نشے کا عادی بچہ کملیش


مہذب معاشروں میں بچے روشن کل ہوتے ہیں، بچے امیدوں کا مرکز ہیں، بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں، گلاب کے پھول، حسین، خوش رنگ مہکتے پھول۔ ہمارے جیسے معاشرے میں پروان چڑھنے والے بچے کنول کا پھول ہیں، جو کیچڑ میں کھلا ہے، لیکن اس کیچڑ کو بھی اپنی موجودگی سے خوبصورت بناتا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ ہماری بے رخی سے یہ کنول کا پھول کیچڑ میں کھل کر اسی میں مر جاتا ہے۔

کنول کو ہندی میں کمل قرار دیا گیا، کمل کا سردار کملیش کہلایا۔ ایسا ہی ایک کملیش ہے تیرہ برس کا، بھوپال سے بھاگا ہوا، نشے کا عادی، دن میں 120 روپے کمانے والا، فقط تیس روپے سے بھوجن کرنے والا اور بقیہ نوے روپے سے نشہ کرنے والا۔ وہ اپنی ماں کے پاس واپس نہیں جانا چاہتا، اس کی ماں اسے نشہ نہیں کرنے دے گی، اسے یہ نشہ ماں سے بھی زیادہ عزیز ہے، سب سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے تین دن نشہ نہیں کیا تو خون کی الٹی ہوئی، نشہ کیا تو طبیعت ٹھیک ہو گئی۔ وہ اس زندگی سے خوش ہے لیکن اس کی زندگی ہی کیا ہے؟

ہندوستان کے اس بچے کی ویڈیو کچھ روز قبل سامنے آئی اور اس روز سے لے کر آج تک یہ ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے، اس کا بولنا، نام بتانا، بھاگ آنے کا قصہ سنانا، اس کا نشہ کرنا، اور خوش ہونا سب ایک مذاق بن چکا ہے۔ پاکستان کا حال بھی مختلف نہیں، یہاں ہر سڑک کے کنارے، ہر پل کے نیچے اور ہر کچرا کنڈی کے قریب ایسے درجنوں کملیش مل جائیں گے۔ تعلیم سے دور اور نشے سے قریب، بھوک پر سمجھوتہ کرنے والے مگر نشہ نہ چھوڑنے والے، ماں باپ کو چھوڑ کر نشے کو گلے لگانے والے۔ یہ ہیں ہمارے کملیش ہمارے پھول۔

میں جانتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے دفاعی بجٹ ان ممالک کو تعلیم پر توجہ نہیں دینے دیں گے، تعلیم ان کی ترجیح ہے بھی نہیں۔ عوام کو غلام بنا کر رکھنا ہے تو تعلیم سے دور رکھنا ہوگا۔ مگر میں اپنے ملک کے ان سیاستدانوں سے تو سوال کر سکتا ہوں جو خود کو روایت شکن کہتے ہیں۔ عمران خان صاحب ہر موقعے پر بتاتے ہیں کہ 3 کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔ خدا جانے کتنے کروڑ ایسے ہیں جو غذائی قلت کے سبب پورے قد کو نہیں پہنچ پاتے۔ مصطفیٰ کمال صاحب بھی فرماتے ہیں کہ کروڑوں بچے سکول سے باہر ہیں اور ہزاروں سکولز بند ہیں۔

دو روز قبل مصطفیٰ کمال صاحب نے پارٹی کی ممبر سازی مہم مکمل کی ان کا کہنا ہے کہ اسی ہزار لوگ ان کی پارٹی میں شامل ہوئے۔ عمران خان صاحب بھی فرماتے ہیں کہ ان کے پاس لاکھوں کارکنان(ٹائیگرز) ہیں۔ کیا آپ کے کارکنان صرف جلسوں، دھرنوں یا سیاسی مہم جوئی کے لئے ہیں؟ کیا آپ لیڈر ہوتے ہوئے اپنے کارکنان کو پابند نہیں کر سکتے کہ وہ رضاکارانہ طور پر کسی درس گاہ سے منسلک ہو کر وہاں کچھ وقت دیں اور لوگوں کو پڑھائیں۔ کیا دیگر علم دوست لوگوں کی طرح آپ کسی سڑک کنارے یا کسی خالی پلاٹ پر معصوم و محروم بچوں کے لئے تعلیم کا بندوبست نہیں کر سکتے؟ کیا اپنے کارکنان سے اس قسم کا کوئی تعمیری کام نہیں لے سکتے ایسا کوئی حکم انھیں نہیں دے سکتے؟ کیا الطاف حسین صاحب فوج کو ایک لاکھ کارکنان آفر کرنے کے بجائے ایک ہزار کارکنان اس نیک مقصد کے لئے وقف نہیں کر سکتے تھے؟

جس قوم کے لیڈران کو صرف سکوں کی کھنک یا بوٹوں کی ٹھک ٹھک سنائی دیتی ہو، جس قوم کے لوگوں کو گلزار صاحب کی ہیروئن پانی میں چھئی چھپا چھئی اور ریل کی بوگی پر چھئیاں چھئیاں کرتی سنائی دیتی ہو، اس قوم کو دھن دھن دوڑتا بھوپال کا کملیش اور کراچی کے فٹ پاتھ پر خر خر خراٹے لیتی کنول یا گلاب خان نہیں نظر آئیں گے۔ نشہ صرف اس شخص کو کھوکھلا کرتا ہے جو نشہ کرے، لیکن تعلیم سے دوری پورے معاشرے کو کھوکھلا کرتی ہے۔ کملیش کا مذاق اڑا کر اور اپنی حالت پر غور نہ کر کے آپ ثابت کرتے ہیں کہ یہ معاشرہ کھوکھلا ہو چکا، مر چکا!

بیچارہ کملیش تو نشئی ہے سو مست ہے آپ تو ہوش میں ہیں ناں آپ کیوں چپ ہیں، آپ کو یہ مذاق کیوں لگتا ہے؟

وطن والو بہت غافل رہے اب ہوش میں آؤ
اٹھو بے دار ہو عقل و خرد کو کام میں لاؤ
تمہارے قوم کے بچوں میں ہے تعلیم کا فقداں
یہ گتھی سخت پیچیدہ ہے اس کو جلد سلجھاؤ
یہی بچے بالآخر تم سبھوں کے جانشیں ہوں گے
تم اپنے سامنے جیسا انہیں چاہو بنا جاؤ
بہت ہی رنج دہ ہو جائے گی اس وقت کی غفلت
کہیں ایسا نہ ہو موقع نکل جانے پہ پچھتاؤ
جو ذی احساس ہیں حاصل کرو تم خدمتیں ان کی
جو ذی پروا ہیں ان کو جس طرح ہو اس طرف لاؤ
غرض جیسے بھی ہو جس شکل سے بھی ہو یہ لازم ہے
تم اپنے قوم کے بچوں کو اب تعلیم دلواؤ
(نامعلوم)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).