پشتون رواج کی قدیم و جدید تاریخ


پاکستان کا علاقہ فاٹا، صدیوں سے ایک خودمختارخطہ رہا ہے جس پر کسی فاتح یا ریاست نے حکومت نہیں کی۔ نتیجتا مقامی باشندوں کو مرکزی اختیارات کے تحت رہنے کا نہ تجربہ رہا، نہ عادت رہی۔ یہ لوگ اپنے آباواجداد کے موروثی رواج کے تحت زندگی گزارتے آرہے ہیں۔ رواج، اگرچہ غیرتدوین شدہ ہے مگرپشتون معاشرے کا سینہ بہ سینہ، نسل در نسل منتقل ہوتا وہ مکمل نظام حیات ہے جس کی بدولت وہاں بھائی چارہ، محبت اور امن قائم تھا۔

تاریخی طورپر اکثروبیشتر اقوام نے دوسری قوم کے رسوم، روایات اور طرز زندگی وبودوباش کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مغالطوں، مفروضوں اور گمان وقیاس سےکام لیا ہے تو کسی نے تعریف میں مبالغوں، تصنع اور بے جوڑ و غیر حقیقی الفاظ کے چناؤ سے آسمان سے قلابے ملانے کی کوشش کی ہے۔ پشتون رواج کو بھی روایتی تاریخی تنقید و توصیف کا سامنا رہا۔ مثال کے طور پر کسی نے لکھا ہے پشتون مذہب پرست ہیں، سخت گیر ہیں اور دنیائے امن کے دشمن ہیں۔ کوئی لکھتا ہے کہ پشتونوالی اور رواج اسلام کا دوسرا نام ہے۔ کوئی لکھتا ہے رواج آدھا کفرہے، کوئی کہتا ہے رواج اورFCR ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، کوئی لکھتا ہے رواج ہی کی وجہ سے فاٹا کے لوگ پستی اور بدامنی کا شکار ہیں، کوئی رواج کا قیام مسائل کا حل گردانتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

رواج پر تنقید وتوصیف کے مذکورہ پس منظر، مغالطوں مبالغوں اور ان تاریخی سقموں اور رواج کی جدید وقدیم تشریح کے لئے مستند مواد کی عدم دستیابی سے موجود خلاء کو پر کرنے کے لئے شریف اللہ داوڑصاحب نے انگریزی زبان میں کتاب لکھ کر ایک تاریخی خدمت سرانجام دی ہے۔ کتاب کا نام ہے RIWAJ The way of Life in Tribal Areas ۔ رواج کیا ہے، رواج کے مختلف پہلو، رواج کی شقوں اورخصوصیات کے علاوہ رواج واسلامی شریعہ اوررواج و ایف سی آر کے مابین تفرقات کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب میں رواج کے غیر اسلامی اور غیر انسانی مشق و تکرار اور رواج اور رسمی قانون کا معلوماتی موازنہ کیا گیا ہے۔ کتاب کے بعض موضوعات بڑے دلچسپ ہیں یعنی ”ہر پشتون مسلمان ہوگا“، ”پشتونوں میں سخت گیری اور مذہبی جنون اسلام کی وجہ سے ہے“ جیسے غیر حقیقی موضوعات پر پرمغزبحث کی گئی ہے۔

کتاب میں رواج کے ذریعے مسائل کے حل کا طریقہ تفصیل سے درج ہے نیز قبائلی جرگہ اورمعرکہ کا فرق اور ان کے ذریعے حل کیے ہوئے فیصلوں کا تذکرہ بھی شامل ہے۔ کتاب میں رواج پر برطانوی راج، قیام پاکستان، طالبان کی آمد اورعسکری آپریشنوں کے بموجب پڑے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب ہذا میں رواج کی روشنی میں فاٹا کے مسائل کا حل ڈھونڈنے اور فاٹا کی آئینی حیثیت طے کرنے کے حوالے سے موجودہ صورتحال اور اس ضمن مفید مشورے بھی موجود ہیں جو حکومت اور فاٹا کی عوام کو آنے والے دنوں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ مزید براں، رواج پرتعلیم و سیاست، معاشی و معاشرتی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اثرات کا بھی ذکر ہے جو کہ نوجوان قارئیں کے لئے دلچسپی کا باعث بنے گا۔

(نوٹ: کتاب کا ناشرادارہ فروغ تعلیم پشاور ہے۔ 300 سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب معیاری کاغذ کے علاوہ 400 روپے کی مناسب قیمت رکھتی ہے۔ سرورق پر جرگہ کی شبیہہ لئے یہ کتاب ہر لائبریری کی زینت ہونی چاہیے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).