سرحدیں انسانوں کے لیے ہیں


جاوید گاؤں کا ایک معمولی راج گیر ہے۔ آلتی پالتی مارے سڑک کے کنارے بیٹھا گاؤں کے لڑکوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھ رہا ہے۔ گیند بازوں اور بلے بازوں کے دوڑنے سے دھول کے بادل اٹھ رہے ہیں۔ شام ڈھلنے کو ہے اور گرد آلود دھند سی چھا رہی ہے۔ جاوید ہنس مکھ ہوا کرتا تھا مگر آج خلاف معمول اداس دکھائی دیتا ہے۔ پوچھنے پہ پتہ چلا کہ اس کا آٹھ سالہ اکلوتا بیٹا دل کے عارضے میں مبتلا ہے۔ آپریشن ناگزیر ہے۔ پاکستان میں اس آپریشن کی سہولت میسر نہیں۔ پڑوسی ملک کے دارالحکومت دلی میں علاج ہو سکتا ہے۔ غریب راج گیر کے لیے دلی علاج کروانا ممکن نہیں۔ گاؤں کے ایک نوجوان نے بھاگ دوڑ کر کے بچے کے علاج کے لیے پنجاب حکومت سے فنڈ منظور کروائے تو جاوید کی امیدوں کے چراغ روشن ہو گئے۔ اب کئی مہینوں سے وہ انتظار اور فکر میں گھلا جا رہا ہے کہ نہ جانے کب سرحد پار کسی مسیحا کے ہاتھوں اس کا بیٹا صحت یاب ہو گا۔ اس کے ذہن میں ایک سوال تھا جو اس نے مجھ سے بھی پوچھا۔ ”یہ سرحدوں پہ اتنی سختی کیوں ہوتی ہے؟ بیمار کی زندگی بچانے کے لیے سرحدوں کی پابندیاں کیوں؟ “

میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ مجھے امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی نظم MENDING WALL یاد آئی جس میں دو کسان اپنے کھیتوں کی سرحد پہ بنی دیوار کی مرمت کرتے ہیں۔ ایک کسان سوال اٹھاتا ہے کہ ہمیں دیوار بنانے کی کیوں ضرورت پڑ گئی حالانکہ وہاں مویشیوں کے اجاڑے کا بھی خدشہ نہیں۔ ان کے درخت بھی الگ الگ کھڑے ہیں۔ ایک کے پائن اور دوسرے کے سیب کے پیڑ ہیں۔ فطرت دیوار کو گراتی ہے اور کسان اس کو دوبارہ مرمت کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے کسان کا خیال ہے کہ اچھی اور مضبوط دیواریں یا باڑیں ہی پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کی ضامن ہوتی ہیں۔ پہلا کسان اس سے متفق نظر نہیں آتا۔ اس کے ذہن میں ابھرا سوال جوں کا توں موجود ہے کہ دیواریں کیوں ضروری ہوتی ہیں۔

جاوید کے سوال کا جواب کیا ملنا تھا الٹا مزید سوالات جنم لیتے گئے۔ میں سوچنے لگا کہ سن سنتالیس کی تقسیم میں جو لوگ اپنا گھر بار چھوڑ آئے، جو عمر بھر اپنے گاؤں کی گلیوں اور پیڑوں کو یاد کرتے رہے وہ اپنے درودیوار کو ایک بار بھی کیوں نہ چھو سکے؟ جہاں وہ پیدا ہوئے، بچپن گزارا، پلے بڑھے اس آنگن کو دوبارہ کیوں نہ دیکھ سکے؟ سرحد کے دونوں پار بستے مہاجرین اپنی جنم بھومیوں سے چند منٹوں کے فاصلے پر رہتے ہوئے بھی صدیوں کے فاصلوں پہ کیوں رہے؟ پڑوسی ہو کر بھی جنموں کے اجنبی کیوں ٹھہرے؟

ھم لوگ پیشہ ورانہ ٹریننگ کے سلسلہ میں تھائی لینڈ گئے تھے۔ سکھموت روڈ بنکاک کے ایک ہوٹل میں قیام تھا۔ میرا دوست عمران فاروقی اور میں ناشتے کی میز بیٹھے تھے کہ مسکراتے چہرے والی خاتون سے ملاقات ہو گئی جس کی عمر قریبا 45 برس تھی۔ باتوں سے معلوم ہوا کہ وہ ممبئی کی اداکارہ تھی جو کسی سیلولر کمپنی کے اشتہار کی شوٹنگ کرنے بنکاک آئی تھی۔ کسی بھی بھارتی شخص سے ہماری پہلی ملاقات تھی۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ ممبئی سے آئی تھی بلکہ یوں دکھائی پڑتا تھا جیسے لاہور سے آئی ہو۔ ہم لوگ ایک دوسرے کے دیسوں کے بارے بہت دیر بات کرتے رہے تھے۔ وہ پاکستانی فنکاروں کی فین تھی۔ نصرت فتح علی خاں، مہدی حسن اور ریشماں اس کے پسندیدہ گلوکار تھے۔ اسی ہوٹل کے سوئمنگ پول پہ چند سکھوں سے بھی گپ شپ ہوئی تھی جو ٹھیٹ پنجابی میں بات کر رہے تھے۔ دلی رہتے تھے۔ ان کے دادا کبھی چکوال کے باسی تھے۔ بٹوارے میں دلی جا بسے تھے۔ ننکانہ صاحب جنم استھان کا ذکر گہری عقیدت سے کر رہے تھے۔ ان کو بابا فرید گنج شکر کے کتنے ہی شعر زبانی یاد تھے۔

ہمیں تھائی ڈشز کا ذائقہ بالکل نہ بھاتا تھا لہذا ہوٹل کے پہلو میں انڈین سارس ریستوران جا بیٹھتے تھے۔ سموسے، دال چاول اور سبزی کا وہی دیسی مزہ ہوتا تھا جس کے ہم عادی تھے۔ ریستوران میں کام کرنے والے بھارتی بیروں سے علیک سلیک بھی ہو جاتا۔ محمد رفیع اور لتا منگیشکر کی مدھر آوازوں میں فلمی گیت بھی سننے کو مل جاتے تھے جو ہر وقت بیک گراؤنڈ میوزک کے طور پہ بجتے رہتے تھے۔ پھر ایشین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی بنکاک میں ہمیں لیکچر دینے والی ڈاکٹر کانو پریا موہن کا تعلق چندی گڑھ سے تھا۔ پاکستانی افراد سے ملنے پر ان کی خوشی دیدنی تھی۔ پاکستان گھومنے کا ان کا دیرینا سپنا تھا جو تا حال ادھورا تھا۔ گروپ فوٹو میں ڈاکٹر کانو پریا موہن، عمران فاروقی اور میں ایک ہی دیس کے باسی دکھتے ہیں۔

میں حیراں تھا کہ ہماری اور بھارتی لوگوں کی کتنی چیزیں ایک سی تھیں۔ شکل و صورت، رنگ ڈھنگ، نین نقش، لباس، بول چال، پکوان اور کلچر سب کچھ ایک جیسا تھا۔ کتنی جلدی ایک دوسرےسے مانوس ہو گئے تھے۔ جیسے دو پڑوسی عرصے بعد گھر سے دور کہیں ملے ہوں۔ تب بھی سوچا تھا کہ ہم ایک سے دکھتے ہیں۔ ساتھ ساتھ بستے ہیں۔ پھر بھی درمیان میں لمبے فاصلے کیوں؟ رابرٹ فراسٹ کی نظم میں دیوار کھڑی کرتے بوڑھے کسان نے تب بھی کڑک کے کہا تھا کہ پڑوسیوں کے اچھے تعلقات کے لیے دیواریں ضروری ہوتی ہیں۔

جاوید اور اس کے بیٹے کے لیے نیک خواہشات۔ ساتھ معذرت بھی کہ آپ کے سوال کا جواب مجھے سجھائی نہیں دیتا۔ کوئی صاحب دانش ہی اس کا جواب کھوج سکتا ہے۔ میرے دماغ میں تو بس بھارتی شاعر جاوید اختر کی نظم ہی شہد کی مکھی کی طرح بھنبھنا رہی ہے۔

پنچھی، ندیا، پون کے جھونکے
کوئی سرحد نہ انہیں روکے
سرحدیں‌ انسانوں کے لئے ہیں
سوچو! تم نے اور میں نے
کیا پایا انساں ہوکے

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti