پرائم منسٹر عباسی ایک کشمیری پر کشمیر کی “حقیقت” واضح کریں


سیاسی اور سماجی میدانوں‌ میں‌ تبدیلی کی کاوشوں کو طاقت ور بنانے سے کشمیر میں‌ دیرپا امن، انسانی حقوق کی بحالی اور تحفظ ممکن ہے جس سے “امن کی بحالی” کے لیے فوجی مداخلت میں‌ کمی واقع ہوگی۔ پرامن مخالفت جمہوری نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ کشمیر میں‌ تہذیب، معیشت اور جمہوریت کو طاقت بخشنے کے لیے کون سا قدم سب سے زیادہ اہم ہے؟

لندن اسکول آف اکنامکس میں‌ ہونے والی کانفرنس “فیوچر آف پاکستان 2017” میں‌ پاکستان کے پرائم منسٹر شاہد خاقان عباسی نے بیان دیا جس میں‌ انہوں‌ نے واضح طور پر ایک “آزاد کشمیر” کے خیال کو رد کر دیا اور یہ کہا کہ اس مطالبے کا کوئی مقامی مطالبہ یا تائید موجود نہیں‌۔ ایک کشمیری مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرے لیے یہ ایک ایسی خبر ہے جس سے اسٹیٹس کو کو سہارا ملتا ہے جو ہمارے علاقے کو جنگ کے میدان تک محدود کردیتا ہے۔

پرائم منسٹر صاحب، ہم کشمیری دونوں ممالک انڈیا اور پاکستان میں‌ امن اور سلامتی کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ حالات نارمل ہو سکیں۔ مقصد یہ ہونا چاہئیے کہ کشمیری عوام کو درمیان میں‌ لٹکائے رکھنے کے بجائے اس ڈیڈلاک کا کوئی عملی حل تلاش کیا جائے جس میں‌ ہمارے نوجوانوں‌ کا مستقبل داؤ پر لگا ہے اور دونوں‌ نیوکلئر طاقتیں ساؤتھ ایشیا میں‌ ہمیں‌ سودے بازی کے لیے استعمال کررہی ہیں۔

ریاست جموں و کشمیر میں‌ تمام گروہوں‌ میں‌ انسانی حقوق کی پامالی کے ازالے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہر کسی کو جمہوریت اور پرامن مزاکرات کے لیے کھلا ذہن رکھنا ہوگا جس سے انڈیا اور پاکستان کے مابین امن قائم ہوسکے۔ اس عمل میں‌ دونوں‌ ممالک کو لائن آف کنٹرول سے اپنی فوجیں ہٹانا ہوں گی، عسکریت پسندوں‌ کو سہارا دینا ختم کرنا ہوگا، قیدیوں‌ کو آزاد کردینا ہوگا تاکہ ان کی نارمل زندگی بحال ہوسکے اور سول سوسائٹی کے بکھرے ہوئے تانے بانے پھر سے جوڑے جاسکیں۔

کشمیری عوام نے بارہا کوشش کی کہ پاکستان اور انڈیا کی نفسیاتی اور جسمانی طور سے جدا پارلیمنٹس کے سامنے خود پر ہونے والے تشدد کے محض خاموش تماشائی ہونے کے بجائے اپنے ترجمان بن سکیں‌ کیونکہ انہیں اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ تاریخی اعتبار سے کشمیریوں‌ نے انتہائی سنگین حالات میں‌ بھی قدم بڑھانا جاری رکھا اور اپنی سماجی اور سیاسی قسمت کا فیصلہ کرنے کی جدوجہد جاری رکھی۔ مذہبی شدت پسندی، سیکولر قوم پرستی اور نسلی قوم پرستی سے اس کا مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے۔

1953 میں پاکستان نے امریکہ سے فوجی امداد کے لیے مذاکرات شروع کیے۔  بخشی غلام محمد نے احتجاج کیا کہ “امریکہ پاکستان کو مسلح کرے یا کسی اور طرح‌ اس کی مدد کرے لیکن کشمیر کبھی پاکستان کا حصہ نہیں‌ بنے گا۔” پنڈت نہرو نے پاکستان اور امریکہ کو تنبیہ کی کہ پاکستان کو کشمیر کے علاقے میں‌ کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں اور فوجی اڈے بنانے کی بالکل بھی نہیں۔ انہوں‌ نے 1953 میں‌ لوک سبھا میں‌ واضح‌ الفاظ میں‌ کہا کہ اگر پاکستان نے امریکہ سے فوجی امداد حاصل کی تو انڈیا اور پاکستان کے درمیان قائم معاہدہ منسوخ ہو جائے گا۔

سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد، انڈیا نے اپنا طاقت ور اتحادی کھو دیا۔ انڈیا اور امریکہ کے تعلقات اس وقت شکوک کا شکار تھے۔ یہ تعلقات اس وقت مزید کشیدہ ہوگئے جب کلنٹن انتظامیہ نے کشمیر کے انڈین یونین کا حصہ ہونے کے قانونی جواز پر سوال اٹھائے۔ ساؤتھ ایشیا میں‌ ہتھیاروں‌ کے پھیلاؤ اور جنگ کو روکنے کی امریکی کاوشوں‌ میں‌ اس خوف کا بڑا ہاتھ تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس بارے میں مزید معلومات کے لیے جان ایچ کیلی کا بیان پڑھا جا سکتا ہے جو ساؤتھ ایشین افیئرز کے اسسٹنٹ سیکرٹری ہیں۔ پاکستان کی کشمیر اور افغانستان میں‌ شدت پسندوں‌ کو اکسانے کی کھلی پالیسی کی وجہ سے وہ سیاسی تنہائی کا شکار بنا اور اس سے انڈیا کے رویے کو بین الاقوامی سپورٹ حاصل ہوئی ہے۔ امریکہ نے دونوں‌ ممالک کے لیے یہ پالیسی اپنائی کہ وہ سی ٹی بی ٹی معاہدے کے ذریعے علاقے میں ہتھیاروں‌ کے پھیلاؤ کے خلاف متحد ہوں۔

پچھلی دو دہائیوں میں‌ انڈیا اور پاکستان کے مابین ہر فوجی بحران کے بعد گفت و شنید اور ڈپلومیٹک تعلقات کے ذریعے معاملات سلجھانے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ دونوں‌ ممالک نے وقتاً فوقتاً امن کی بحالی کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوری 2004ء میں‌ اس وقت کے انڈین پرائم منسٹر واجپائی اور پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے تمام معاملات پر گفت و شنید کا فیصلہ کیا جس میں‌ مسئلہ کشمیر کو دونوں ممالک کے تعاون سے حل کرنے کا ارادہ بھی دہرایا گیا۔ مشرف نے انڈیا کی حکومت کو یقین دلایا کہ وہ پاکستان کے کسی علاقے کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن ان بیانات سے شکوک و شبہات میں‌ کوئی کمی واقع نہیں‌ ہوئی۔

بین الاقوامی دباؤ کے باوجود، انڈیا اور پاکستان کا بحران حل نہیں‌ ہوا ہے۔ اس کے برعکس یہ خطہ انتہائی غیر مستحکم ہے۔ ساؤتھ ایشیا میں‌ اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے چین اور روس گاہے بگاہے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہیں۔ صدر پوٹن نے واجپائی اور مشرف کے مابین سیاسی گفت وشنید میں مدد کرنے کی کوشش کی۔ ریجنل سمٹ کانفرنس میں‌ بھی چین کے صدر جیانگ زیمن نے ان کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن دونوں‌ لیڈر بے لچک رہے اور اس موقع کو ایک دوسرے پر الزامات میں‌ ضائع کیا۔ اس کانفرنس میں‌ ایک مثبت فیصلہ ہوا جس میں انڈین حکومت نے پاکستانی اور ہندوستانی فوجوں کے لائن آف کنٹرول پر مل کر کام کرنے کا منصوبہ پیش کیا لیکن پاکستان کی حکومت نے اس کو فوراً جھٹک دیا۔ ان حالات میں‌ کشمیری عوام کے مسائل جوں کے توں‌ رہے۔

جب تک کشمیری عوام کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا جائے گا، تب تک کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد سے آگے سوچے بغیر ایک آزاد اور خود مختار کشمیر کا خواب پورا نہیں ہو گا اور انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا۔

مترجم: ڈاکٹر لبنیٰ‌ مرزا – ایم ڈی

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan