالے سے الزام دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔

میرے خیال میں تربیت کے لیے والدین سے زیادہ، اساتذہ ذمہ دار ہیں۔ اساتذہ کے پاس فہم ہوتا ہے جب کہ ضروری نہیں کہ ہر بچے کے والدین کے پاس فہم و ادراک ہو۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ اکثر بچوں کے والدین کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ ہوتے ہیں، کچھ کے والدین مزدور یا معاشرے کے پس ماندہ طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

وہ والدین اپنے بچے اسکول اس لیے بھیجتے ہیں، تاکہ اساتذہ ان کی صحیح معنوں میں تربیت کرسکیں، نہ کہ الٹا اساتذہ، والدین کو بچوں کی تربیت کا دوش دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).