جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟


پاکستان میں موسم جیسے جیسے سرد ہورہا ہے سیاسی ماحول ویسے ویسے گرم ہوتاجارہا ہے۔ وفاق میں دیکھیں تو پانامہ اقامہ اور نا اہلی کی کشمکش جاری ہے۔ صوبوں پر نظر ڈالیں تو پنجاب کو چھوڑ کر باقی تینوں صوبے بیڈ گورننس کی چادر اوڑھے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں اور اگر بات کریں کراچی کی تو اُس کے تو حال ہی نہیں ہیں۔ نئے الیکشن کی آمد آمد ہے پاکستان بھر میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کی بولیاں لگ رہی ہیں لیکن کراچی واحد شہر ہے جہاں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز تھوک کے حساب سے لاٹھ کی لاٹھ اِدھر سے اُدھر جانے کو تیار ہیں۔ لیکن حالت یہ ہے کہ اِن کرم جلوں کو کوئی بےمول لینے کو تیار نہیں ہے۔ اِس لیے بےچارے آپس میں ہی آپا بوجی کا کھیل کھیلنے پر مجبور ہیں۔ واہ رے کراچی تیرے نصیب۔ اچھا اسٹیبلشمنٹ نے تجھ پر ہاتھ رکھا کہ سیاست ہی یتیم ہوئی۔ پتا نہیں تیرے نصیب برے یا اُنکی نیت کھوٹی۔ ورنہ اِس سے پہلے تو اسٹیبلشمنٹ نے جس پر نظرِ کرم فرمائی سمجھو اُس کا بیڑا پار ہوا۔ ن ج ق سب اِسی کے تو تراشے ہیں۔ لیکن پتا نہیں اِس بار ایسا کیوں ہے کہ بات کسی طرح بن کے نہیں دے رہی۔ جانے انجانے میں ایسی کونسی ہڈی حلق میں پھنسا لی جو نگلی جاری ہے نہ اگلی جاری ہے۔

اِس وقت کراچی میں ایک میان دو تلوار والا معاملہ ہے۔ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلہ کمال ہے تو دوسری طرف ماں کا لاڈلہ ستار ہے۔ اب کسے کہاں فِٹ کریں یہ دردِ سر بنا ہوا ہے۔ ایم کیوایم پاکستان پسند تو نہیں لیکن فلحال اُس کا رہنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ کمال عوام کو قبول نہیں اور لندن اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں ایسے میں ایم کیوایم پاکستان ہی وہ درمیانی راستہ ہے جس سے کراچی کے عوام اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے درمیان یاری کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔

لیکن سوال پھر وہیں اپنی جگہ جوں کا توں موجود ہے۔ کمال کا کیا کرنا ہے اسے کہاں فِٹ کرنا ہے۔ کمال کو بلایا ہے تو اُسے کہیں جمانا بھی ضروری ہے۔ ورنہ وہ ایسا بھانڈ ہے کہ پوچھو مت اُس نے بانی ایم کیوایم کو نہ چھوڑا۔ اگر بکھر گیا تو تمام سابقوں لاحقوں کے نام لے کر پورا اسکرپٹ پڑھ دے گا۔ پہلے پتا ہوتا بانی ایم کیوایم بائیس اگست کردیں گے تو کمال کی دھمال ڈالتے ہی نہیں۔ سیدھا سیدھا ستار کو قائدِ مستعار بناکر عوام کے سامنے لاکھڑا کرتے۔ لیکن کسے پتا تھا کہ دل کی مراد اِس طرح پوری ہوگی۔ خیر جو ہوا سو ہوا اب آگے کیا کرنا ہے یہ سوچنا ہے۔ کیا ایسا کریں کہ سب خوش ہوجائیں اور ساتھ توقیر بھی رہ جائے۔

جان کی امان پاؤں تو میں کچھ عرض کروں؟ دیکھیں کراچی میں جو کھیل بکھیڑ ہوئی ہے۔ اُسے سمیٹنا مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔ میرے خیال سے اِدھر اُدھر بھاگنے یا اِس کی اُس کی سننے سے کہیں بہتر ہے کہ کراچی کے عوام کے پاس جایا جائے۔ کراچی کے خود ساختہ سیاسی ٹھیکیداروں سے ملاقاتیں کرنے کے بجائے ڈائریکٹ کراچی کے عوام سے ملا جائے اور اُن سے پوچھا جائے کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں۔

اِس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اردو بولنے والے طبقے کے دانشوروں صحافیوں تاجروں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والوں سمیت سنجیدہ اور مسائل کے حل کے لیے مخلص سیاستدانوں پر مشتمل ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کرے۔ اُن کے ساتھ بیٹھیں اور کھل کر بات کریں اپنا موقف پیش کریں اور اُنکا واضح موقف جاننے کی کوشش کریں۔ اُن سے پوچھیں ان کے کیا مسائل ہیں اُن کی محرومیوں کا ازالہ کریں اُن کے جائز مطالبات کو تسلیم کریں وہ صوبہ مانگتے ہیں بیشک اُنھیں صوبہ نہ دیں لیکن ایسا فارمولا ترتیب دیں جس سے انھیں شراکتِ اقتدار کا حصہ بنایا جاسکے۔ انھیں شہری حکومتوں پر مبنی ایسا با اختیار نظام دیں کہ انھیں صوبے کی ضرورت محسوس ہی نہ ہو۔ کراچی کے مسائل اور محرومیوں کا حل اُنھی سے تلاشیں۔ شفاف الیکشن کا انعقاد کرائیں۔ انھیں اپنا نمائندہ خود چن نے دیں اور جس کسی کو بھی کراچی کے عوام اپنا نمائندہ چنیں اُن کے انتخاب کو مقدم جانیں۔ خود سے اُن پر کوئی نمائندگی مسلط نہ کریں۔ یاد رکھیں کراچی کے عوام کو مشرف سے نہیں مشرف کے شہری حکومتوں کے نظام سے محبت ہے۔ لہذا انھیں مشرف نہیں نظام دیجئیے۔ کیونکہ کراچی کے تمام مسائل کا واحد حل با اختیار شہری حکومتوں کے نظام میں پنہاں ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).