ٹرمپ کا دورہ چین اور تجارتی کشمکش


صدر ٹرمپ کا پہلا دورہ چین اس اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ اس دورے سے قبل دورے کے دوران اور دورے کے بعد یکے بعد دیگر دونوں ممالک اور ان کے سربراہان کے حوالے سے ایسے مختلف اقدامات دیکھنے میں آئے کہ جن کے مطالعے سے ہم موجودہ صدی کے اس حصے کے آنے والے حالات کی درست منظر کشی کے قابل ہو سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ اقتدار میں امریکہ فرسٹ کے نعرے کے ساتھ آوارد ہوئے تھے ان کے نزدیک امریکہ کے اہم ترین مسائل شرح ترقی کا گرنا اور ملازمتوں کی عدم دستیابی تھا۔ اور یہ مسائل چین سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہی ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ امریکہ کو 2015 کے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے باہر نکال دیا اور کوئلے کی انڈسٹری کو دوبارہ زندہ کرنے کی طرف چل پڑے۔ یہ تمام اقدامات امریکہ کی معیشت کو سنبھالا دینے کے نام پر کیے گئے۔ دوسری طرف چینی صدر شی جن پنگ بہت مضبوط چینی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ سی پیک کا تصور دینے سے انہوں نے چین کو ایک سمندر کی بجائے دو سمندروں کی طاقت بنانے کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ ان کے ذہن میں یہ بھی ہے کہ امریکہ اس خطے میں جاپان، انڈیا اور آسٹریلیا کے ذریعے مل کر چین کے لیے ایک فوجی دھمکی بھی ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ جب کہ ”ساؤتھ چائنہ سی“ کے معاملات میں بھی امریکہ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

جب صدر شی جن پنگ نے کمیونسٹ پارٹی کی 19ویں کانگرس میں اپنا نام تک کمیونسٹ پارٹی کے آئین میں شامل کرا لیا تو یہ تصور مزید گہرا ہو گیا کہ وہ بہت مضبوط ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل چین کے دو رہنماؤں کے نام چینی کمیونسٹ پارٹی کے آئین میں تحریر کیے گئے مگر انہیں یہ اعزاز ان کے انتقال کے بعد دیا گیا۔ صدر شی جن پنگ کی اس کامیابی کے بعد یہ طے ہو گیا ہے کہ چین اب طویل عرصے تک ان پالیسیوں کے تحت ہی چلے گا جو وہ طے کریں گے۔

انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کی کانگرس میں چین کے لیے اپنے تین تصورات پیش کیے تھے۔ چین کو ماڈرن ملک بنایا جائے گا۔ 2035 تک معیشت اور معاشرے کو مکمل طور پر جدید کر دیا جائے گا۔ اور 2050 تک عالمی لیڈر بن جایا جائے گا اگر ہم غور کریں تو یہ معاملات امریکہ سے براہ راست منسلک ہے جب صدر ٹرمپ چین کی طرف آرہے تھے تو اس وقت بنیادی طور پر تین سوالات امریکہ اور چین کے مابین اہمیت کے حامل تھے۔ تجارت، معیشتوں کے درمیان باہمی تعاون اور سلامتی کے معاملات ہی اصل سوالات تھے۔

خیال رہے کہ بہت بڑے تجارتی پارٹنر ہونے کے باوجود ماضی میں یہ تصور غالب تھا کہ دونوں ممالک اپنے معاملات کو سلامتی کی عینک سے دیکھتے۔ مگر اب جغرافیائی سلامتی ہی نری اہمیت نہیں رکھتی بلکہ معاشی سلامتی اور اس کے قواعد زیادہ اہمیت اختیار کر گئے صدر ٹرمپ کا یہ موقف ہے کہ چین نے کچھ عرصہ قبل ایسے اقدامات کیے ہیں جن کے سبب سے غیر ملکی کمپنیوں کے لیے چین میں تجارت کاروبار کے ویسے مواقع دستیاب نہیں ہیں کہ جیسے ان کے خیال میں ہونے چاہئیں۔ صدر ٹرمپ اپنے وفد میں امریکہ کی 29 بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران کے ہمراہ پہنچے تھے ان افراد کی صدر ٹرمپ کے ہمراہ آنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ امریکہ محسوس کر رہا ہے کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ چینی معیشت میں داخل ہو کر زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو امریکہ کی معیشت کے لیے مزید مسائل جنم لیں گے۔

لیکن دلچسپ عمل یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے ہمراہ ٹیکنالوجی اور فنانشل معاملات کے حوالے سے معروف کمپنیاں تقریباً غیر موجود تھیں جب کہ ایگری بزنس اور توانائی کے کاروبار سے وابستہ جیسے Cheniere Energy جو شیل گیس امپورٹ کرتی ہے۔ اور الاسکا گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن جس نے وہاں 43ارب ڈالر کے معاہدے بھی کیے شامل تھیں۔ وفد کی یہ ساخت واضح کرتی تھی کہ امریکہ چین کو مزید گیس اور کموڈیٹز تو بیچنا چاہتا ہے لیکن دیرینہ مسائل جیسے مارکیٹوں میں فنانشل ایکسس اور انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس یا دوسرے لفظوں میں دانش کے حقوق محفوظ کرنے پر کوئی نتیجہ خیز بات نہیں کرنا چاہتا اور تجارت کے ذریعے تصفیہ طلب امور کی طرف بڑھنے کی ابھی اس کی خواہش نہیں ہے حالانکہ اس دورے میں 250 ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے ہوئے لیکن تصور یہ کیا جارہا ہے کہ چین کے ان معاہدات ٹرمپ کو یہ فائدہ ہو گا کہ وہ امریکہ میں اپنے دورے کی کامیابی کا تذکرہ کر سکے گا۔ حالانکہ چین یہ سب کچھ اپنے پروگرام میڈان چائنہ 2025 کے تحت کر رہا ہے۔

وہ مئی میں اسی ضمن میں امریکہ کی کمپنیوں کو کچھ مراعات بھی دے چکا ہے تاکہ امریکہ اور چین کے درمیان جو امریکہ کا گزشتہ سال 347 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ تھا وہ کچھ کم ہو سکے۔ چین اس وقت اس کوشش میں ہے کہ وہ عالمی لیڈر بننے کی طرف مناسب انداز میں پیش قدمی کرے۔ چین میں یہ تصور مضبوط ہے کہ یہ مقصد حاصل کرنے کے واسطے چین صرف ہائی سپیڈ ٹرانسپورٹیشن، طبی آلات کی تیاری اور روبو ٹیکس اور اسپیس ٹریول پر انحصارنہیں کر سکتا ہے۔ اس لیے وہ اب ٹیکنالوجی کی بہتری اور صنعتوں میں نئی اختراعات پر بھاری سرمایہ کاری کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی لیے چین نے اپنے انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس کے قواعد خود بنا لیے ہیں اور اگر ٹیکنالوجی کا تبادلہ امریکہ اور چین کے درمیان ہو تو امریکہ بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

ویسے بھی صدر ٹرمپ اس حوالے سے تو بہت شاکی نکلے تھے۔ امریکہ کو چین سے تجارت میں زبردست خسارے کا سامنا ہے اور یہ معاملہ حل ہونا چاہیے لیکن انہوں نے اس حوالے سے چین کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے ماضی کی امریکی حکومتوں کو ذمہ دار گردانا کہ جنہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی اور یہ تجارتی خسارہ گذشتہ سال 347 ارب ڈالر کی حد تک پہنچ گیا۔ چین نے امریکی صدر کے دور ے کو خوشگوار بنانے کی غرض سے بینکنگ، انشورنس اور مالی سیکٹروں میں مزید قوانین کو نرم کر نے کا اعلان بھی کیا بہرحال اس دورے کے کیا نتائج نکلیں تو اس کا تجزیہ کرنے کی غرض سے ویتنام میں ہونے والی ایشیا پیسفک اکنامک کارپوریشن (APEC) کے اجلاس میں صدر ٹرمپ اور صدر شی جن پنگ کی تقاریرکا مطالعہ از حد اہمیت کا حامل ہے۔

دونوں نے عالمی معیشت کے حوالے سے دو مختلف تصورات پیش کیے خیال رہے کہ ایشیاء پیسفک اکنامک کارپوریشن کا اجلاس اس حوالے سے بہت اہم تھا کہ اس میں دنیا کے 21 بڑی معیشتوں کے ممالک شامل ہیں جو دنیا کی 60 فیصد GDPرکھتے ہیں۔ اس اجلاس میں صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں ورلڈر ٹریڈ آرگنائزیشن کے خلاف گفتگو کی اپنے تجارتی خسارے کا ذکر کیا اور واضح کیا کہ ان کے خیال میں جو Chronic Trade Abuses ہورہی ہے وہ مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے امریکہ میں کم پابندیوں اور ٹیرف کے کم ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ باقی دنیا نے ایسا نہیں کیا اور اگر قواعد کا احترام نہ کیا گیا تو معاملات نہیں چلیں گے۔ صدر شی جن پنگ نے کہا کہ گلوبلائزیشن Irreversable ہے اور فری ٹریڈ کی اصل فلاسفی سب کو فوائد پہنچانا ہے۔

واضح ہے کہ دونوں کے نقطہ ہائے نظر میں اس دورے اور APEC کے بعد کوئی فرق نہیں پڑا اور اختلافات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اب سرد جنگ کی مانند حالات نہیں بن سکتے لیکن نئے حالات کیا ہوں گے؟ کیا کوئی نئی طرح کی معاشی جنگ منتظر ہے۔ کیونکہ سرد جنگ سے قبل بھی کوئی سرد جنگ کی مانند حالات کا نہیں سوچتا تھا کہ اس نوعیت کی بھی جنگ ہو سکتی ہے۔ مگر اب وقت سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ نیا کیا کچھ ہو سکتا ہے، کہ کوئی نئی طرح کی حقیقت جنم لے سکتی ہے۔ خاص طور پر سی پیک کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد پاکستان کو اس پر بھر پورتوجہ رکھنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).