قصہ گنجے دت اور طرحدار حسینہ کا
بات چھوٹی سی تھی!
ہزاروں سال سے لونڈے لپّاڑے سڑکوں اور گلیوں میں کرکٹ کھیلتے آئے ہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ اور اگر ا ن میں میرے جیسے بھی شامل بلکہ روح رواں ہوں، جو، ریل کے کسی سٹیشن پر دس منٹ سے زیادہ رکنے کی صورت میں، پلیٹ فارم پر ہی کرکٹ کھیلنا شروع کردیں، تو بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔ سڑک نئی نئی بنی تھی اور لاڑے کی تازہ شیو کی طرح چکنی تھی۔ اس پر ٹینس بال کو پانی میں بھگو کے کرکٹ کھیلنے کا جو لطف آتا تھا، ایسا لطف، دنیا میں بس ایک دو کاموں میں ہی ہے۔ ڈالڈ ا کے ڈھائی کلو کے خالی ڈبّے کو پانی سے بھر کے رن اپ کے اختتام پر رکھ دیا جاتا تھا اور ہر گیند سے پہلے اسے (گیند کو، بالر کو نہیں) پانی میں بھگونا لازم تھا ورنہ نوبال تصورکی جاتی تھی۔ یہ وقوعہ روزانہ مشنری جذبے سے وقوع پذیر ہوا کر تا تھا۔ فجر کے بعد جیسے ہی تھوڑی سی روشنی پھیلتی تو یہ ہڑبونگ شروع ہوجایا کرتی اور اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک اپنے اپنے ابّوں اور امّیوں کی طرف سے دھمکی آمیز اعلانات نہیں پہنچتے تھے کہ بس کردو کمینو۔ کالج، تمہارا باپ جائے گا؟
وہ دن، انہی دنوں میں سے ایک دن تھا۔ ہماری سڑکی کرکٹ عروج پر تھی اور ایک دوسرے کی پسلیوں میں شارٹ پچ گیند یں مارنے کی کوششیں جہادی سپرٹ سے جاری تھیں اور اگرکسی کو لگ جاتی تو اسے ”نرس“ کا خطاب دیا جاتا تھا۔ ان شارٹ پچ گیندوں پر لگائے ہوئے پُل شاٹ جب بند دکانوں کے شٹر سے ٹکراتے تھے تو ایک دھماکے کی آواز آتی تھی۔ جس سے سوتر منڈی کے شیخ صاحبان، جو رات کو ایک کلو چھوٹا گوشت کھا کے اور دو کلو آم ”چوُپ“ کے دیگر ”امور ضروری ” نمٹا کر خواب غفلت میں مدہوش ہوتے تھے، ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے تھے۔
اسی غدر کے دوران گلی میں سے بِلّا اپنے سائیکل کے کیرئیر پر ٹفن اٹکائے، لشٹم پشٹم سائیکل چلاتا ہوا نکلا اور عین ہماری پچ کے درمیان سائیکل کھڑا کرکےمسمسی سی صورت بنا کے بولا۔ ”پائی جان! اک بال ای کھلا دیو“۔ سب نے باجماعت قہر بھری نظرو ں سے اسے دیکھا اور دو تین چوندے چوندے اسمائے صفت سے اس کی تواضع کی۔ لیکن بِلّا بھی اپنی نسل کا واحد پیس تھا (اور ہے)۔ اس نے ایک ”بال“ کھیلے بغیر جانے سے انکار کردیا اور لگاتار ترلے کرتا رہا، اک بال بس، اک بال۔ میں نے زبیر کی طرف بال اچھالی اور کہا، ”مارے ایدھے ۔ ۔ ۔ تے“۔ بِلّے کو کرکٹ کا اتنا ہی علم تھا جتنی ہمیں گالف میں مہارت ہے لہذا زبیر کی کرائی ہوئی گیند پر اندھا دھند بَلاّ گھماتے ہوئے بلِّے نے جب دیکھا کہ گیند تو پتہ نہیں بلّے کے کس حصے سے لگ کر سامنے والے دو منزلہ مکان کی چھت پر چلی گئی ہے تو وہ پلاکی مار کر سائیکل پر سوار ہوا اور ہماری مُغلضّات کی چھتر چھایا میں کمینی ہنسی ہنستا ہوا یہ جا ، وہ جا۔
گلیوں اور سڑکوں پر کرکٹ کھیلنے والے احباب بخوبی جانتے ہوں گے کہ کسی کے گھر گئی گیند واپس لانا شیر کی کچھار میں گھسنے کے برابر ہوتا ہے۔ بہرحال دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک درمیانی عمر کے چاچا جی برآمد ہوئے اور عین اسی وقت مکان کی چھت سے گیند کسی نے نیچے پھینکی۔ میری اور چاچے ہوراں کی نظر ایک ساتھ اوپر گئی تو میرا سانس اوپر سے نیچے اور چاچا جی کا پارہ نیچے سے اوپر پہنچ گیا۔ ایک طرحدار حسینہ جو ”صبح کا وقت پڑھنے کے لیے سب سے اچھا ہوتا ہے“ کے قول زرّیں پر یقین واثق کی حامل تھی ایک ہاتھ میں کتاب تھامے ریلنگ سے نیچے جھانکتی نظر آئی۔
یہ وہ لمحہ تھا جہاں سے ایک عظیم جنگِ گنجے دت شروع ہوئی۔
ایسا نہیں تھا کہ ہم ان چاچاجی کو یا وہ ہم کو نہ جانتے ہوں۔ اپنی زندگی میں، ہم نے جو پہلا مکمل گنجا دیکھا، وہ یہی تھے۔ درمیانہ قد، ہلکی سی توند، سرخ و سفید رنگ، پھولا ہوا منہ، کلین شیو اور شدید گنجے! استاد پونکا جو ان کے بچپن کے دوست تھے کہا کرتےتھے کہ ”اے بچپن توں ای گنجا اے“۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ہمارا زندگی میں ان سے واسطہ پڑنے کا یہ پہلا موقع تھا اور اسی موقع پر جو غلط فہمی پیدا ہوئی، واللہ، وہ آج تک قائم ہے۔ گنجے چاچا جی، جنہیں اب ہم ”گنجے دت“ کے نام سے پکاریں گے، یہ سمجھے کہ ان لفنگوں نے ان کی پری صورت بھانجی، جو امتحانات کی تیاری کے لیے آئی ہوئی تھی (جس کا پتہ ہمیں بعد میں بزبان حسینہ ہی چلا تھا)، کو چھیڑنے کے لیے گیند اوپر پھینکی تھی۔ اور بادی النظر میں یہ اپنی اس چھیڑ چھاڑ میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے خونخوار نظروں سے ہم سب کو باجماعت تقریبا دو منٹ تک گھورا اور پھر دروازہ دھڑام سے بند کرکے اندر غائب ہوگئے۔ آپ شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ ہم کچھ زیادہ ہی مبالغہ کررہے ہیں لیکن آپ غلط سمجھ رہے ہیں، یہ تو ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ گنجے دت کسی کو لگاتار آدھے گھنٹے تک بھی گھور سکتے ہیں۔
شومئی قسمت سے اس حسینہ کو بھی پڑھائی سے کچھ ایسی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ لہذا اب وہ ہر روز صبح ریلنگ کے چکر زیادہ لگاتی اور ”مارننگ واک“ کا مضمون کم یاد کرتی تھی۔ خودستائی نہ سمجھی جائے تو بندہ عرض گزار ہے کہ اس کو صنف مخالف کی دلچسپی ہمیشہ سے حاصل رہی ہے۔ اس کا پتہ البتہ بندے کو کافی تاخیر سے لگا جس کی وجہ سے کافی سارے کھیت، چڑیاں، ہمارے پچھتانے سے پہلے ہی چُگ چکی تھیں۔ ویسے بھی وہ دور، ذرائع رسل ورسائل کے حوالے سے کافی پسماندہ تھا، ”خط“ پہنچانے کے لیے محلے کا کوئی بچہ یا پتھر ہی کام آتا تھا اور دونوں ہی ذریعے مخدوش حد تک خطرناک تھے۔ اگر اسوقت سیل فونز، ایس ایم ایس، برقی ڈاک اور برقی گفتگو عام ہوتی تو یقینا آج ہمارا پندرھواں، سولہواں عُرس ضرور منایا جا رہا ہوتا۔ اور ہمارے مزار پر فاسقان بے صفا، چڑھاوے کے طور پر مجاوران مزار کو ایزی لوڈ کرارہے ہوتے۔
اس وقوعے کے بعد میرا اور میرے پارٹنر ان کرائم یعنی لنگوٹیے کا جب بھی گنجے دت سے سامنا ہوتا تو وہ ہمیں ان نظروں سے گھورتے تھے جیسے اداکار افضال پنجابی فلموں میں ہیرو کی بہن کو گھورا کرتے تھے۔ تحقیق، ہمیں ڈر بھی لگتا تھا۔ شرم بھی آتی تھی۔ اب آپ سے کیا پردہ!
تو اب یہ روزانہ کا معمول ہوچکا تھا کہ جب بھی وہ شام کو خراماں خراماں، ایک ہاتھ میں کمنڈل لٹکائے، سڑک پار کرکے ہماری گلی میں داخل ہوتے تو ہمیں کسی تھڑے پر بیٹھے دیکھ کر ان کا موڈ ”ہمنگ“ سے ”ہلک“ والا ہوجاتا۔ ان کی آنکھیں شعلے اگلنی لگتیں اور وہ سامنے دیکھ کر چلنے کی بجائے ہمیں گھورتے گھورتے ہمارے پاس سے گزر جاتے۔ چند دن تو ہمارے سانس ”وغیرہ“ خشک ہوتے رہے۔ لیکن جب ہم نے دیکھا کہ یہ کہتے تو کچھ ہیں نہیں اور صرف گھورتے ہیں تو ہمیں اس کی فنی سائیڈ نظر آنے لگی۔ منظر کچھ ایسا ہوتا کہ جیسے ہی وہ ہمیں گھورتے ہوئے گلی میں داخل ہوتے ان کی ہونہار بھانجی چھت پر ”بنیرے ”سے لٹکی ہوئیں ہمیں ”گھورنے“ میں مصروف ہوتیں۔ اس دوہری ”گھوراہٹ“ سے ہم اکثر ”“ گرم سرد“ ہوتے ہوتے بال بال بچے۔
ہمارے لنگوٹیے کے چھوٹے بھائی الموسوم بہ کورٹنی والش، پیدائشی سڑیل واقع ہوئے تھے۔ کورٹنی والش کی عرفیت ان کو رنگ یا شکل کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے بالنگ ایکشن کی وجہ سے دی گئی تھی کیونکہ وہ بھی ”وٹّا“ مارتے تھے اور والش ہی کی طرح نہایت موثّر بالر تھے۔ بہرحال ایک دن وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھے تھے جب ہمارا ”گُھوری“ ٹائم شروع ہوا۔ پہلے تو وہ چپ کرکے دیکھتے رہے، جب گنجے دت گھورتے گھورتے ہمارے پاس سے گزر گئے تو وہ بولے کہ ”ایہہ گنجے نوں کیہ تکلیف اے، ایویں کُوریاں پائی جاندا“۔ یہ تبصرہ گنجے دت کو چابک کی طرح لگا لیکن آفرین ہے کہ پھر بھی انہوں نے رک کر مڑنے اور گھورنے کے علاوہ کوئی اور راست اقدام نہیں کیا۔ یہ ”گُھوری“ تقریبا پانچ منٹ تک جاری رہی اور جب ہم اپنی ہنسی کو کنٹرول کرنے میں بالکل ناکام ہوگئے تو تھڑے سے اٹھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ کچھ گواہان نے ہمیں بعد میں حلفیہ بتایا کہ وہ اس کے بعد بھی دس منٹ کورٹنی والش کو گھورتے رہے اور جواباً وہ انہیں گھورتا رہا!
ستم ظریفی یہ ہوئی کہ گنجے دت اور ان کی بھانجی، دونوں کی توجہ ہماری طرف، بالعکس یا راست جوبھی ہو، متناسب تھی۔ دونوں توجہات، ایک ہی مقدار لیکن مخالف سمت میں دن بدن بڑھتی ہی چلی گئیں۔ بِلاّ، البتہ آج تک یہی کہتا ہے کہ ”پائین، او میری ول بڑے پیار نال ویخدی ہُندی سی“۔ لیکن بِلّے کے بقول تو جب وہ فلم دیکھنے جاتا تھا تو ہیرؤین بھی اس کی طرف نہایت الفت بھری نظروں سے دیکھا کرتی تھی۔ بہرحال، دن میں تین چار دفعہ جب تک ہمارا گنجے دت سے آمنا سامنا نہیں ہوتا تھا تو ہمیں زندگی پھیکی محسوس ہونے لگتی تھی۔ شام کے وقت ایک ٹھیلے پر دال سیویاں بیچنے والا آیا کرتا تھا۔ ایک دن ہم اس کے پاس کھڑے مفت بَری کررہے تھے کہ گنجے دت ہمارے پاس سے ”گھورتا چلا گیا“۔ ہم نے ٹھیلے والے سے کہا، ”چاچا، توں تے گنجا ای ہوئی جانا، دن بدن“۔
گنجے دت، رُکے، پلٹے اور خلاف معمول صرف گھورنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ ہماری طرف ڈرامائی انداز میں آہستہ آہستہ بڑھنے لگے۔ سچی بات تو یہ کہ ہم نے کلمہ پڑھ لیا کہ، بیٹے جان، آج کچّا کھاجانا تجھے اس گنجے زیبرے نے۔ عین ایک فٹ کے فاصلے پر ہمارے ناک سے ناک ملائے، انہوں نے انتہائی طیش کے عالم میں اپنی مصطفی قریشی جیسی آواز سے ہمیں مخاطب کیا، ” بندے دے پُتّر بن جاؤ۔ اے میری پہلی وارننگ اے۔ ایس توں بعد میں دو وارننگاں ہور دیاں گے۔ فیر میں تہانوں آپے ویخ لاں گا“۔ ٹھیلے والا چاچا، اس کے گاہک جن میں اکثریت گلی کے بچوں کی تھی، ہمارا یار غار، سب خاموش کھڑے اس منظر کی ہیبت ناکی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ یہ مکالمے بول کر وہ دوبارہ مُڑےاور کمنڈل چھنکاتے اپنی دُلکی چال چلتے ہوئے منظر سے فیڈ آؤٹ ہوگئے۔ دس پندرہ سیکنڈ کے ایک گمبھیر وقفے کے بعد ایسا لگا کہ جیسے کوئی جلوس نکل آیاہو۔ ہنس ہنس کے ہمارے پیٹ میں بَل اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس دن کے بعد ہمارا رہا سہا ”جھاکا“ بھی کُھل گیا۔ گلی کے بچوں سے لے کر ہمارے انواع و اقسام کے کزنز جو پورے فیصل آباد میں ٹڈّی دل کی طرح پھیلے ہوئے تھے، سب کو خبر ہوگئی اور کردی گئی۔ اس کے بعد وہ گنجے دت کو جہاں بھی دیکھتے، گنجا ای اوئے، کی آواز لگانا ان پرفرض عین تھا۔ چاہے وہ نڑ والے چوک میں ٹریفک کا رش ہو یا کمپنی باغ والی ٹھنڈی سڑک، سبزی منڈی ہو یا سوتر منڈی، گنجے دت کا کوئی نہ کوئی پرستار کہیں نہ کہیں ان کو مل ہی جاتا اور اپنے فرض سے کوتاہی کا کبھی مرتکب نہ ہوتا۔ حسینہ طرحدار کے انگلش بی کے پرچے اور اس سلسلے میں دیے جانے والے ”گَیس“ کا قصہ جو ہمیں باوثوق ذرائع سے موصول ہوا تھا اور اس کے علاوہ بھی درجنوں گنجے دتوی واقعات کو اکٹھا کیا جائے تو ایک ”تُزک گنجے دت“ بآسانی لکھی جاسکتی ہے۔ لیکن ہم ”تھوڑے“ کہے کو بہت جانتے ہوئے، اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
آخر چند دنوں تک ہم نے اُسی کُوچے میں ایک مہینہ گزارنے جانا ہے!
- دوسرا پیگ - 06/06/2024
- جہانگیر ترین کی روحانی عظمتیں - 08/06/2023
- کسی کو نہیں چھوڑوں گا - 20/03/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).