اونچی ایڑی کی جوتیاں اور شوہروں کی خواہشات


ہمارے ہاں عموما جس عمر میں شادی ہوتی ہے اس میں لوگوں نے نہ تو زیادہ انسانوں کو برتا ہوتا ہے نہ ہی یہ بات زیادہ جانتے ہیں کہ ہر انسان سے منسلک اچھائیوں برائیوں کے مختلف پہلو ہو سکتے ہیں۔ لڑکیوں نے عموما اپنے ابا دیکھ رکھے ہوتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ایسے شفقت سے پیش آتے ہیں، یہ غور نہیں کیا ہوتا کہ اماں کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہے اور مہینے میں کتنی مرتبہ پھول لاتے ہیں وہ اماں کے لئے۔ بس لڑکے لڑکیاں ایک فرضی خاکہ بنا لیتے ہیں جیون ساتھی کا کہ وہ ایسا ہو گا یا ایسی ہو گی اور جب حقیقت اس سے مختلف نکلتی ہے تو مختلف طرح کے رویے سامنے آتے ہیں۔ کچھ لوگ تو حقیقت سے جلد سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور کچھ اپنی غیر حقیقی توقعات کے فرضی خاکے سے تمام عمر نہیں نکلتے۔

میری ایک پرانی جاننے والی ہیں ۔ ان سے شادی کے بہت عرصے بعد ملاقات ہوئی ۔ کہنے لگیں کہ شوہر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے ہیں جہاں بہت طرح دار خواتین ان کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ اب وہ جب دفتر سے واپس آتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ بیوی ایک اونچی ہیل کی سینڈل پہن کر اور سج بن کر اٹھلاتی پھرے۔ اب یہ جوڑا معاشی تنگ دستی کا بھی شکار ہے۔ میری دوست خود ایک استانی بھی ہیں اور ایک ماں بھی۔ اپنا اینٹوں سے بنا اونچا نیچا صحن دکھا کر پوچھنے لگیں کہ بتاو اونچی ایڑی کی جوتی پہن کر میں اس صحن سے باورچی خانے کے دس چکر لگا سکتی ہوں؟

اب بات یہ ہے کہ وہ خواتین جن کی بات یہ صاحب کرتے ہیں وہ امیر طبقے کی شوقیہ ملازمت کرنے والی خواتین ہیں جنہیں گھر میں مددگار بھی دستیاب ہیں اور خانساماں بھی۔ اب اگر وہ اپنی اہلیہ کو بھی تمام سہولیات مہیا کر دیں تو اونچی ایڑی کی جوتی پہننا ان کے لئے بھی بہت آسان ہو شاید۔

دوسری طرف میرے حلقہ احباب میں ایسی خواتین بھی ہیں جو شادی کی دو تین دہائیاں گزر جانے کے باوجود اپنی غیر شادی شدہ زندگی کی بے فکری اور آرام و سکون کے طلسم سے نہیں نکلیں۔ انہوں نے اپنے میاں کو اپنے تصوراتی خاکے سے بہت مختلف پایا۔ وہ اگر معاشی طور پر شوہر کا ہاتھ بٹاتی ہیں تو وہ پھر اس سے آگے کوئی سمجھوتہ کرنے کی روادار نہیں اور اگر معاشی طور پر ہاتھ نہیں بھی بٹاتیں تو وہی آرام و سکون حاصل کرنے کی خواہاں ہیں جو انہیں اپنے والدین کے گھر غیر شادی شدہ زندگی میں میسر تھا۔

شاید ہر انسان ہی ایک آزاد زندگی گزارنا چاہتا ہے جو روک ٹوک اور حدود قیود سے پاک ہو۔ میری بہت سی خواتین دوست باہر کے ممالک میں جا کر اپنی مرضی کا لباس پہن لیتی ہیں جو اس سماج میں قابل قبول نہیں مگر انہیں اس قدرے آزادی سے خوشی ملتی ہے۔ آزادی تو انسان کی فطرت کے مطالبات میں سے ایک ہے مگر سماج کے دباو اور قیود کی وجہ سے مختلف معاشروں میں اس کی حدود مختلف ہیں۔

شادی کا رشتہ بھی ایک سماجی رشتہ ہے، یہ معاشرے میں اس بات کا اعلان ہے کہ اب یہ دو افراد اکٹھے رہیں گے۔ جب آپ نے ایک سماجی رشتے کو قبول کرلیا تو پھر آپ کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ اب آپ آزاد نہیں رہے۔ جب آپ ایک کمرہ جماعت میں بیٹھتے ہیں تو آپ پر رویے کے لحاظ سے کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اسی طرح دفتر میں ملازمت کرتے ہوئے بھی کچھ خاص حدود اور قیود کے تحت رہا جاتا ہے تو پھر شادی کے رشتے میں اگر کچھ اصولوں یا ضابطوں کے تحت رہا جائے تو کیا برا ہے؟

ہماری زندگی گزارنے کے طریقے مختلف رویوں پر مبنی ہیں اور ان رویوں کی شدت میں کمی بیشی کی وجہ سے کی وجہ سے ان کے نام باریک باریک لکیروں کے فرق سے بدل جاتے ہیں۔ ایک طرف ایسی بہت سی خواتین ہیں جو شادی کے بعد ڈھل جانے اور سمجھوتا کر لینے کو غلط تصور کرتی ہیں یا جو استحصال ہونے اور ذمہ داری اٹھانے کے درمیان کی باریک لکیر کا فرق سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ہر انسان کی زندگی کے کچھ پہلو ہیں، کچھ اس کی بنیادی ضروریات ہیں اور کچھ اس کی شخصیت کے حوالے سے ضروریات ہیں۔ مثلا اگر ایک خاتون تصویریں بنانا پسند کرتی ہے تو پینٹ رنگ اور برش کے بغیر زندگی گزارنے کو شاید وہ نامکلمل محسوس کرے۔ ان خواہشات اور ضروریات کی قربانی دینا شاید ممکن نہ ہو اور نہ ہی آسان ہو سکتا ہے۔ مگر ضرورت اس چیز کی ہے کہ قربانی یا سمجھوتے اور ڈھل جانے کے بیچ فرق سمجھا جائے۔ زیادتی ہو جانے پر آواز اٹھانا اور اپنے حق کے لئے کھڑے ہو جانا بالکل درست ہے اور ایسا کرنا چاہیے، لیکن ساتھ میں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کچھ صورتوں میں خود کو بدل لینے، ڈھل جانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

مگر پھر دوسری طرف ایسے مرد حضرات بھی ہیں جو اپنی بیوی کی استعداد اور ہمت جانچے بغیر اس سے زندگی کہ ہر شعبے میں ایک بالکل درست رویہ چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بیوی گھر کے کام کاج بھی کرے، میل جول بھی رکھے، بچوں کی تربیت بھی کرے، معاشی معاونت بھی کرے، مگر پھر وہ خود پر بھی بھرپور توجہ دے اور ہر وقت تازہ دم اور چاق و چوبند دکھائی دے۔

جن گھرانوں میں بھی توقعات حقیقت کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے صرف ایک خیالی تصوراتی خاکے کی تلاش کی ہوتی ہیں وہاں مسائل جنم لیتے ہیں۔

شادی شدہ زندگی تو ایک لین دین اور بانٹنے کے رشتے کا نام ہے۔ رشتہ چلانا ایک سر لے اور تال پر میل کے ساتھ رقص کرنے کی طرح ہو سکتا ہے کہ کب آپ کے ساتھی نے ہاتھ بڑھانا ہے اور کب آپ نے اسے تھامنا ہے اور وہ بھی زندگی کی طرف سے مہیا کی گئی موسیقی کی دھن پر۔ اگر میاں بیوی دونوں ہی حقیقت حال کو نظر انداز کر کے اپنی ڈفلی اور اپنا راگ الاپیں گے تو بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔

ایک مثالی شادی کا خاکہ کھینچنا یا کسی رشتے کو مثالی طریقے سے نبھانا تو شاید ناممکن ہو، کیونکہ ہر دو انسان منفرد ہیں سو اس وجہ سے ان کے مابین بننے والا رشتہ بھی، مگر حقیقت پسند ہو جانےکی صورت میں چیزوں کو لے کر چلنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim