نظریہ نواز شریف؟ صرف نواز شریف


جو الفاظ ہماری زبان و بیان میں آتے ہیں، وہ روزمرہ کہلاتے ہیں۔ ان کی ایک خاص ہیئت شکل و صورت ہوتی ہے۔ ان سے امکانات کے سلسلے پھوٹتے ہیں۔ ہر لفظ کے پیچھے اس کی عملی تشریح اور مفہوم کار فرما ہوتا ہے۔ افتخار مغل صاحب نے کہا تھا، کہ ’بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے‘، تو ویسے ہی نہیں کہا تھا۔ لفظ ہماری تہذیبی تمدنی اور تقافتی اقدار کا تعین کرتے ہیں۔ جون صاحب کہتے ہیں کہ ہم لفظوں میں جیتے مرتے ہیں۔

کائنات کے تمام اجزاکی ان کی ماہیت کے اعتبار سے لفظی ایک تقسیم ہے۔ ہم ساری کائنات کو لفظوں میں بیان کرتے ہیں تو سننے والے ان کے مفاہیم کو سمجھتے ہیں۔ جیسے کہنے اور سننے کو تو ماں کسی دوسرے لفظ کی طرح ایک لفظ ہے، لیکن اس کے پیچھے ایک فلسفہ ہے۔ اس کی ایک عملی شکل ہے۔ اس کے معانی کے ساتھ کئی اور اجزا بندھے ہوئے ہیں۔ جیسے ہم ماں کا لفظ سنتے یا بولتے ہیں تو ہمیں شفقت، محبت، عنایت، جذبہ، سکھ غرض ماں کے لفظ کے جتنے بھی امکانات ہیں وہ ہمارے ذہن نا رسا میں ایک دم سے آنا شروع ہوتے ہیں۔

یوں ہم لفظوں کے مفاہیم بعض اوقات ان کی عملی ترکیب سے سمجھتے ہیں کہ وہ لفظ اور ان کا مقام تعین سے مقام اطلاق تک کا سفر کیا ہے؟ ان لفظوں کا سلسلہ انصرام کیا ہے؟ ہمارے یہاں ان لفظوں کے کیا معانی ہیں؟ ان کی کیا عملی شکلیں ہیں؟ وہ کس طرح ہمارے سماج میں وقوع پذیر ہیں؟ یہاں ایک بڑی تکلیف دہ بات جس کو سمجھنا ضروری ہے ہمارے معاشرے میں شاید اب نئے لفظوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں کچھ باتیں ایسی ہونا شروع ہوگئی ہیں جن پہ پہلے سے موجود لفظوں کا اطلاق کرنا مناسب نہیں رہا۔ معاشرے نے ایسی روایات قائم کرنا شروع کردی ہیں جن کو نئے الفاظ کی ضرورت ہے۔ محور گفتگو یہ نہیں ہے یہ بذات خود ایک الگ موضوع ہے۔ فی الوقت اس سے اجتناب۔

اگر میں بات کو مختصر کروں تو وہ یوں کہ ہم لفظوں کی معانوی نوعیت کو سامنے رکھ کر ان کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں ادراک ہوتا ہے کہ کون سا لفظ اپنے اندر کس مقام پہ کیا مفہوم رکھتا ہے۔ اس لئے ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہمیں سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ لفظ ہمارے اذہان میں غوطے مارتے خیالات کی پوشاک ہوتے ہیں۔ ہمارے خیالات میں نقب زنی کوئی اس پوشاک کے بغیر نہیں کرسکتا، جس سے ہم اپنے خیالات کو آراستہ کرتے ہیں۔

نظریہ ہماری لغت میں ایک قدیم لفظ ہے۔ معنوی اعتبار سے اس میں سمندر جتنی گہرائی ہے۔ نظریہ ایک اساسی نوعیت کی چیز ہے۔ یہ مقام اطلاق میں ایسے ہے جیسے عقل۔ ہم اس کو چھو نہیں سکتے لیکن ہم اسے محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک فکر کا نام ہے، جس کی بنیاد پہ معاشرے کی کسی قدر کو استوار کیا جاتا ہے۔ یہ ایک شاہراہ ہے جو انسان اور سماج کی رہنمائی کرتا ہے۔ معاشرے نظریات پہ قائم ہوتے ہیں اور انہی نظریات کی روشنی میں اپنا عملی نظام وضع کر کے ترقی کی جانب بڑھتے ہیں۔ وہ ترقی تہذیبی، ثقافتی، تمدنی تنیوں دائروں میں ہو سکتی ہے۔ سماج کی اجتماعی سیاسی فکر جس کے ذیل میں اس کے تما م ادارے اور شعبہ جات آئیں اور اس پہ کوئی نظام وضع کریں تو اس کو ایک نظریہ کہا جائے گا۔

نظریے کی ایک منطقی دلیل ہوتی ہے، جس سے اس کی تائید کی جاتی ہے۔ نیلسن مینڈیلا، ماو، فیڈل کاسترو اور ان جیسے بے شمار حکمرانوں نے ایک نظریے سے بغاوت کی اور اپنا نظریہ دیا اور ا س کے لئے برسوں جدوجہد کی۔ یہ لوگ اس سماج سے مائنس بھی ہوگئے لیکن ان کا نظریہ آج بھی قائم ہے، ویسے انہوں نے تو کبھی خود کو نظریہ نہیں کہا۔ ان کی فکر و عمل کے اشتراک نے ان کو نظریہ ثابت کیا۔

نواز شریف کے حال ہی میں کچھ انقلابی الفاظ کا سہارا لینا شروع کیا ہے۔ پہلے انہوں نے کہا کہ اب میں نظریاتی ہوگیا ہوں۔ جو کہ ایک اچھی بات ہے۔ اگر ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کسی کے نظریاتی ہونے سے کیا مراد ہے؟ نظریاتی ہونے سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ کوئی بھی فرد جس نے کسی مسلمہ نظریے یا فکر کو سمجھا، اس کے خدوخال پہ غور کیا، اس کو قبول کیا اور اس پہ اپنے رویے کو بنایا اور پھر ایمان کی حد تک اس کا دفاع کیا اور اس فکر پہ کسی نظام کا قائم کرنے کی جدو جہد کی۔ ہم کہیں گے کہ وہ شخص نظریاتی ہے۔

ایک اوربات یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی آدمی حالات کے جبر کی وجہ سے اپنی آخری عمر میں نظریاتی نہیں بن سکتا۔ وہ ایک مزاحمتی تحریک کی داغ بیل تو ڈال سکتا ہے لیکن میاں صاحب آپ کو اس سے بھی محروم ہیں۔ نظریہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کو آپ کسی مصلحت کے تحت قبول کریں۔ نظریے کا اولین تقاضا ہے کہ اس کو سمجھا جائے گا اور پھر قبول کیا جائے گا۔ یہ طے ہے کہ کوئی بھی فرد جب تک کسی فکر کو مکمل ذہنی اور جسمانی آزادی سے قبول نہیں کرتا، وہ کبھی بھی نظریاتی نہیں کہلائے گا۔ یہ مسلمہ درجے کی بات ہے جس کا بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپا، تمام عمر مجموعہ اضداد ہو تو اس کو نظریاتی نہیں کہا جاسکتا۔

نظریاتی آدمی کبھی حالات پہ سمجھوتا نہیں کر سکتا، وہ کبھی بھی ذات کو کسی کام میں حائل نہیں کر سکتا، وہ نظریہ ہی کیا ہے جو آپ کو اپنی ذات کا اسیر بنا کر رکھ دے اور آپ کے گرد ایک دائرہ لگا دے آپ کو اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر ہی نہ آئے۔ ایک آپ نظریاتی ہوئے اور ایک فتح اللہ گولن، امام خمینی سے کسی نے پوچھا کہ آپ کا انقلاب؟ تو جواب دیا کہ ماوں کی گود میں ہے ابھی۔

نواز شریف صاحب نے اس کے بعد مزید اضافہ کیا اور خود کو ہی ایک نظریہ قرار دیا۔ گویا ہوئے کہ نواز شریف ایک نظریے کا نام ہے۔ مائنس نواز نہیں ہو سکتا۔ اب اس بات کے بے شمار پہلو ہیں۔ اس کی طرف میں بعد میں آتا ہوں۔

یہ بڑی دلچسب بات ہے کہ نواز شریف پینتیس سال متنازع اقتدار میں گزارنے کے بعد اپنی شکست پہ کیسے نظریاتی ہو سکتے ہیں؟ لیکن اگر اس کی بات ایک لمحے کو مان بھی لی جائے تو اس سے ان کی پراسرار شخصیت کا یہ پہلو عیاں ہوتا ہے، کہ پہلے وہ نظریاتی بنے یعنی ایک حادثے نے ان کو نظریاتی بنادیا۔ جب وہ اپنی جائیداد کا دفاع نہیں کر سکے۔ ویسے ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ کسی نظریاتی کا دولت سے کیا واسطہ؟ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ نظریاتی تو وہ آج ہوئے ہیں، دولت تو پرانی ہے۔ یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ حضور اگر آپ نظریاتی ہو ہی گئے ہیں، تو ترک دنیا کیوں نہیں کرتے؟ کون سا نظریہ دولت کی پاسداری کی تلقین کرتا ہے۔ جواب سادہ ہے کہ سرمایا دارانہ نظریہ۔ وہ بھی تو ایک نظریہ ہی تو ہے اور اس کی اساس پہ سرمایہ دارانہ نظام بھی قائم ہے۔

میں واپس اس بات کی جانب لوٹتا ہوں کہ نواز شریف پہلے نظریاتی ہوئے اور بعد میں خود ایک نظریہ بن گئے اور یہ سب ایک مہینے کے اندر اندر ہوا۔

جس نظریے کو نواز شریف قبول کرکے نظریاتی ہوئے تھے، وہ کون سا نظریہ تھا؟ جی اب وہ بات سمجھ آئے گی کہ وہ نظریہ ’صرف نواز شریف‘ تھا۔ یعنی جس نظریے کا نام نواز شریف ہے، اس کو سب سے پہلے نواز شریف نے خود قبول کیا اور بعد میں وہ خود ایک نظریہ بن کر ابھرے۔

یہ دنیا کا اپنی نوعیت کو وہ واحد نظریہ ہے، جہاں نظریہ پرست خود نظریہ بن گیا، جو نظریہ ایک فرد کی ذات کا احاطہ کیے ہوگا۔

نظریاتی نواز شریف اور نظریہ نواز شریف میں چند قدموں اور ایام کا فاصلہ ہے۔ دنیا میں کسی بھی نظریے کو اتنی جلدی، اتنی زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ یہاں سے تاریخ جنم لیتی ہے۔ نظریے نے وہ گل کھلائے کہ اگلے دو ایام ہی میں وہ پوری قومی اسمبلی میں سرائیت کرگیا اور اس کی بقا کی خاطر آئینی محتاجی سے بچنے کے لئے آئینی ترمیم کا بھی سہارا لیا گیا۔ ساری مسلم لیگ نون بتادے کہ کس نظریے کو آج تک دنیا میں قائم رکھنے کے لئے قانون سازی کی گئی ہے؟ نظریے کی معراج یہ ہے کہ وہ ازخود ایک قانون بن جائے۔

ہمارے نصاب، تاریخ میں اور دانست میں نظریے کی جو شرح ہے، وہ اس سے یکسر متعارض اور متصادم ہے۔ مارکس اور ہیگل نے ایک اقتصادیات کی ایک فکر دی تو اس پہ ایک نظام قائم ہو اس کو سوشلزم کہا جاتا ہے۔ یوں سوشلزم ایک نظریہ بن گیا۔ ایڈم سمتھ نے اس کے بر عکس ایک فکر دی تھی جس کی بنیاد پہ کیپیٹلزم ایک نظام بن گیا۔ بے شمار ایسے افکار ہیں، جن کو نظریے کا درجہ حاصل ہے۔ ابن خلدن نے سماجی تشکیل کا نظریہ دیا، شاہ ولی اللہ صاحب نے وحدت انسانی و ادیانی بنیاد پہ ایک آفاقی اور عالمی سیاست کا نظریہ دیا، اب نواز شریف جس نظریے کو کہا جائے گا، ہنوز اس کا اطلاق معاشرے کے کس پہلو پہ ہوگا، یہ وہ خود ہی بتا سکتے ہیں، فی الوقت۔ کیونکہ وہ بذات خود اس نظریے کے اکلوتے شارح ہیں۔

نواز شریف عدالتوں میں اپنی دولت اپنی ذاتی دولت کا جواز نہیں دے سکے تو ریاستی نظام نے ان کا احتساب شروع کردیا۔ گو کہ کسی بڑے نام کا پہلی بار، مگر کیا ضرور۔ نواز شریف پہ جو مقدمات ہیں وہ کسی آمریت کے خلاف جہاد کے نہیں، وہ کسی قوم کی رہنمائی کی پاداش میں نہیں، وہ کسی ظلم و استبداد کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے پہ نہیں، وہ عوامی مفاد میں کسی بغاوت پہ نہیں، وہ عام لوگوں کے حق میں بات کرنے اور سویلین بالا دستی کا سوال نہیں، وہ تو ان کی ذاتی دولت کا جواز مانگا جارہا ہے جس کو تراشنے میں وہ ناکام ہیں۔

ماو پہ ظالم قوتیں الزام لگاتی تھی کہ لوگوں کو اپنے حقوق پہ اکساتا ہے، نیلسن پہ الزام تھا کہ نسلی تضاد کے خلاف ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، امام خمینی پہ الزام تھا، اسلامی کہ انقلاب کی بات کرتا ہے۔ ان کی جدوجہد میں عوام کا عنصر شامل تھا۔ وہ اپنی ذات سے بہت آگے گزر چکے تھے۔ میاں جی آپ کا اور ان کا کوئی موازنہ ممکن نہیں ہے۔ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔

نظریہ نواز شریف کا پہلا قانون بھی بن گیا ہے کہ ’صرف نواز شریف‘ اور اگلے دنوں میں ہم اس کی مزید تشریح بھی دیکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).