جنرل مشرف اور ڈائنوسار


بہت دنوں سے غور و فکر کر رہا ہوں، تحقیق کی بھی کوشش کی ہے یعنی گوگل پر لفظ بدل بدل کر سرچ کی ہے لیکن دو باتوں کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ چھوٹے بچوں کو ڈائنوسار اتنے کیوں بھاتے ہیں اور پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف ہر دوسرے دن ٹی وی پر کیوں آتے ہیں۔

میری تحقیق کے مطابق ڈائنوسار وہ جانور ہیں جو دنیا میں انسان کی تخلیق سے لاکھوں کروڑوں سال پہلے یہاں بستے تھے۔ جو سبزی خور تھے اور اتنے پیٹو کہ جنگل کے جنگل کھا جائیں۔ جو گوشت خور وہ جانوروں کی پوری نسل ہڑپ کر جائیں بلکہ اپنے دوسرے ڈائنوسار بھائیوں اور بہنوں کو بھی کھا جائیں، ان کی اولادیں بھی کھا جائیں اور ڈکار بھی نہ ماریں۔

 

فطرت نے حُسن کو جانچنے کے جو پیمانے بنا رکھے ہیں اس کے حساب سے بھی کافی بدنما جانور تھے لیکن بالی وڈ کے قصہ فروشوں نے اور بچوں کے کھلونے بنانے والوں نے ڈائنوسار کا امیج کچھ اس طرح کا بنایا ہے کہ یہ خونخوار جانور بچوں کو بہت ’کیوٹ‘ لگتے ہیں۔

جب ڈائنوسار اپنے بھیانک دانت کھول کر دہاڑتے ہیں تو بچے تالیاں بجاتے ہیں، جب وہ اپنے شکار کی طرف بڑھتے ہیں تو بچے کھلکھلا کر ہنستے ہیں۔ غالباً بچے بھی جانتے ہیں کہ یہ دہاڑ بھی جعلی ہے اور دانت بھی پلاسٹک کے ہیں۔

ہالی وڈ والوں نے مال بنانا ہے، ہم نے بچوں کا دل بہلانا ہے تو ایک خاموش سا معاہدہ ہے کہ ڈائنوسار لاکھوں سال پہلے رہے ہوں یا نہیں لیکن اب ہماری ضرورت ہیں۔ اس لیے بچوں کو فلمیں بھی دکھاتے ہیں، انواع و اقسام کے ڈائنوسار کھلونے بھی دلاتے ہیں اور ان کی کہانی سناتے سناتے سلا بھی دیتے ہیں۔

ابھی کل کی ہی بات لگتی ہے جنرل پرویز مشرف اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ نو سال تک پاکستان پر تو ان کا راج تھا ہی دنیا کے بڑے بڑے لیڈر بھی دہشت گردی کے بارے میں ان کے بھاشن بہت غور سے سنتے تھے۔

ہندوستان جاتے تھے تو وہاں کے لوگوں کے دلوں سے آہیں نکلتی تھیں کہ کاش واجپئی جیسے ضعیف انسان کی جگہ ہمارا لیڈر بھی ایسا جوان ہوتا ( اب 56 انچ کی چھاتی والے مودی کے بعد تو ان کی مراد بر آئی ہے)۔

جنرل صاحب کو ٹی وی پر آنے کو اس وقت بھی شوق تھا۔ کچھ عرصے کے لیے اپنی سرکاری رہائش گاہ میں بیٹھ کر کچھ سامعین کو مدعو کر کے پروگرام کیا کرتے تھے۔ تاہم ان کے دنیا کے بڑے بڑے رہنماؤں سے تعلقات، ان کے مقامی سیاسی حواری اور ان کے ٹی وی پروگرام ان کو ان کے انجام سے نہ بچا سکے، گارڈ آف آنر لینا پڑا، گھر جانا پڑا۔

تب سے وہ اپنے آپ کو مختلف سیاسی طریقوں سے سیاسی میدان میں لانچ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ذاتی پارٹی ایک چھوٹا سا مسافر خانہ ہے جہاں مختلف طرح کے کردار آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ ابھی چند دن قبل ہی انھوں نے ایک گرینڈ الائنس بنا کر خود کو اس کا چیئرمین بھی بنا لیا تھا۔ الائنس میں شامل جماعتوں کو پتہ بھی چلنے نہیں دیا بلکہ بعض ایسی جماعتیں بھی اپنے زیرِ کمان لے آئے جن کو اپنے وجود کی خبر بھی نہ تھی۔

لیکن آج بھی جب ریموٹ اٹھا کر تین دفعہ بٹن دبائیں تو وہ الہ دین کے جن کی طرح آپ کی ٹی وی سکرین پر موجود ہوتے ہیں۔ اینکر حضرات اپنی اپنی اوقات کے مطابق کبھی دبئی پہنچ کر، کبھی کیمرہ مین بھجوا کر، کبھی سکائپ پر ان کے بھاشن سننا چاہتے ہیں۔

مجھے بالکل نہیں معلوم کہ ان کے ٹی وی پر آنے سے ریٹنگ آتی ہے یا جاتی ہے۔ یقیناً آتی ہو گی ورنہ محبت کا یہ سلسلہ اب تک کیوں جاری رہتا۔ ٹی وی والے بھائی اکثر ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ جو بھی کر رہے ہیں ریٹنگ کے لیے کر رہے ہیں۔ یہ فضول الزام ہے ایسے ہی جیسے کہا جائے پوپ خدا کا نام کیوں لیتا ہے یا سیاستدان ووٹروں کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں؟

مجھے نہیں معلوم کہ آج کل جنرل مشرف کون سی کہانی سناتے ہیں لیکن میں ان کے چاہنے والوں کو اور ان کے سنہری دور کی یاد کے مارے ہوئے اپنے دوستوں کو دلیلوں سے سمجھا سمجھا کر اکتا گیا ہوں کہ اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا۔

یہ عشق کا وہ سلسلہ ہے جس میں وصل کی منزل بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اگر میرے جیسے دہاڑی دار تجزیہ نگار کو یہ بات پتہ ہے تو میرے اینکر بھائیوں کو بھی پتہ ہو گی۔

جنرل مشرف کا علاج جیسے جیسے طولانی ہوتا جا رہا ہے انھیں بھی اندازہ ہو چلا ہو گا کہ اسلام آباد کا تخت تو دور کی بات ہے شاید کراچی کے علاقے عزیز آباد سے ایک کونسلر کی سیٹ بھی انھیں نہ ملے گی۔

لیکن ہر دوسرے دن انھیں ٹی وی پر بیٹھا دیکھ کر سوچتا ہوں کہ شاید ہم وہ بچے ہیں جنھیں تاریخ کے اوراق میں گمشدہ ڈائنوسار کی کہانیاں پسند ہیں، فتوحات کی کہانیاں، مار دھاڑ سے بھرپور قصے۔ یہی قصے سنتے سنتے بچہ سو جاتا ہے۔ صبح اٹھتا ہے تو اس کے تکیے پر پلاسٹک کا بھدا سا ایک کھلونا پڑا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).