مرلی دھرن، دھرنا اور امپائر


مرلی دھرن سری لنکا کے مشہور زمانہ کرکٹر گزرے ہیں۔ ان کو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے کامیاب اسپنر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مرلی دھرن نے ٹیسٹ کرکٹ میں 800 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔ مرلی دھرن کو صرف کرکٹرز ہی پسند نہیں کرتے بلکہ اکثر وہ لوگ جن کو کرکٹ سے کوئی خاص لگاو نہیں ہے، وہ بھی مرلی دھرن کو ان کے نام کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔ اور اپنی پسندیدگی کا برملا اظہار، دھرنے کی صورت میں کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں دھرنا میچوں کا آغاز ڈاکٹر طاہر القادری نے کیا۔ 2013ء میں انتخابی اصلاحات اور بدعنوان سیاست دانوں کے احتساب کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری آف بریکس لیتے ہوئے، اسلام آباد میں نازل ہوئے۔ مہمان ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ مقابل ٹیم پاکستان پیپلز پارٹی تھی جس میں کئی منجھے ہوئے کھلاڑی موجود تھے۔ مہمان ٹیم کے کپتان نے مہارت سے کھیلتے ہوئے میزبان ٹیم کے خلاف اسکور کرنا شروع کیا۔ میزبان ٹیم کے کھلاڑی شروع میں دباو میں دکھائی دیے، مگر پھر انھوں نے بھی اپنی مہارت دکھائی اور میزبان ٹیم کے اسکور کے آگے بند باندھا۔

چودھری شجاعت حسین نے عمدہ باولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کو ”دوسرا“ کے جال میں پھنسا لیا۔ میزبان ٹیم اپنے کپتان کے پھنس جانے کے بعد اپنی کارکردگی برقرار نہ رکھ سکی اور یوں یہ پانچ روزہ دھرنا میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہو گیا۔

پہلے دھرنے میچ کی مقبولیت کے بعدجارحانہ مزاج رکھنے والے تحریک انصاف کے کپتان عمران خان نے دوسرا دھرنا میچ کھیلنے کا اعلان کر دیا۔ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا نعرہ اس میچ کی وجہ بنا۔ اس مرتبہ مقابل ٹیم پاکستان مسلم لیگ (ن) تھی جس کی کپتانی نواز شریف کر رہے تھے، جو خود بھی کرکٹ کے رسیا ہیں۔ گزشتہ میچ کا تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کی عمران خان کی ٹیم میں جگہ نہ بن سکی تو ڈاکٹر صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ میدان میں اتر آئے۔

اگست تا دسمبر 2014ء کھیلے جانے والے اس طویل دھرنا میچ میں نواز شریف اور ان کی ٹیم عمران خان کی جارحانہ فاسٹ باؤلنگ کی بدولت شدید دباو میں نظر آئی۔

عمران خان کسی بھی قیمت پر نواز شریف کو آؤٹ کرنا چاہتے تھے اور اپیل پر اپیل کر رہے تھے۔ اپنے کرکٹ کے شاندار ماضی کی بدولت عمران خان کو یہ یقین بھی تھا کہ امپائر بھی ان کا ساتھ دیں گے۔ کوئی وقت جاتا تھا کہ امپائر کی انگلی اٹھ جاتی اور نواز شریف آؤٹ ہو جاتے مگر لیگ کی ٹیم کی دفاعی اور وکٹ پر ٹھیر کر وقت گزارنے کی حکمت عملی نے مسلم لیگ نون کو ہارا ہوا میچ بچانے کا موقع فراہم کر دیا۔ عمران خان کی تیز رفتار گیندوں کو ”ویل لیفٹ“ کرتے کرتے مسلم لیگ نون نے میچ کو بچا لیا۔ جاوید ہاشمی کی میچ فکسنگ نے بھی میچ کے نتیجے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ میچ اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔

پہلے دو دھرنا میچوں کے بلانتیجہ اختتام کے بعد حال ہی میں خادم حسین رضوی نے تیسرا دھرنا میچ کھیلنے کا اعلان کیا۔ خادم حسین رضوی سیاست میں اتنی ہی مقبولیت رکھتے ہیں، جتنی کرکٹ میں نمیبیا کی ٹیم رکھتی ہے۔ اس مرتبہ وجہ بنی انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء میں چھیڑی گئی ختم نبوت کی شقیں۔ خادم حسین رضوی نے بھی حسب روایت ٹاس جیت کر پہلے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ تا دم تحریر یہ کھلاڑی وکٹ پر جمے ہوئے ہیں اور میچ کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں۔

مقابل ٹیم اس مرتبہ بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) ہی ہے مگر اس مرتبہ لیگ کی کپتانی کے فرائض شاہد خاقان عباسی انجام دے رہے ہیں، کیوں کہ مسلم لیگ کے سابق کپتان نواز شریف اپنے ”غلط ایکشن“ کی بدولت پابندی کا شکار ہیں۔ غیر متاثر کن کھیل اور قابل ذکر شہرت نہ رکھنے والے کھلاڑیوں کی بدولت یہ میچ تماشائیوں کی توجہ حاصل نہیں کر پایا، حالانکہ یہ میچ اپنی نوعیت کے اعتبار سے گزشتہ میچوں سے کہیں بڑھ کر اہم اور سنسنی خیز ہے۔

مرلی دھرن نے کرکٹ میں سری لنکا کے لیے بہت کامیابیاں سمیٹیں مگر پاکستان میں دھرنا دینے والوں کے حصے میں کامیابی نہ آسکی۔ مرلی دھرن کی کامیابی کی ایک وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کبھی کرکٹ کے میدان میں دھرنا نہیں دیا بلکہ مستقل مزاجی سے گیندیں پھینکتے رہے اور مخالف بیٹسمین کی کمزوری کو بھانپ کر ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے رہے۔ جبکہ دھرنا دینے والے جلد بازی کا شکار رہے اور مخالف ٹیم کی کمزوریوں کو بھانپ کر ان کا فائدہ نہ اٹھا سکے جس کا انجام یہ ہوا کہ تمام دھرنا میچوں کا نتیجہ میزبان ٹیم کے حق میں نکلا۔

مرلی دھرن کی کامیابی کی دوسری اور سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کبھی امپائر کو ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ان کی عمدہ باولنگ تھی جس کی بدولت امپائر کے زیادہ تر فیصلے ان کے حق میں آتے تھے۔ دھرنا دینے والوں نے کھیل پر توجہ دینے کی بجائے امپائر کو ساتھ ملانے کی کوششیں کیں۔ کاش دھرنا دینے والے امپائر پر تکیہ کرنے کی بجائے عمدہ پرفارمنس دیتے تو عوام سے بھی داد پاتے اور امپائر کے فیصلے بھی خودبخود ان کے حق میں آجاتے۔

امپائرنگ ایک مشکل کام ہے۔ کسی بھی کھیل کا حسن اس کھیل کے کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی کے ساتھ ساتھ امپائر کے غیر جانبدارانہ فیصلے ہوتے ہیں۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ متنازع اور جانبدارانہ امپائرنگ کے باعث کئی اچھے میچ برے انجام سے ہمکنار ہوئے اور ان فیصلوں پر شدید تنقید بھی ہوئی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امپائر میچ کے دوران غیر متنازع اور غیر جانبدار رہیں تاکہ میدان میں فیئر گیم ہوسکے اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ پاکستان کےنیوٹرل امپائر اپنی بہترین کارکردگی کی بدولت کئی مرتبہ بہترین امپائرنگ کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad