امریکہ: ’مسلمان ہم جنس پرستوں کو تیزی سے قبول کر رہے ہیں‘


ہم جنس پرستوں کے حقوں کے لیے ایک ریلی کی فائل فوٹو

امریکہ میں مسلمانوں کے بارے میں یہ عام رائے کہ وہ ہم جنس پرستوں کے خلاف ہیں اب کسی حد تک غلط ثابت ہورہی ہے۔

گوکہ امریکہ میں بسنے والے بیشتر ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ ابھی بھی ہم جنس پرستی کو برا سمجھتے ہیں مگر ‘پیو ریسرچ سینٹر’ کے تازە سروے کے مطابق گذشتہ دس برسوں میں کٹر سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں مسلمان زیادە تیزی سے ہم جنس پرستوں کو قبول کر رہے ہیں۔

میں واشنگٹن میں جب ہم جنس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے سے ملنے ان کے گھر پہنچی تو گریسن اپنی پارٹنر عروج احمد کو پیانو پر ’سالگرە مبارک ہو‘ نغمے کی دھن بجانا سکھا رہے تھے۔ گریسن کی والدە کی سالگرە آنے والی ہے اور عروج ،گریسن کی والدە کی سالگرە پارٹی پر ان کے لیے اسی گانے کی دھن بجانا چاہتی ہیں۔

یہ دونوں پچھلے دو سالوں سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ گریسن، خواجہ سرا ہیں جبکہ عروج اپنے آپ کو ’کوئیر‘ کہتی ہیں یعنی ان کو مرد، عورت، خواجہ سرا کسی سے بھی محبت ہوسکتی ہے۔ دونوں ہم جنس پرستوں اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔

40 سالہ عروج کے گھر والوں کے لیے انھیں اس طرح تسلیم کرنا قطعی قبول نہیں تھا۔ ان کے دادا دادی کا تعلق انڈیا کے جلال آباد سے ہے جبکہ ان کا بچپن پاکستان کے شہر کراچی میں گزرا۔ 1992 میں ان کا خاندان امریکہ منتقل ہو گیا تھا۔

جب عروج کے بھائی کو ان کے ہم جنس پرست ہونے پر شک ہوا تو انھوں نے فوراً والدە سے شکایت کی جس کے بعد ان کے گھر میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ اس وقت عروج 17 برس کی تھیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عروج نے کہا کہ ’پہلے تو میں ڈر کے مارے امی سے جھوٹ بولتی رہی کہ بھائی کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ لیکن پھر ایک دن میری امی قرآن لے کر آ گئیں اور میرے سر پر رکھرکر بولیں اب بتاؤ۔ بس پھر مجھ سے جھوٹ نہیں بولا گیا اور میں نے ان کو بتا دیا کہ ہاں مجھے لڑکیاں پسند ہیں۔ اس وقت مجھے صرف لڑکیاں ہی پسند تھیں۔‘

عروج بتاتی ہیں کہ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا اور ’پاکستان یا امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی اس طرح کے موضوعات پر بات نہیں کرتی تھی۔ اس لیے میری ماں کو یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ ممکن کیسے ہے۔ وہ مجھ سے کہتی رہیں کہ اسلام کی راہ پر واپس آجاؤ ۔‘

لیکن وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ عروج کی والدہ کی اس بارے میں رائے بھی بدلی۔ وہ اب نہ صرف گریسن کو قبول کر چکی ہیں بلکہ بہت جلد ان سے ملاقات کرنے بھی آرہی ہیں۔

صرف عروج کی والدە ہی نہیں بلکہ پیو ریسرچ سینٹر کے تازە سروے میں جن لوگوں سے بات کی گئی اس کے مطابق آدھے سے زیادە یعنی 52 فیصد امریکی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ لوگ ہم جنس پرستوں کو تسلیم کریں جبکہ ان کے مقابلہ میں صرف 32 فیصد کٹر سفید فام امریکی عیسائی ہم جنس پرستوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

عروج اور گریسن
عروج اور گریسن دو برس سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں

گو کہ واشنگٹن میں ابھی بھی چند ایسے مسلمان گروہ موجود ہیں جن کا خیال ہے کہ ہم جنس پرستی غلط ہے لیکن امریکہ میں مسلمانوں کی نوجوان نسل اس رائے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اس سلسلے میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن ٹے کوب کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں اب ایسی بہت سی مسلمان برادریاں ہیں جو ہم جنس پرستوں کو قبول کر رہی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ بعض سخت گیر عیسائیوں کی طرح ایسے مسلمان بھی ہیں جو ہم جنس پرستوں کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتے اور ان کے ساتھ زیادتیاں کرتے ہیں۔‘

امریکہ کی مسلمان نوجوان نسل یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کو حق حاصل ہے کہ وە اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں مگر وە اپنے ان ساتھیوں کے لیے بھی پرچم لہرارہے ہیں جو ایشیا یا مشرق وسطیٰ میں ڈر اور خوف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp