ٹرمپ کے ایک سال میں امریکہ میں کچھ نہیں بدلا


صدر ٹرمپ کی شخصیت امریکی عوام اور دنیا کے لئے ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آئی کہ جس کو وہ کبھی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے کے طور پر تصور کرتے رہے۔ ان کے حامی بھی ان کے متعلق اسی خیال کو ان کی کامیابی کی وجہ گردانتے رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم میں جس نوعیت کا جارحانہ رویہ رکھا۔ وہ ایک خالصتاً کاروباری پس منظر رکھنے والے شخص کے حوالے سے ایک اچنبھے کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ سوچنا حماقت ہو گی کہ ایسی بڑی کاروباری شخصیت بغیر سوچی سمجھے بول رہی تھی بلکہ حقیقت یہ تھی اور ہے کہ وہ انتخابی مہم میں اپنے حق میں عوامی جذبات کو چھپانے کی غرض سے انتخابی نعرے تخلیق کر رہے تھے۔ اور جن میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔

ایک سال گزرنے کے بعد امریکہ کی سیاست پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہو گا کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایسا تو ہرگز نہیں کہ انہوں نے اس ضمن میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی لیکن وہ بہرحال اپنے قدم پیچھے ہٹانے پر بھی مجبور ہوئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں جہاں کہیں خارجہ حکمت عملی کا ذکر کیا تھا اس میں بھی انہوں نے امریکی عوام کو براہ راست معاشی بحالی کے ہی سپنے دکھائے تھے۔ اسی سبب سے انہوں نے ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ سے علیحدگی اختیار کی اور اس معاہدہ سے منسلک معاملات کو ایک گومگو کیفیت میں ڈال دیا کہ اب کیا ہو گا۔ ان کے اس اقدام کے سبب سے امریکہ کی مستقبل کی پالیسیوں کے حوالے سے دنیا ایک ابہام کا شکار ہو گئی۔ کہ وہ مزید بھی عالمی معاہدوں سے امریکہ کو علیحدہ کر سکتے ہیں۔ جس کے نتائج کے طور پر عالمی معیشت اور سیاست نئے رخ پر روانہ ہو سکتی ہے۔

پھر انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے عالمی معاہدے سے بھی امریکہ کو علیحدہ کر دیا اور اس معاہدے کو امریکہ کی گرتی ہوئی معیشت کے حوالے سے نا مناسب قرار دیا۔ خیال رہے کہ ان کے اس اقدام کے سبب سے امریکہ دنیا کا واحد ملک بن گیا جو اس نوعیت کی موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے کا حصہ نہیں۔ پھر وہ نارتھ امریکی فری ٹریڈ ایگریمنٹ کی طرف بڑھے اور انہوں نے اس معاہدے سے وابستہ ممالک سے از سر نو مذاکرات کا آغاز کر دیا۔ اس معاہدے کے سبب سے امریکہ شمالی امریکہ کے ممالک سے نئے تجارتی بندھنوں میں بندھ گیا تھا۔ لیکن امریکہ کی ایک نہایت مؤثر تعداد کا خیال تھا کہ ان معاہدوں کے سبب سے امریکہ میں بے روزگاری کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لئے ان معاہدوں سے نکلنا یا شرائط کا از سر نو طے ہونا ضروری ہے۔ مگر ان دونوں اقدامات کے باوجود امریکہ میں بے روزگاری کی شرح میں کوئی نمایاں کمی نہیں آ سکی۔

امریکی مارکیٹ میں نئی ملازمتیں ضرور دستیاب ہوئی ہیں۔ مگر ابھی تک یہ سطح 2010ء کی سطح تک نہیں آئی۔ جس کی وجہ سے وہاں پر ایک بے چینی کی کیفیت موجود ہے۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے سپنے فوراً پورے ہونے کے تصورات باندھے تھے۔ حالانکہ یہ ممکن نہیں تھا۔ امریکہ کی ملازمتوں کی منڈی کو سنبھالا دینے کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور متنازعہ اقدام بھی اٹھا اور وہ Keystone اور Dakota پائپ لائنوں کی بحالی کے اقدامات اٹھانے کی طرف چل دیے۔ ان اقدامات کا مقصد بھی بھی امریکہ کے عوام کے لئے نئی ملازمتیں پیدا کرنا ہے۔ مگر ان پائپ لائنوں کو ماحول کی تباہی کا باعث قرار دیا گیا تھا۔ اس لئے ہی ان کے حوالے سے اقدامات اٹھانے سے امریکی حکومت باز رہی تھی۔

مگر ٹرمپ انتظامیہ نے اس حوالے سے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے تحفظات کو کلی طور پر نظر انداز کر دیا۔ اور اس لئے ہی یہ معاملہ امریکی حکومت اور انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے مابین وجہ تنازعہ بن گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ایک اور اہم دعویٰ کیا تھا کہ وہ میکسیکو سے ہونے والے ایسے معاملات جو دونوں ممالک کی سرحدوں کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ ان مسائل کے تدارک کی غرض سے دونوں ممالک کی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کریں گے۔ ان کے ان خیالات کا دنیا میں مذاق بھی اڑایا گیا۔ مگر وہ اپنے اس مؤقف پر ڈٹے رہے کہ امریکہ کے بہت سارے مسائل کا حل اس دیوار کی تعمیر میں ہے۔

جب وہ صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنے اس انتخابی وعدے کی تکمیل کی غرض سے ایک انتظامی حکم جاری کیا اور فنڈز کی ترسیل کی ہدایت کی۔ مگر جب امریکہ کے ان احکام نے اس منصوبے کا تفصیلی مطالعہ کیا تو انہوں نے اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کو انتہائی مشکل قرار دے دیا۔ وائیٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف جان کیلی تک اس نتیجے پر پہنچے اور انہوں نے میڈیا میں اس کو تسلیم کیا کہ اس کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا بہت مشکل ہے۔ جب امریکی صدر نے صدارت سنبھالتے ہی اس دیوار کی تعمیر کے حوالے سے پیش قدمی کی تھی تو ان کے حامیوں نے ان کو ایک معاشی نئی لہر سے تعبیر کیا تھا۔ مگر اب ان کی امیدوں پر تقریباً اوس پر گئی ہے۔ امیدوں پر اوس صرف اسی حوالے سے ہی نہیں پڑی بلکہ امریکہ میں مسلمانوں کے حوالے سے مخاصمت رکھنے والے گروہ بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی تندوتیز گفتگو میں یہاں تک کہ امریکہ کے لئے جان قربان کرنے والے فوجیوں تک کا مضحکہ اڑانے کے بعد یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ مسلمانوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوں گے۔

انہوں نے 6 مسلمان ممالک پر سفری نوعیت کی پابندیاں بھی عائد کیں مگر ایک تو یہ وہ مسلمان ممالک تھے جو پہلے ہی غیر اہم ہو چکے تھے۔ دوئم وہ اپنے ان احکامات پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی نہ کروا سکے۔ اور امریکہ کی مختلف عدالتوں میں اس حوالے سے ان کے حکم کے خلاف فیصلے دینے شروع کر دیے۔ لیکن ان کے ان اقدامات کے سبب سے بہرحال ہر قومیت کے مسلمان ایک پریشانی کا شکار ضرور ہو گئے۔ پریشانی کا جنم تو امریکہ کے دولت مند طبقے میں بھی ہوا تھا جب انہوں نے Tax Cuts for All کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اور عام امریکیوں میں یہ خیال تقویت پا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صاحب اقدار ہونے کے بعد ٹیکس کے نظام بالخصوص امیر امریکییوں کے لئے نسبتاً سخت ٹیکس کے قوانین سامنے آئیں گے۔ مگر ہوا اس کے برخلاف۔

انہوں نے جن ٹیکس کی پالیسیوں پر عملدرآمد کیا ان کی بدولت دولت مند امریکیوں کو مزید ٹیکس میں سہولت فراہم ہو گئی۔ اور Tax Cuts for All کا نعرہ سر دست ایک نعرہ ہی بن کر رہ گیا۔ پھر امریکیوں کے لئے یہ نہایت ہی برا خواب تھا کہ ان کے ٹیکس کی خطیر رقم 77 ملین ڈالر صرف ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے متعلقین کے واشنگٹن۔ نیو یارک۔ واشنگٹن کی آمد اور روانگی پر ہی خرچ ہو گئے۔ ٹرمپ نے اس حوالے سے اوباما پر بڑی تنقید کی تھی کہ وہ اوباما تو اکثر گولف کورس میں ہی وقت گزارتے ہیں۔ میں صرف وائیٹ ہاؤس کو ہی وقت دونگا۔ مگر امریکیوں کے لئے بہت حیرت کا باعث ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے پہلے سال اقتدار میں 73 دن گالف کورس کی ہی زینت بنے رہے۔ حالانکہ انہوں نے وائیٹ ہاؤس کی زینت بننے کے لئے یہ نعرہ بھی بلند کیا تھا کہ وہ اوباما کے ہیلتھ کیئر بل کو منسوخ کر دیں گے اور یہ بل درحقیقت مکمل تباہی ہے۔ مگر ٹرمپ نے بعد میں اعتراف کیا کہ وہ اس معاملے کو جتنا مشکل ہے اتنا سمجھ نہیں سکے تھے۔ اور ہیلتھ کیئر بل کا معاملہ نہایت مشکل ہے۔

اب خیال ہے کہ یہ خالصتاً ان کا سیاسی نعرہ تھا۔ جیسے کہ ان کا یہ نعرہ بھی سیاسی ہی ثابت ہوا کہ ہیلری کلنٹن کے حوالے سے وہ اٹارنی جنرل کو ہدایت کریں گے کہ ان کے لئے خصوصی پراسیکیوٹر مقرر کیا جائے۔ ان کا ہیلری کے لئے یہ فقرہ تو بہت مشہور ہوا تھا۔ Lock Her Up اگر گزشتہ ایک سال کو دیکھا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ امریکہ میں کچھ نہیں بدلا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).