فیض آباد دھرنا اور مذہبی تقدس کا سوال


اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم اور وزیر داخلہ احسن اقبال کی اپیل کے باوجود رات گئے تک مظاہرین نے فیض آباد انٹر چینج پر اپنا دھرنا ختم نہیں کیا تھا۔ یہ دھرنا وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کے لئے کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ انتخابی قانون مجریہ 2017 کی منظوری کے دوران جان بوجھ ختم نبوت پر ایمان رکھنے کے بارے میں حلف نامہ کو حذف کیا گیا تھا اور اس سازش میں وزیر قانون شامل تھے، اس لئے وہ اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیں۔ حکومت نے اسے سہو قرار دیتے ہوئے ایک ترمیم کے ذریعے اس کی اصلاح بھی کر لی تھی اور کل مزید ترمیم کے ذریعے ختم نبوت پر ایمان رکھنے کا حلف نامہ اردو اور انگریزی زبانوں میں قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ وزیر قانون نے اس موقع پر ختم نبوت پر اپنے غیر متزلزل یقین کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اور ان کے بچے حرمت رسول ؑ پر جان قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ تاہم اس جذباتی تقریر کا بھی مظاہرین پر کوئی اثر نہیں ہؤا۔ قیاس ہے کہ حکومت آج رات مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کرے گی۔

حکومت نے دس روز تک اس دھرنے کو برداشت کیا ہے۔ اسلام آباد جانے والی ایک اہم شاہراہ کو روکنے کی وجہ سے اس دوران اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی انتظامیہ اور حکومت کے نمائندوں نے اس دوران لبیک یا رسول اللہ اور سنی تحریک کے لیڈروں سے بات چیت کے ذریعے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان تنظیموں کے لیڈر جو بد کلامی اور اشتعال انگیز گفتگو میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، کسی سمجھوتے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ آج اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم آنے کے بعد حکومت نے بالآخر اس مظاہرہ کے خلاف اقدام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کو اندیشہ ہے کہ مظاہرین نے پتھر جمع کئے ہوئے ہیں اور بعض شر پسند عناصر بھی ہجوم میں شامل ہیں جو مسلح ہیں۔ اس لئے کسی بھی سختی کی صورت میں تصادم ہونا یقینی ہے۔ اسلام آباد کے ہسپتالوں میں اسی اندیشے کے پیش نظر ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں اور انہیں کسی بھی ایمرجنسی کے لئے تیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

فیض آباد پر مظاہرہ کرنے والوں کی تعداد پندرہ سو سے دو ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ ایک شاہراہ کو روک کر یہ لوگ ایک سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ دین کی حرمت کا سوال ہے۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے البتہ یہ مظاہرین اور ان کے لیڈر دین کے سب تقاضوں کو فراموش کئے بیٹھے ہیں۔ خاص طور سے ان مذہبی لیڈروں کی بدکلامی اور دشنام طرازی کی وجہ سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جو گروہ اسلامی عقائد کی تحفظ کی بات کررہا ہے اور رسول پاک کی حرمت کا پاسبان ہونے کا دعویدار ہے، اس کے لیڈر اس قدر مغلظ زبان اور دھمکی آمیز طرز عمل کس اسلامی تعلیم یا اسلاف کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اختیار کرتے ہیں۔ جو لوگ خود رسول پاک ؑ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے اور بنیادی احکام کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں، وہ ملک میں تقدس رسول کی حفاظت کرنے کے دعوے دار بنے ہوئے ہیں۔ شاہراہوں کو روکنا اور شہریوں کے لئے باعث زحمت بننا بنیادی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے لیکن اس طریقہ کو اپنا کر خود ستائی، گھمنڈ اور انسانوں کی تکلیف و پریشانی کی پرواہ نہ کرنے کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

اس صورت حال کی ذمہ داری اصولی طور پر ملک کے سیاسی حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جو کسی بھی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور احتجاج کرنے والوں کے مطالبے ماننے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ خاص طور سے ختم نبوت اور حرمت رسول کا معاملہ چونکہ انتہائی حساس بن چکا ہے اس لئے کوئی بھی سیاسی لیڈر اس حوالے سے اصولی بات کرنے اور مختلف گروہوں کے ناجائز رویہ کو مسترد کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا۔ کل قومی اسمبلی میں انتخابی ترمیمی بل کی منظوری،وزیر قانون کی ختم نبوت پر ایمان کی یقین دہانی اور آج وزیر داخلہ کا یہ اعلان کہ وہ بھی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور مظاہرہ کرنے والوں ہی کی طرح راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔۔۔ دراصل دین کے نام پر احتجاج کرنے والے گروہوں کو یہ حق دینے کے مترادف ہے کہ وہ جب بھی جائز یا ناجائز طریقے سے کوئی بھی مطالبہ کریں گے، حکومت اسے ماننے پر مجبور ہوگی۔ کیوں کہ دین کے حوالے سے طے کر لیا گیا ہے کہ نہ اس کے بارے میں عقل و شعور کی بات کی جا سکتی ہے اور نہ دلیل دی جا سکتی ہے ورنہ فریق مخالف ’کافر‘ قرار دے کر لوگوں میں مزید اشتعال پیدا کرنے لگے گا۔ لبیک یا رسول اللہ کے حامیوں اور لیڈروں نے حکومت کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔

یہ سارا قضیہ ملک کی ایک چھوٹی سی اقلیت احمدی العقیدہ لوگوں کو مسترد کرنے کے بارے میں ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کی پاکستان میں احمدیوں کے خلاف قانون سازی اور سماجی منافرت کے نتیجے میں ملک میں احمدی آبادی میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت پاکستان میں احمدیوں کی تعداد بیس لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ یہ لوگ نہ تو اپنا ووٹ رجسٹر کرواتے ہیں اور نہ ہی انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ اس لئے اس بات کا کوئی امکان موجود نہیں ہوتا کہ کوئی احمدی منتخب ہو کر اسمبلی تک پہنچ جائے گا اور ختم نبوت پر ایمان کا حلف نامہ موجود نہ ہونے کی صورت میں قومی معاملات پر اثر انداز ہونے لگے گا۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی احمدی واقعی عقیدہ تبدیل کرلے اور حلفاٌ یہ اعلان کرے کہ وہ سواد اعظم کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت پر ایمان لے آیا ہے تو بھی کوئی اس کی بات کو سچ تسلیم نہیں کرے گا۔ بلکہ مذہبی گروہ اسے بھی احمدیوں کی سازش قرار دے کر مسترد کردیں گے۔ ایسی صورت میں ختم نبوت کے حلف نامہ کی عملی حیثیت صرف یہ رہ جاتی ہے کہ ملک کا نظام اور مذہبی رہنما ہر اس مسلمان کو بے عقیدہ قرار دیں گے جو اس قسم کے حلف نامہ کو غیر ضروری اور اپنے ایمان پر حرف زنی کے مترادف سمجھتا ہو۔

ایک طرف یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عقیدہ میں جبر نہیں ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت و اپوزیشن یکساں طور سے ختم نبوت حلف نامہ کو قانون کا حصہ بنانا ضروری سمجھتے ہیں تو عملی طور سے ملک کا نظام عقیدہ کے معاملہ میں جبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اور مذہبی جماعتوں سے لے کر سیاست دان تک، سب اس میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ حلف نامہ ان مسلمانوں کی طرف سے اس یقین دہانی کا اعلان ہوتا ہے جو عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوتے ہیں۔ گویا ملک کا قانون اور نظام ہر مسلمان کو اس وقت تک شبہ کی نظر سے دیکھے گا جب تک وہ ایک اقرار نامہ پر دستخط نہ کرے۔ دین کے نام پر جبر اور ظلم کی اس سے بدتر مثال تلاش کرنا ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali