معافی مانگیے، معافی مانگنا آسان نہیں!


فروری 2008 میں آسٹریلیا میں لیبر پارٹی کے نئے وزیر اعظم کیون رد نے حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ آسٹریلیا کے مقامی اور اصل ابریجن باشندوں کے ساتھ طویل عرصے تک ہونے والے ظلم اور زیادیوں پر سرکاری سطح پر معافی مانگی۔ آسٹریلیا میں ابریجنز کے ساتھ ظلم، زیادتی اور امتیاز کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس کی محض ایک مثال یہ ہے کہ مشمولیت کی (یا دوسرے لفظوں میں انہیں ’مہذب‘ بنانے کی) پالیسی کے تحت ابریجرن خاندانوں کے چھوٹے بچوں کو ان کے ماں باپ سے چھین لیا جاتا تھا۔ 1970 میں اس پالیسی کے خاتمے تک لاکھوں بچوں کو ان کے ماں باپ سے الگ کیا جا چکا تھا۔ ان بچوں کو بعد ازاں ’چوری شدہ نسلیں‘ بھی کہا گیا۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ ہاوس کی گیلریوں میں موجود اپنے آنسو پونچھتے سینکڑوں ابریجنال بچوں کے خاندانوں کے سامنے اپنے خطاب میں کہا:

’ہم خاص طور پر ابریجنال اور ٹورس سٹریٹ جزیروں کے باسی بچوں سے معافی مانگتے ہیں جنھیں ان کے خاندانوں، ان کی برادریوں اور ان کے ملک سے جدا کیا گیا۔ ہم ان تمام اذیتوں، دکھوں اور تکلیفوں کے لئے جو ان کو برداشت کرنی پڑیں ان چوری شدہ نسلوں سے، ان کے بچوں سے اور ان کے پیچھے رہ جانے والے خاندانوں سے معافی مانگتے ہیں۔ ہم ان کی ماؤں سے اور ان کے باپوں سے، ان کے بھائیوں سے اور ان کی بہنوں سے ان کے خاندانوں اور برادریوں کو توڑنے کی معافی مانگتے ہیں۔ ہم اس تحقیر اور ذلت کے لئے ان سب سے معافی مانگتے ہیں جو اس خوددار قوم اور اس خوددار ثقافت پر مسلط کی گئی‘۔ ان کی چار منٹ کی معافی اور بیس منٹ کی تقریر کو پالیمنٹ کے اندر اور باہر جمع ہونے والے سینکڑوں لوگوں نے کھڑے ہو کر بہتے آنسووں کے ساتھ سنا۔

سوال یہ ہے کہ آخر کیوں انہیں اس محروم اور کمزور قوم سے اس طرح معافی مانگنے کی ضرورت پیش آئی؟ وہاں تو کوئی پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنا دے کر بھی نہیں بیٹھا تھا۔ وہاں تو راستے روک کر عوام کی زندگی بھی اجیرن نہیں کی گئی تھی۔ وہاں تو ملازمین کا دفتروں کو جانا، مزدوروں کا مزدوری پر جانا، بچوں کا سکول جانا، مریضوں کا ہسپتال جانا بھی کوئی ایسا مشکل نہیں ہوا تھا؟ وہاں تو کسی وزیر کو پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے لٹکانے کے مطالبات بھی سامنے نہیں آئے تھے۔ پھر ایسی کیا شرمندگی، ایسا کیا احساس گناہ؟ ہمارے ہاں تو افراد اپنی کوتاہیوں اور گناہوں پر ایسے احساسات کا شکار نہیں ہوتے، کجا کہ کسی قوم سے ایسی توقع کی جائے؟

اتفاق کی بات ہے کہ 2008 فروری میں اس واقعہ کے چند ماہ بعد جولائی میں مجھے سویٹزرلینڈ میں انسانی سلامتی پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس میں آسٹریلیا کے ابریجنل لوگوں کا ایک گروپ بھی شریک تھا۔ کانفرنس کے دوران ایک خصوصی اجلاس میں آسٹریلوی حکومت کے ایک اعلی عہدےدار نے ابریجنل لوگوں کے گروپ کی موجودگی میں تمام شرکا کے سامنے ایک بار پھر اس معافی نامے کو پڑھا۔ میرے ساتھ دونوں طرف کی نشستوں پر دو ابریجنل افراد بیٹھے تھے اور میں واضح طور پر ان کی ہچکیاں سن سکتا تھا۔ پلکیں تو میری بھی بھیگ چکی تھیں اور جب میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے ان کے چہروں پر شدت جذبات سے زلزلے کے آثار نظر آئے۔

صدیوں کے زخم بھرنا آسان نہیں۔ روح کے گھاؤ مندمل نہیں ہوتے۔ نسلوں کی خطائیں معاف نہیں کی جا سکتیں۔ ہمارے ہاں تو ظلم سلسلہ در سلسلہ چلتا ہے، بدلے اور انتقام کی روایت نسل در نسل جاری رہتی ہے۔ لیکن معافی، مجھے لگا کہ معافی ایک ایسا جادوئی لفظ ہے، بشرط یہ کہ اس میں خلوص کی خوشبو ہو اور اسے عمل کے پیمانے پر تولا جا سکتا ہو، جو ظلم کے تسلسل کو روک سکتا ہے، انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کر سکتا ہے، درد کی شدت کو کم کرسکتا ہے۔ مجھے لگا کہ یہ آنسو، یہ ہچکیاں، یہ زلزلہ اس بات کی علامت ہیں کہ صدیوں کے زخم مندمل ہونے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔

سچ یہ ہے کہ معافی مانگنے کے لئے حوصلہ چاہیے اور معاف کردینے کے لیے اس سے بھی بڑا جگرا۔ یہ محض الفاظ نہیں ہیں جن میں جادو ہے، بلکہ یہ ایک ہمہ گیر عمل کا آغاز ہے۔ معافی مانگنے کے ساتھ وہ سارے اقدامات لازم آتے ہیں جن میں سنجیدگی سے ممکنہ ازالے کی کوشش کی گئی ہو۔ اس موضوع پر ابھی بہت بات کی جا سکتی ہے، یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اب نو برس بعد آسٹریلیا میں ابریجنلز کے حالات کس حد تک بہتر ہوئے ہیں۔ آٹھ سال پہلے جن کی اوسط عمر باقی شہریوں سے 17 سال کم تھی، جن میں بے روزگاری تین گناہ زیادہ تھی اور جن کے ہاں جرائم اور نشے کے استعمال کی شرح دوسروں سے کہیں زیادہ تھی، اور ان تمام اعشاریوں کو بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا شاخسانہ کہا جا سکتا ہے۔ کیا ان کے لیے ترقی کے اعشاریے بدلے ہیں؟

اور پھر آسٹریلیا واحد ملک نہیں جس نے اس طرح کھلے عام اعتراف جرم کیا ہو اور اپنے ان جرائم پر مظلوموں سے معافی طلب کی ہو۔ دنیا میں اس کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مغربی جرمنی کے چانسلر برانٹ نیلٹ نے وارسا کے مقام پر 1970 میں یہودیوں کے خلاف انسانیت سوز ہولوکاسٹ پر معافی طلب کی۔ پھر 1985 میں مغربی جرمنی کے ہی صدر ویزاسکر نے دوسری جنگ عظیم کے 40 برس مکمل ہونے پر اپنی تقریر میں دوسری جنگ عظیم اور اس کے تمام تر نتائج بشمول جرمنی کی تقسیم کی ذمہ داری خود اپنے ملک جرمنی پر عائد کی۔ 1990 میں مشرقی جرمنی کی پارلیمنٹ نے نازی دور کے جرائم پر باقاعدہ سرکاری سطح پر معافی مانگی اور مظلوموں کی تشفی کے لئے معاوضے کی پیشکش کی اور اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ جبکہ 40 سال تک مشرقی جرمنی اپنے جرم کی اس وراثت کا انکار کرتا رہا۔

اسی طرح امریکی حکومت نے دو بار ان جاپانی امریکیوں سے معافی مانگی جنہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ سے بے دخل یا گرفتار کیا گیا تھا، ایک بار صدر ریگن کے دور میں جب اس کی بنیاد پر سول رائٹس ایکٹ 1988 بنایا گیا اور دوسری بار صدر بش کے دور میں جب اسی ایکٹ میں ترمیم کر کے متاثرین کے معاوضے میں اضافہ کیا گیا۔ صدر بش کے الفاظ خاص طور پر قابل توجہ ہیں: ’یہ یاد کرتے ہوئے یہ اہم ہے کہ ماضی کے ساتھ کیسے گزارا کیا جائے۔ کوئی قوم اس وقت تک نہ تو اپنے آپ کو پوری طرح سمجھ سکتی ہے اور نہ اس دنیا میں اپنی جگہ پا سکتی ہے جب تک وہ اپنے ماضی کے کارناموں اور ماضی میں اپنے جرائم (شرمندگیوں) کو کھلی اور صاف آنکھوں سے نہیں دیکھتی۔ ہم ریاست ہائے امریکہ میں اپنی تاریخ میں اپنی ایسی نا انصافیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ جاپانی نژاد امریکیوں کی گرفتاری ایک بہت بڑی نا انصافی تھی جو ہم اب کبھی بھی نہیں دہرائیں گے‘۔

سوال یہ ہے کہ اگر پوری مسلم دنیا پر نظر دوڑائیں تو کیا اپنے ماضی پر تنقیدی اور معروضی نظر ڈالنے، اپنی غلطیوں کا اور اپنے جرائم کا اعتراف کرنے اور مظلوموں سے معافی مانگ کر ان کے ساتھکیے گئے ظلم کا کسی حد تک ازالہ کرنے کی کوئی کوشش نظر آتی ہے یا ہم وہ قوم ہیں جنہیں اللہ نے اتنا مکمل بنایا ہے کہ ان سے کبھی کوئی غلطی، کوئی جرم سرزد نہیں ہو سکتا؟ ایسے ہی معصومانہ سا خیال آتا ہے کہ مثال کے طور پر کیا کبھی سعودیہ یمن سے، عراق کویت سے، ایران عراق ایک دوسرے سے، پاکستان بنگلہ دیش سے، انڈیا، افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے سے، بہت سے ممالک اپنی اپنی مذہبی اور قومی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر اور وغیرہ وغیرہ، کیا کیا گنا جائے، کبھی اپنی غلطیوں کی، اپنے جرائم کی معافی مانگنا تو کجا، اعتراف بھی کریں گے؟ پاکستان کی اب تک کی 70 سالہ زندگی پر ہی نظر دوڑا لیں، سوچیں کہ کیا ہماری تاریخ میں ایسے مرحلے تو نہیں جہاں ہمیں کچھ ازالوں کی ضرورت ہو؟ وقت تو نہیں ٹھہرے گا، آپ ہی ٹھہر کر سوچ لیجیے۔ کہیں ایسی معافیوں نے ہمارا راستہ نہ روک رکھا ہو، جو ہم نہیں مانگ سکے یا ہم نہیں دے سکے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).