دار المصنفین اعظم گڑھ کا علمی شاہکار ماہنامہ معارف


انگریزوں کے جبرو استبداد نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو جانی اور مادی نقصان سے دوچار کیا، بلکہ دل کے کالے، انسانیت کے دشمن، تن کے گورے انگریزوں نے ملت اسلامیہ ہندکیتمام کارناموں، سائنسی اور مذہبی فیوض وبرکات کے علاوہ ان کی علمی فتوحات اور تحقیقات کو بھی ملیامیٹ کردینے کی سازشیں مرتب کیں، ایک طرف برطانوی سامراج اسلامی علوم و معارف کے چشمۂ صافی کے موجیں مارتے سوطوں کو خشک کرنے میں ساری طاقت جھونک رہے تھے، تو دوسری جانب اپنی علمی اور تعلیمی وراثت کو جان سے زیادہ عزیزاور خالق ارض وسماء کی امانت سمجھنے والے ملت کے جیالوں نے اس کی حفاظت اور ترویج کے لئے سینہ سپرہوکر اپنی جان کی بازی لگادی تھی۔ چناں چہ ہندوستان پرغلبہ حاصل کرلینے کے بعد انگریزوں نے ملت اسلامیہ کی علمی وراثتوں پر شب خون مارناشروع کردیا۔ بے تحاشہ عمائدین اسلام اور علم و معارف کی حامل شخصیات کو پس زنداں کرنے، ان گی گردنوں کو سولی پر چڑھانے کے ساتھ، تعلیمی اداروں پر بلڈوزر چلانے کی مہم شروع کی گئی۔ مگر قر بان جائیے اساطین اسلاف کی دوررس نگاہوں پر کہ انہوں نے ایمانی بصیر ت کی طاقت سے سامراجی سازش کاوقت رہتے ادراک کرلیا اور اس کے بعد اپنے تعلیمی سلسلہ کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے کے عزائم کو استحکام بخشنے میں حیات مستعار کا ایک ایک قربان کرتے رہے۔ حتی کہ اکابرین کے یہی عزائم ایک دن عزیمت میں تبدیل ہوگئے اور اس کے طفیل علوم دینیہ کے مضبوط اور ناقابل تسخیر قلعوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا۔ چناں چہ دارالعلوم دیو بند کے مقصد قیام اورندوۃ العلماء کے سنگ بنیادکی تاریخیں اٹھا کر دیکھ لیں، آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ان اداروں کے بانیان نے ان اداروں کے قیام کا عزم و ارادہ اسی لئے کیا تھا کہ انگریزی استبداد سے علوم اسلامی سمیت ان تمام فنون کی نگرانی اور حفاظت ہوتی رہے اور مصائب و آلام کے حملے مسلم محققین کی خدمت کودریا برد کرنے میں کامیاب نہ ہوں۔ ان اکا برین کادل ہر قسم کی دنیو ی منفعت پسندیوں سے منزہ اور پاک وصاف تھا، ان کے اذہان وا فکار خلوص کی دولت سے لبریز تھے، نہ ہمارے ان کابرین کو جن کے ہاتھوں سے ناظم کائنات نے دینی دانشگاہوں اور علمی اداروں کے قیام کا کام لیا، وہ ہر قسم کی حرص وطمع اور شہرت ونام نمود کی خواہش سے پاک اوررب کی خوشنودی کے لئے خون جگر جلانے کے جذبہ صادق سے معمور تھے۔ اگر ہم دارالمصنفین، خدابخش لائبریری اور اسی طرح دیگر اداروں کے قیام کا پس منظر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان تمام اداروں کے قیام کے پیچھے اکابرین امت کی دعوتی عزیمت اور حفاظت اسلام کی آرزوئیں ہی کارفرماتھیں۔ انہیں اداروکی اہم کڑی اعظم گڑھ میں تاریخ اسلام کے عظیم سپوت علامہ شبلی کی تحریک اور قربانیوں کے صدقے میں وجودپانے والا سراپا رشک ادارہ دارالمصنفین بھی ہے۔ جس نے اپنے قیام کی ایک صدی کا جشن 2014میں بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا ہے۔ مفتی امانت قاسمی نے اپنے ایک طویل مقالہ میں دارالمصنفین اعظم گڑھ کے قیام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ االلہ تحریروں کی روشنی میں لکھا ہے کہ۔

’’دارالمصنفین کے قیام کا خیال علامہ شبلی کے دل میں نہ جانے کب سے تھا، مگر اس کا پہلا اظہار انہوں نے مارچ 1910 ء میں ندوۃ العلماء کے اجلاس دہلی میں کتب خانہ کی ضرورت کے سلسلے میں کیا‘‘۔ اس اجلاس میں سید سلیمان ندوی نے بھی علامہ شبلی کے مشورے سے دارالعلوم کی جدید عمارت میں کتب خانہ کی ضرورت پر تقریر کی، جس میں انہوں نے دارالمصنفین کے قیام کی تجویز پیش کرتے ہوئے فرمایا :’’کتب خانہ کے سوا ایک وسیع کمرہ ارباب قلم و مصنفین کے لئے بنایاجائے، جس میں قوم کی ایک جماعت تصنیف و تالیف میں مشغول ہو اور اس عمارت کا نام دارالمصنفین ہو‘‘۔

یہ منصوبہ ابھی زیر غور تھا کہ ندوۃ العلماء میں شبلی کی مخالفت شروع ہوگئی، جس سے بددل ہو کر شبلی نے ندوہ کو خیرآباد کہہ دیا، لیکن دارالمصنفین کے قیام کا منصوبہ سرد نہیں پڑا تھا، بلکہ اس کے جائے وقوع کے سلسلے میں غور وخوض شروع ہوگیا۔ ، شبلی ندوہ میں ہی دارالمصنفین قائم کرنا چاہتے تھے، لیکن حالات اس کے موافق نہ تھے، چنانچہ مولانا مسعود علی ندوی کے ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں :

’’بھائی وہ لوگ دارالمصنفین ندوہ میں بنانے کب دیں گے کہ میں بناؤں، میری اصل خواہش یہی ہے لیکن کیا کیا جائے، حالانکہ اس میں انہی کا فائدہ ہے‘‘۔
مولانا حبیب الرحمن خان شروانی نے دارالمصنفین کے لئے اپنے وطن حبیب گنج کو پیش کیا تو شبلی کی رگ ایثار پھڑک اٹھی اور محبت بھرے لہجہ میں شروانی صاحب کو لکھا کہ : ’’آپ دارالمصنفین کو حبیب گنج لے جانا چاہتے ہیں تو میں اعظم گڑھ کو کیوں نہ پیش کروں، اعظم گڑھ میں اپنا باغ اور دو بنگلے پیش کرسکتا ہوں‘‘۔ (روزنامہ سیاست، حیدرآباد، 24کتوبر2014)

ملت اسلامیہ کے اس سر سبد ادارہ کے مقصد قیام پر روشنی ڈالتے ہوئیمفتی امانت رقم طراز ہیں، دار المصنفین اپنے قیام کے وقت سے ہی اپنے مقاصد کی حصولیابی میں مصروف ہے۔ سید سلیمان ندوی نے دارالمصنفین کو بہت جلد عالمی سطح پر متعارف کرادیا، دارالمصنفین کے قیام کے مقاصد وہی تھے، جو بیت الحکمت بغداد کے قیام کا تھا ’’دارالمصنفین کی تاریخی خدمات‘‘ کے دیباچہ میں اس کے مقاصد کو ان الفاظ میں تعبیر کیاگیا ہے :

(1) ملک میں اعلی مصنفین اور اہل قلم کی جماعت پیدا کرنا
(2) بلند پایہ کتابوں کی تصنیف و تالیف اور ترجمہ کرنا
(3) ان کی اور دیگر علمی ادبی کتابوں کی طبع و اشاعت کا انتظام کرنا

آج دارالمصنفین کی خدمات کے مطالعہ کے بعد پوری دیانتداری کے ساتھ یہ اعتراف کیا جاسکتا ہے کہ دارالمصنفین اپنے مقاصد کی حصولیابی میں بہت حد تک کامیاب ثابت ہوا ہے۔ نتیجہ کار آج دار المصنفین میں دارالتصنیف، دارالاشاعت، دارالطباعت، شعبہ رسالہ معارف، دارالکتب جیسے اہم شعبے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جس کے کارناموں اور سرگر میوں کو دیکھ کر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ سو برس سے زائد عرصہ سے اپنی اہمیت و افادیت کا احساس دلانے والا یہ نازش صدافتخار ملی سرمایہ کبھی دم توڑ بھی سکتا ہے۔ االلہ ازل تک اس کی دستگیری فرمائے۔

اسی تاریخی ادارہ کا دستاویزی سرمایہ ماہنامہ’’ معارف ‘‘بھی ہے، جس کا پہلا شمارہ جولائی 1916میں منصہ شہود پر آیا۔ اس کے اغراض مقاصد کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علامہ شبلی نعمانی نے علی گڑھ میں دوران قیام ہی ’’معارف ‘‘کے اجراء کا رادہ فرمالیا تھا۔ مگرمنشاء خداوندی شاید کچھ اور تھا، لہذا اس کی اشاعت کا سلسلہ علامہ کی رحلت کے بعد ہی ممکن ہوسکا اور وہ بھی دارالمصنفین کی سر پرستی اور احاطے میں ہی وجودمیں آیا۔

دارالمصنفین کی تاسیس سے متعلق تحریروں کے مطالعہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ’ معارف کے اجراء کا خیال شبلی کے ذہن میں علی گڑھ کے قیام کے دوران ہی آگیا تھا، لیکن کسی وجہ سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ جب شبلی نے دارالمصنفین کا خاکہ تیار کیا تو اس میں ایک علمی رسالہ کا اجراء بھی شامل تھا، شبلی نے اس کا نا م ’’معارف‘‘ رکھا اور اس کے اغراض و مقاصد کا خاکہ بھی تیار کردیا تھا، علامہ کے وصال کے بعدجب ان کے لائق شاگرد سید سلیمان ندویؒ نے اپنے استاذ کی وصیت کے مطابق ان کے علمی خوابوں کی تکمیل کا بار گراں اٹھایا تو دارالمصنفین کے ساتھ اس علمی رسالہ کے اجراء کی بھی فکر دامن گیر ہوئی اور تقریباً ڈیڑھ پونے دو سال بعد جب دارالمصنفین نے جون 1916 میں اپنا پریس قائم کیا تو شبلی کا یہ دیرینہ خواب سید صاحب کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچا، معارف کا پہلا شمارہ جولائی 1916 میں نکلا، یہ رسالہ دارالمصنفین کا علمی ترجمان ہے۔ اس کے مقاصد وہی ہیں جو دارالمصنفین کے قیام کے ہیں، سید صاحب نے معارف کے پہلے شمارے میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ معارف کے اجراء اس کے اغراض و مقاصد اور اس کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالی ہے، پہلے اداریے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو

’’حضرت الاستاذ علامہ شبلی دارالمصنفین کے ساتھ ساتھ معارف نام کے ایک ماہوار علمی اور دینی رسالہ کا تخیل بھی رکھتے تھے، حاشیہ نشینان بساط شبلی نے اس محسن کی یاد میں فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنی بساط بھر ان کی تمام تحریکوں کو زندہ رکھیں گے، دو سال کی گذشتہ مدت دارالمصنفین کے قیام و تاسیس میں صرف ہوگئی، اب جب ادھر سے اطمینان ہوا تو دوسرے فرائض یاد آئے، اس میں معارف کا اجراء بھی تھا، ہم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ملک ایک خاص علمی رسالہ کی اعانت کے لئے کہاں تک تیار ہے، تاہم ہر شخص اپنے فرائض کا ذمہ دار ہے۔

ماہنامہ معارف وقت کے منفی تھپیڑوں اور ناموافق حالات کے باوجود منصہ شہود پر جلوہ گر رہا اور آج بھی اپنی اسی توانائی و تابانی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ ملک ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پراس طرح رسائل وجرائد کی تعداد معدودے ہی ہوگی، جوایک صدی سے زندہ وتابندہ ہو اور حالات کی گردش کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے وجود کا لوہا منوانے میں کا میاب رہا ہو۔ سو برس سے زائد عرصہ پر محیط اس علمی و تاریخی مجلہ کے شمارہ جات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سید سلیمان ندوی مرحوم اور آپ کے رفقائے کار نے دارالمصنفین کی دیگرذمہ داریوں کے ہمراہ رسالہ کو معیاری اور مستند بنانے میں بھی اپنے خلوص و ایثار اور توانائی کا بھرپور استعما ل کیا ہے۔ علم و فن، شریعت و طریقت اور سائنس وطب کے ساتھ تاریخ علوو فنون کا کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں ہے، جس پر اس درازقامت رسالہ میں کوئی نہ کوئی مضمون موجود نہ ہو۔ رسالہ میں شامل تمام تحاریر اپنے رشحات نگاروں کی قلمی جولانی اور مہارت کا پتہ دیتی ہیں۔ زیر نظر مقاملہ میں ہم ماہنامہ ’’معارف ‘‘کے اہم جز یعنی ’’علم طب اور معارف‘‘ کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ جو معارف کے قیمتی صفحات کی زینت ہیں اور اپنے علمی محاسن کی وجہ سے فن طب کی عبقریت پر بھر پور روشنی بھی ڈالتے ہیں۔

جب ہم اس اہم ترین تاریخی جریدہ میں موجودطبی مضامین و مقالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ’’ماہنامہ‘‘ معارف اپنے آغاز1916سے لے کر آج تک لگ بھگ 119طبی مضامین شائع کرچکا ہے۔ ان میں ہرایک مضمون مقاملہ نگار کی وسعت مطالعہ اور شوق تحقیق کا پتہ دیتا ہے۔ چناں چہ ہمیں ’’معارف ‘‘کے پہلے شمارہ بابت ماہ جولائی 1916میں جناب محمد سعید انصاری کا مضمون کا طبیب حاذق حضرت اما م ذکریا رازیؒ کی طبی خدمات اور تحقیقات خدمات پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اما م ذکریا رازیؒ کی طبی اور علمی خدمات محتاج تعارف نہیں ہے۔ ابن ذکریارازی الرازی ابوبکر محمد ذکریا (Rhazes) نہ صرف ماہر طبیب، حاذِق، فلسفی، ہیئت داں اور ماہر علم کیمیا تھا، بلکہ جراحت میں بھی اس کا اچھا خاصا عمل دخل تھا۔

علی ابن ربّان الطبری صاحب فردوس الحکمتہ کالائق وفائق شاگرد تھا۔ اسی سے اس نے علم طب حاصل کیا، جب کہ علم فلسفہ اس نے ابن ندیم اور ناصر خسرو سے حاصل کیا۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد جب اس نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو بہت جلد ہی اس کی شہرت طبیب حاذِق کے طور پر دْور دْور تک پھیل گئی۔ شروع میں اپنے وطن’’رے‘‘میں پھر بغداد کے شفا خانوں کا مہتمم بنا دیا گیا۔ مگر ناموافق اور ناساز گار سیاسی حالات کی وجہ سے بار بار اسے اپنے وطن میں واپس لوٹنا پڑا تھا۔ یہیں رہ کر اْس نے مختلف ایجادات کیں۔ اور مسلسل پندرہ برس کی محنت سے اس نے ’’الحاوی‘‘ جیسی پہلی طبی انسائیکلو پیڈیا تالیف کی۔ جو دْنیا کی پہلی انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اور یہ اس کا سب سے بڑا طبی کارنامہ ہے۔ اگر اس تناظر میں بھی ابن ذکریا رازی رازی کو دیکھیں تویہ عہد آفرین کارنامہ بھی انہیں کے نام ہے کہ ’’دائرۃ المعارف ‘‘ یا انسائیکلو پیڈیا جیسی عرق ریز ی کے مہتم بالشان کارنامہ کی ابتدا کا سحرا بھی آپ ہی کے سر جاتا ہے۔ رازی ؒفنِ طب میں زبر دست قابلیت رکھتا تھا۔ اس کے نزدیک معلوم کردہ حقائق کو تسلیم کرنا ضروری نہیں۔ جب تک وہ تجربہ سے ثابت نہ ہو۔ یعنی امام ذکریا رازی متقدمین کی تحاریر اور دعووں کو تجربات اور عمل کی کسوٹی پر پرکھے بغیر اسے من وعن قبول کرنے اور بھیڑ کے ریوڑ کی طرح انکھیں موند کر کسی کے پیچھے دوڑ پڑنے کو جائز نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک ہر وہ تجربہ تحریر کیا جانا اور آزمائش میں ڈالا جانا ضروری ہے، جس کی علّت کے بارے میں ہم تاریکی میں ہوں۔ رازی کو فنِ طب کے علاوہ فنِ جراحت میں بھی مہارت اور درک حاصل تھا۔ اسی نے زخم کو کھلا رکھنے کی ترکیب سب سے پہلے بتائی۔ چیچک اور خسرہ کی تشخیص اور اس کے لیے ٹیکہ لگانے کی ابتدا سب سے پہلے اسی نے کی۔

اس کی مشہور کتاب ”الجدری و الحصبہ“ دْنیا کے وبائی امراض پر پہلی کتاب ہے۔ اہلِ یورپ نے اپنی سرقہ پرست فطرت کا ثبوت دینے اور دوسروں کے کارناموں پر پانی پھیر نے اوراپنی عصبیت کی آگ سرد کرنے جیسے غیر دیانتدارنہ ذہنیت کی سند فراہم کرتے ہوئے حضرت اما رازیؒ کی اس ایجاد کو ایڈ ورڈ جینیر ( Edward jenear) کی طرف منسوب کرا دیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت الامام کی کی سینکڑوں تصانیف آج بھی موجود، جس میں طب، فقہ، منطق و فلسفہ اور طب جیسے تما م دقیق اور فنی اعتبار سے انتہائی اہم شعبوں پرآپ کے کمالات و ماہر و محقق ہونے کا ثبوت موجودہیں، آپ کی قابلیت، وسعت مطالعہ اور طبی حذاقت کا اعتراف اپنے اپنے وقت کے بڑے شورماؤ ں اور علم و فن کے عظیم و بلیغ شہسواروں نے کیا ہے۔ چونکہ پہلا شمارہ اس وقت میرے سامنے موجود نہیں ہے، لہذا ہم جناب سعید انصاری کے مضمون کا تجزیا تی اور مزید تفصیلی احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ مگر ’’معارف‘‘ کے حوالے سے یہ کہنا حق بجانب ہے کہ اس عہد آ فرین اور تاریخی مجلہ نے اپنی ابتداء سے ہی دیگر علوم ومعارف کے ساتھ طب یونانی خصوصا طب سے متعلق خدمات اور تحقیقات و تجربات، جس کا تعلق راست یا براہ راست طور مسلم مملکتوں اور علم دوست سربراہان مملکت سے رہا ہے، انہیں ہمیشہ اپنے مشمولات کا حصہ بنایا ہے، جس کا مطالعہ کرنے والا معارف کے فن طب کے لئے انجام دیے گئے کارناموں کو فراموش نہیں کرسکتا۔

’’معارف‘‘ کے بیش قیمت صفحات نے بعض ایسے اطبائے کرام کو بھی متعارف کرانے اور ان کی صلاحیت اور فنی مہارت کو نسیا منسیا ہونے سے بچانے میں کلیدی کردار اداکیا ہے۔ ورنہ آج شاید ہم ان کے کمالات و تجربات سے غیر آشنا رہ جاتے اور ن کی گوشہ نشینی اور شہرت و نمود سے ماورا اور خلوت میں ورع و تقوی کی خداترس زندگی، آہ سحرگا ہی قیام لیل اور ذوق عبادت کی تسکین کے لئے اپنا سب کچھ تج دینے کے مخلصانہ جذبہ کی وجہ سے ان کے طبی کارنامے، کمالات و تجربات شاید ان کی حیات کے ساتھ ہی بے نام و نشان ہوجاتے۔ مگر دعاکیجئے اور شاباشی دیجئے ماہنامہ ’’معارف ‘‘ کی طبی خدمات کو کہ اس کی قیمتی فکر اور مخلصانہ مقاصد نے ہمارے ان تمام اطبائے خلوت گزین کی خدمات کو بھی اپنے صفحات پر محفوظ کرکے ہمیشہ کے لئے زندہ و تابندہ کردیا ہے۔

اجمالاً ہمیں جولائی 1916سے لے کر اب تک ما ہنا مہ ’’معارف ‘‘ کے جتنے بھی شمارے دستیاب ہوئے ہیں اس میں لگ بھگ 120طبی مضامین شامل ہیں جو طب یونانی کی تاریخ سمیت محققین طب کی سوانح زندگی اور تاریخ طب کے سبھی گوشوں کو بڑی خوبی اور اختصار کے ساتھ کمال مہارت کے ساتھ قاری تک بیشتر طبی تاریخ کو پہنچانے کامیاب نظر آ تے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمیں بے ہنگم اور انگریزی جورو ستم کے شکار مضطرب ہندوستان کے بطل جلیل علامہ شبلی نعمانی ؒ کے خامہ گہر بار سے طبیب با کمال اور عظیم کیمیاں دان ابن رشد کی معالجاتی قابلیت اور طبی حذاقت پر نہایت دقیق اور مستند تحریر بھی جون1918کے شمارہ میں شامل ہیں، جوطبی خدمات میں ماہنامہ ’’ معارف‘‘ کی اہمیت و افادیت کی سند عطا کرتا ہے۔ علامہ شبلی نعمانیؒ نے ابنِ رْشد قرطبہ کے رہنے والے تھے۔ ان کا پورا نام ابو الو لید محمد بن احمد بن محمد بن رْشد تھا۔ اہل یورپ انہیں اویروس (Averros) کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ نہایت ہی قابل فلاسفر و حکیم تھے۔ ان کے والد اور داد ادونوں قرطبہ کے قاضی تھے۔ مگر ابنِ رْشد مادیت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ یہ ابن طْفیل سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ ابنِ طْفیل ہی نے انہیں ”ابو یعقوب“ کے دربار میں پیش کیا۔ ابو یعقوب نے ابن رْشد سے کائنات کے بارے میں کافی دیر تک بحث کی اور ان کے دیے دلائل سے کافی متاثر ہوا۔ اور ان کی صلاحیت کا قائل ہو کر ڈھیر سارا انعام دے کر رْخصت کیا۔

کچھ سالوں بعد یہ اشبیلیہ کے قاضی مقرر ہوئے اور اس کے دو سال بعد قرطبہ کے قاضی بنائے گئے۔ بعد میں ابنِ یوسف نے انہیں مراکش میں طبیب خاص کی خدمت پر مامور کر دیا، لیکن جلد ہی’’قاضی القضاء‘‘ بنا کر واپس کر دیا۔ چونکہ ابنِ رْشد مادیت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ اسی لیے ان پر الحاد کا الزام لگا کر جلا وطن کر دیا گیا۔ جب ابو یعقوب اسپین کی عیسائی حکومت سے جنگ کر کے مراکش واپس آیا تو اس نے ابنِ رْشد کو دوبارہ اپنے دربار میں بلا لیا۔ فن طب میں ابن رشد کی مہارت اورعملی حذاقت کا علم اس کی نادرالمثال کتاب’’الکلیات فی الطب‘‘ سے بخوبی ہوتا ہے۔ ابن رشد (1198۔ 1126 )نے بھی اپنی سابقہ اکابرین کی روایت و طبی وراثت کوآگے بڑھاتے ہوئے طب کی دنیا میں بڑا تحقیقی کام کیا ہے، ان کی مایہ ناز کتاب ’’الکلیات فی الطب‘‘ طبی تحقیقات ومعلومات کا انسائیکلوپیڈیا ہے، یہ کتاب کئی سو سال تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں ٹکسٹ بک کے طور پڑھائی جاتی رہی، ابن رشد نے چیچک کے مرض پر بھر پور تحقیق کی اور دنیا کو اس مرض سے نجات کا طریقہ بتایا اور بصریات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ آنکھ کی پتلی کس طرح کام کرتی ہے۔

علامہ شبلی ؒ کے اس مختصر مضمون سے ان کی وسعت مطالعہ کا پتہ تو بخوبی ملتا ہے، ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کابرین و اساطین امت کے کارناموں میں کسی مخصوص حصہ کوہی اپنے مطالعہ میں رکھا ہے، بلکہ جن اسلامی شخصیات کے کارناموں اور مہارتوں آپ کا قلم اٹھتا ہے تو ان کے زندگی کے تمام گوشوں کو مفصل اور منور کرکے ہمارے سامنے آئینہ کی پیش کرتا ہے۔ اب ابن رشد کو ہی دیکھ لیجیے علامہ نے ابن رشد کی صرف فقہی قابلیت و اور صلاحیت پر ہی روشنی نہیں ڈالی ہے، بلکہ انہوں نے ابن رشدکے مادی علوم سے استفادہ اور اس شعبہ میں آپ کی حیرت انگیز ایجادات پر بھی خامہ فرسائی کی ہے اور ابن رشد کی طبی حذاقت کا بھرپور احاطہ کرتے ہو ئے انتہائی مدلل طریقے سے یہ بتانے کی سعی فرمائی ہے کہ 11ویں صدی عیسویں اسلامی اندلس کے ایک علمی خانوادہ میں آ نکھیں کھولنے والا یہ عظیم سائنسداں کسی مخصوص خول یا لبادہ میں خود قید کردینے کا قطعی مخالف تھا، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی خدمات اور حصول کے ذرائع کافی وسیع و عریض کرلیا اور علوم و معارف کے کسی بھی شعبہ کو اس نے باقی نہیں چھوڑا، ابن رشد ہر فن کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور دنیا کو یہ پیغام دینے میں کامیابی حاصل کی علم و فن پر کسی مخصوص علاقہ، مذہب یا زبان کی اجارہ داری نہیں ہے، بلکہ یہاں تو تشنگان علم کی پیاس بجھانے کے تمام راستے اور چشمے ہمیشہ دستیاب اور فراہم ہیں۔

ماہنامہ معارف کی جلد نمبر6صفحہ422بابت ماہ جون1926میں معروف مؤرخ اور رفیق دار المصنفین مولوی ریاست علمی ندوی کا گران قدر مضمون ’’عربوں کا علم طب شام میں اوریورپ کا اس سے استفادہ‘‘شامل اشاعت ہے، جس سے ہمیں اپنے ماضی کے کئی اہم کارناموں اہل عرب با لخصوص مسلم مملکتوں کی علم دوستی خصوصا علاج ومعالجہ کے شعبہ سے ان کا والہانہ لگاؤ اور اس کی ترویج و ترقی کے لئے خزانوں کے دہانے کھل دینے کی محیرالعقول فطرت خسروانہ کا پتہ چلتا ہے۔ یقیناعربوں، خاص طور پر مسلم فرمانرواؤں نے علم طب کو جلا بخشنے اطبا کی حوصلہ افزائی اور جدید تحقیقات کے لئے اپنے زیر سلطنت علاقوں میں بڑے بڑے شفاخانے اور طبی دانشگا ہیں قائم کرکے ساری دنیا کو اپنی انسانیت اور علم دوستی کا قائل ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ چناں چہ علامہ ریاست علی ندوی مرحوم رقم طراز ہیں۔

’’عربوں کی سلطنت میں علم طب کو خاص عروج حاصل ہوا، اطبا خاص وقعت نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اونہیں خلفاء کے دربار میں خاص اکرام و اعزاز حاصل تھا۔ وہ بعض خلفاء کے ہم مجلس اور مشیر خاص ہوتے تھے، انہیں خلعتو ں سے سرفراز کیا جاتا تھا اور اسی تناسب سے ان کے پاس دولت و ثروت کا ذخیرہ ہوتا تھا، چناں چہ کہا جاتا ہے کہ جبرئیل بن بختیشوع نے اپنے بعد اس قدر دولت چھوڑی کہ صرف اس کے لڑ کے عبد االلہ کو 8لاکھ دینار یعنی6لاکھ مصری پونڈ ملے۔ علاوہ ازیں جائداد غیر منقولہ میں چند گاؤں، باغ اور متعدد عالیشان محل وراثت میں ملے تھے۔ ‘‘
علامہ نے عرب طب کے لئے مسلم فرمانرواؤں عادت خسروی کا تذکرہ فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ۔

’’سلطنت میں یہ قانون جاری تھا کہ طلبہ مختلف علوم و فنون کی تحصیل کے ساتھ علم طب اور تشریح کو بھی ضرور حاصل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ شام کے طبیبوں میں تحصیل علم کا ایک خاص ذوق پیدا ہوگیا تھا، وہ علم کے لئے متعدد سفر کرتے تھے، لیکن سفر کی درازی، اس کے مصائب اوراجنبی زبانوں کی تحصیل میں پیش آ نے والی دشوا ریا ں ان کے علمی ذوق کے پورا کرنے میں سد راہ نہیں ہوئی تھیں۔ چناں چہ اسحاق ابن حنین جس کی کتابیں ازمنۂ وسطیٰ میں بھی دروس طبیہ کی بنیا د رہ چکی ہیں، اسی شام کے بادیہ سے اٹھا اور پہلے یوحنا بن ما سویہ سے جو یوروپ میں M Essues نام سے مشہور ہے، تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد یران، پھر یونان کا سفر کیا اور ان دونو ں مقام پر وہا ں کی زبانیں سیکھ کر وہا ں کے ممتاز اساتذہ سے مختلف علوم کی تکمیل کی۔ جب اسے علوم طبیہ میں کافی دشتگاہ حاصل ہوگئی تو اس نے ان تین اس کو لوں کی طرف توجہ کی جو اس کے زما نے میں بقراط، افلاطون اور جالینوس کے نام سے رائج تھے، سحاق نے پہلے ان اس کو لو ں میں باہم موا زنہ کیا، پھر اسکول کی مختلف کتابو ں میں سے بعض کے ترجمےکیے اور بعض کی شرحیں لکھیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).