راما کنور، ثاقبہ کاکڑ: دوش کس کو دیں؟


ادارہ ‘ہم سب’ بخت محمد برشوری صاحب کے خیالات سے سخت اختلاف رکھتے ہوئے اپنی آزادی اظہار کی پالیسی کی بنیاد پر یہ تحریر شائع کر رہا ہے۔ ہمیں برشوری صاحب کی تحریر کے دوسرے پیراگراف کی ان سطروں سے اختلاف ہے۔ \” دیکھنے کو نظر آتا ہے کہ بھائیوں کا کردار ہر جگہ منفی ہے مگر بھائی کیا کرے، اس معاشرے میں پھر اس کی زندگی بھی تو زندگی نہیں رہتی، وہ سماج، پڑوسیوں اور علاقہ بھر کے آگے ساری زندگی سر جھکائے رہ جاتا ہے۔ بالآخر یہ شرمندگی اسے مجبور کرتی ہے کہ جس راما نے اس سے زندگی کا حق چھینا ہے وہ اس سے اس کی زندگی چھین لے۔\”۔ ہم اپنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور دنیا کی تمام عورتوں کو حقوق، عقل، صلاحیت اور رتبے میں مکمل اور مساوی انسان سمجھتے ہیں۔ بہن اور بیٹی بھائی یا باپ کی ملکیت نہیں ہوتی۔ ہم تشدد اور قتل کے ذریعے اپنی مفروضہ عزت کی رکھوالی کرنے والے افراد کو قابل نفرین سمجھتے ہیں، ایسے علاقے کو غیرمہذب سمجھتے ہیں اور اس نوع کے ہر فعل کو بدترین جرم سمجھتے ہیں۔۔۔ مدیر

\"bakht\"

ثاقبہ کاکڑ کی کہانی  سنیے۔ مسلم باغ بلوچستان کا سرد ترین علاقہ، گرلز کالج میں سیاسی جماعت نے اپنے بندوں کو جگہ دلانے کے لیے  مرد اساتذہ کی غیر ضروری  تقرریاں کیں، خواتین ٹیچرز اور طالبات کے درمیان نئے دوچار مرد اساتذہ کا تقرر پرنسپل اور طالبات کے لیے ناقابل قبول تھا۔ سو پرنسپل چند طالبات کو لے کر کوئٹہ آئی، انہوں نے احتجاج اور پریس کانفرنس کیا۔ پرنس کانفرنس میں تقریر ثاقبہ کاکڑ نے کی۔ واپس گھر پہنچی تو بھائی سیخ پا، اس نے جاکر پرنسپل کو دھمکایا، پرنسپل نے پولیس کو اطلاع دی اور پولیس آکر ثاقبہ کے بھائی کو لے گئی۔ ایک ہفتہ بھائی حوالات میں رہا، علاقے کے قبائلی معتبرین نے درمیان میں صلح صفائی کرائی،لڑکے کو ٹھنڈا کیا، صلح نامہ لکھاگیا اور ثاقبہ کا بھائی رہا ہوکر آگیا۔ اس دوران پرنسپل اور ثاقبہ کے خاندان کے درمیان نفرتیں اور دوریاں آچکی تھیں۔ ثاقبہ داخلہ بھیجنے گئی تو پرنسپل نے منہ بھی نہ لگایا، الٹا ان کی تذلیل کرکے واپس کردیا۔ واپس آکر ثاقبہ کے پاس ایک راستہ یہ تھا کہ وہ بھائی اور گھر والوں کا طعنہ سنتی رہتی کہ خاندانی اور معاشرتی روایات کے حدود عبور کرکے جس پرنسپل کے ساتھ تم  نے  کوئٹہ کا \”ٹور \” کیا تھا  اس نے تم پر تھوک کر ہی تمھیں واپس کردیا۔ اور دوسرا راستہ وہی جس پر ثاقبہ چل پڑی۔  راما کی کہانی یہ ہے کہ اس نے بہت پہلے بھاگ کر پسند کی شادی کی، اب شاید کئی بچے ہیں،مگر بھائیوں کے دل میں جلتی ہوئی نفرت اور انتقام کی چھنگاری ٹھنڈی نہیں ہوئی ۔بالآخر راما  مار دی گئی۔

ثاقبہ کاکڑ نے خود کشی کرلی۔ راما کنور کو اس کے بھائیوں نے مارڈالا۔ ثاقبہ کی موت کا دوش کس کو دیں ؟ کس کو کٹہرے میں کھڑا کریں موت تو اس کے اپنے ہاتھوں ہوئی ہے۔ اس قتل کے بالواسطہ مجرم کون ہیں؟ بھائی، پرنسپل یا سیاسی جماعت کی خویش نوازیاں یا پھر یہ سماج ۔مردوں کی دنیا کی یہ نصف آبادی جابجا مظلوم، مقہور اور محروم رہی ہے۔ قبائلی یا نیم قبائلی معاشروں میں اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اس کا دوش تو خواہ مخواہ \”بر گردن  ملا\”، مگر  راما کنور چمکتے دمکتے ہندوستان  ایسے سیکولر ملک  کی ریاست راجھستان کی ہندو عورت ہے۔ وہاں کا قصوروار کون ہے؟ دیکھنے کو نظر آتا ہے کہ بھائیوں کا کردار ہر جگہ منفی ہے مگر بھائی کیا کرے، اس معاشرے میں پھر اس کی زندگی بھی تو زندگی نہیں رہتی، وہ سماج، پڑوسیوں اور علاقہ بھر کے آگے ساری زندگی سر جھکائے رہ جاتا ہے۔ بالآخر یہ شرمندگی اسے مجبور کرتی ہے کہ جس راما نے اس سے زندگی کا حق چھینا ہے وہ اس سے اس کی زندگی چھین لے۔

دن منانے سے کیا ہوتا ہے ایک کیا ہزارمنائیں۔ مگر بنظر غائر ذرا جائزہ لیں۔  برصغیر کے خطے میں واقع عورت اگر ناحق قتل ہوتی ہے، اس سے جبری کام لیا جاتا ہے یا کہیں مردوں کے مقابلے میں اسے عزت و توقیر نہیں دی جاتی تو اس کا دوش ان معاشرتی روایات کو جاتا ہے جو کسی مذہب اور عقیدے کی نہیں خطے کی معاشرتی رسومات اور روایات کا نتیجہ ہے۔ قرآن سے شادی، ستی بٹھانا، جائیداد میں وراثت سے محرومی، وٹہ سٹہ وغیرہ کسی تعلیمات کا نہیں مردوں کی جابرانہ حاکمیت کا ثمرہ ہے۔

غربت ، ظلم، و حشت اور انسانیت کے اخلاقی اقدار سے دوری دن منانے سے  مٹ سکتی ہے ؟ انصاف اور اخلاقی اقدار ہوں تو زندگی خود بخود پروان چڑھتی ہے اس کے لیے کسی دن کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہر شب، شب قدر است اگر قدر بدانی، مجموعی طورپر ہمارا معاشرہ انہیں اقدار پر چل رہا ہے جس کا انجام  کمزوروں کے لیے مکمل محرومی، لاچاری اور جہالت ہی ہوناہے۔   زر اور زور کے ہوس نے کمزوروں اور ناداروں سے ان کی زندگی کی طاقت ہی چھین لی ہے۔  طاقتور کے ہاتھوں کمزوروں کا استحصال ہی اس معاشرے کی ساری تباہیوں کی جڑ ہے۔ دن منائیں تو آخر کس کس کا منائیں ۔خواتین، والدین، مزدور اور بچے ان کے علاوہ کیا مظلوم یا محروم طبقہ نہیں؟ اِس وقت دہشت گردی سب سے بڑا عالمی مسئلہ ہے اس کے لیے بھی کوئی دن تجویز کیا جائے!۔ کہا جاتا ہے کہ \” دن مناکر لوگوں کو اس طبقے کی اہمیت کا احساس دلایا جاتا ہے \”، مگر یہ تو کینسر کے زخم پر گاز کا پلستر دینا ہے، ان خرابیوں کی جڑ کیوں نہیں پکڑی جاتی؟ شور و شغب سے مسائل کو کبھی حل ہوتے دیکھا ہے ؟  دنیا کو متوجہ کیا جانا مقصود ہے تو بیکار کی سعی کیوں ؟ الجھی ڈور  کا گرہ کیوں نہیں پکڑا جاتا۔

ہمارا پورا معاشرہ مجموعی طور پر حرص و ہوس کا شکار ہے،  اخلاقی اقدار، احترام انسانیت، ہمدردی اور محبتیں ناپید ہو چکی ہیں۔ معاشرے میں یہ برائیاں کینسر کی طرح پھیل چکی ہیں۔ ہر شخص کا جتنا بس چلتا ہے اتنا ہی وہ ظالم ہے، اپنے سے کمزور کو کبھی اپنے سے طاقتور اور اونچا دیکھنا کسی کو پسند نہیں۔  معاشرے سے برداشت کا مفہوم مٹ چکا ہے۔ سچ اور جھوٹ کا ہر ایک کا اپنا اپنا معیار ہے۔  جہالت اور وحشت اس قدر کہ الاماں الحفیظ۔۔ جو قوم ایک لیڈر کی شہادت پر ملک بھر میں آگے لگادے اور ملک کو اربوں کا نقصان ہو، ایک ایک احتجاج میں اربوں کی مارکیٹیں جلادی جائیں، معمولی سا اشتعال انگیز واقعہ ہو تو شہر کے باسیوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے۔ پٹرول پمپ، دکانیں ، ٹریفک لائٹس حتی کہ مساجد کے چندہ بکس ایک مظاہرے کے نذر ہو جاتے ہوں ایسے وحشتوں بھرے جامعے میں ایک دن منا کر کوئی سوچتا ہے ثاقبہ کا حق ہم نے ادا کر دیا تو یہ سادہ دلی نہیں تو کیا ہے۔  ایک دن میں ثاقبہ کی یاد کے پروگرام کر کے کیا پاکستان بھر کی گم نام زندہ، نیم زندہ یا مردہ ثاقباؤں  کے زخموں کا مداوا ہوجاتا ہے؟

معاشرے میں حاکم محکوم، امیر غریب، مرد عورت، مالک مزدور  ہمیشہ سے رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ غریب، مزدور، عورت یا کسی بھی محروم اور کمزور کو حق دلانا ہے تو معاشرے میں انصاف، رحم دلی، ہمدردی اور برداشت  کو عام کرنا ہوگا۔ وگرنہ دن سے کیا ہوگا  ایک کیا ہزار منائے جائیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments