آپ کیا سننا پسند کریں گے؟ مدھر سُر یا مغلظات


25 نومبرکی صبح ناشتہ کرنے کے بعد حسبِ عادت چائے کا کپ تھامے میں نے ٹی وی آن کیا۔ صبح سویرے خبریں سننا ایک عادت سی بن گئی ہے۔ ایک نیوز چینل پر خبر چل رہی تھی کہ اسلام آباد میں گزشتہ کئی دنوں سے جاری دھرنے کے خلاف پولیس نے ایکشن لے لیا ہے۔ چینل تبدیل کرتی گئی۔ ہر چینل پر یہی خبر مختلف انداز سے چل رہی تھی۔ اچانک موبائل پر کال آئی۔ دوسری طرف ایک فیملی فرینڈ تھی۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعد اس نے کہا۔ رات کو ایک جگہ جانا ہے ہر صورت، اس لئے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

میں نے اُسے بتایا کہ ابھی ابھی خبروں میں سنا ہے کہ اسلام آباد میں دھرنے والوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا ہے اور حالات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ فرینڈ نے اِسے بس میرا خدشہ سمجھا اور کہاآج آل پاکستان موسیقی کانفرنس کا آخری دن ہے اس لئے حالات چاہے کچھ بھی ہوں، میں وہاں پہنچ جاوں۔ کال بند کرنے کے بعد میں سوچ میں پڑ گئی کہ آج آخری دن ہی فرینڈ نے کیوں بتایا ہے، ہم پہلے کیوں نہیں جا سکے۔ بہرحال چائے ختم کی اور ساتھ ہی دیکھا کہ ٹی چینلز بند کر دئیے گئے ہیں۔

کلاسیکل موسیقی سے میرا تھوڑا بہت لگاؤ تو تھا ہی لیکن یہ دلچسپی اُس وقت بڑھی جب مجھے آج سے دوسال پہلے ریڈیو پاکستان جانے کا اتفاق ہوا۔ ریڈیو پاکستان لاہورمیں ایک پروگرام سر بہار کے نام سے ریکارڈ کیا گیا۔ یہ پروگرام چودہ راگوں پر مشتمل تھا۔ میں نے متعلقہ پروڈیوسر سے رابطہ کر کے اِس پروگرام کی ریکارڈنگ لی، اُس کو سنا اور سمجھا۔ اِس کے بعد مجھے پتہ چلا کہ لاہور میں ہر سال آل پاکستان موسیقی کانفرنس منعقد ہوتی ہے جس میں ملک کے تقریباَ تمام بڑے گائیک اور موسیقار پرفارم کرتے ہیں۔ چونکہ میری یہ فیملی فرینڈ جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے موسیقی اور آرٹ کی دلدادہ ہے۔ اِس لئے یہ ذمہ داری اُس کی تھی کہ جب بھی لاہور میں یہ کانفرنس منعقد ہو گی، وہ مجھے اطلاع دے گی۔

پاکستان میں موسیقی کے علم اور فروغ سے مایوس ہو کر استاد بڑے غلام علی خاں بھارت چلے گئے تھے۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد روشن آراء بیگم نے بھی کلاسیکل موسیقی چھوڑنے کی دھمکی دے دی۔ کلاسیکل موسیقی کے دلدادہ لوگوں کے لئے یہ ایک جان لیوا خبر تھی۔ لہذا چند لوگوں پہ مشتمل ایک گروپ نے، جس میں حیات احمد خاں نمایاں تھے، موسیقی کے فروغ کے لئے کام شروع کر دیا۔۔ حیات احمد خاں لاہور اندرونِ شہر کے ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور کلاسیکل موسیقی کے جانکار بھی تھے۔ اُنہی کی کاوشوں سے 19 فروری سے23 فروری 1960میں پہلی بار موسیقی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

شام ہوئی تو کانفرنس میں جانے کی تیاری شروع کر دی۔ لیکن ساتھ ہی مختلف ذرائع سے معلوم ہوتا رہا کہ دھرنا آپریشن کی وجہ سے شہر کے حالات خراب ہو چکے ہیں اور اس وقت باہر نکلنا کسی خطرے سے کم نہیں۔ تقریباَ شام سات بجے کے قریب دوست کی کال آ ئی کہ وہ کانفرنس میں پہنچ چکی ہے اور میرا انتظار کر رہی ہے۔ چونکہ ُاس کا گھر نزدیک تھا اس لئے اُسے وہاں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ مسئلہ مجھے تھا۔ میں نے کریم کی گاڑی کی لئے ریکوسٹ کی تو ساتھ ہی کیپٹن کی کال آگئی کہ وہ پانچ منٹ میں مجھے پک کرنے پہنچ رہا ہے میں نے اُس سے شہر کے حالات کے بارے میں پوچھا تو اُس نے تسلی دی کہ اب سے کچھ دیر پہلے تک رستے بلاک تھے لیکن اب ٹریفک رواں دواں ہے اِس لئے پریشانی کی ضرورت نہیں۔

جب میں باغِ جناح اوپن ائیر تھیٹر کی سیڑھیاں چڑھ کر ارینا (پنڈال) میں داخل ہونے کے لئے آگے بڑھی تو منتظمین میں سے ایک نوجوان نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے رُک جانے کا کہا۔۔ ”محترمہ جب یہ پرفارمنس ختم ہو آپ تب اندر داخل ہوں تا کہ دوسروں کی توجہ میں خلل نہ پڑے“۔ یہ طریقہ کار مجھے اچھا لگا۔ میں وہیں رک کے کلارنٹ پر بجائے جانے والے راگ سے محظوظ ہوتی رہی۔ یہ پرفارمنس ختم ہوئی تو میری دوست مجھے بٹھانے کے لئے ساتھ لے گئی۔ جہاں اس کی فیملی کے کچھ اور لوگ بھی موجود تھے۔ میں نے بیٹھ کر چاروں طرف نظر گھمائی۔ بیٹھنے کے لئے چوڑی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جن پہ قالین بچھے تھے۔ تقریباَ ہر عمر کی خواتین اور مرد وہاں موجود تھے، کچھ لوگ ٹھنڈ سے بچنے کے لئے اپنے ساتھ گرم چادریں اور گدیاں(کشن) بھی لائے تھے۔ کچھ لوگ چائے اور انڈوں سے لطف اندوز ہورہے تھے جبکہ کچھ مونگ پھلی کھا رہے تھے۔ مختلف برانڈز کے سگرٹوں کے دھوئیں کے مرغولے اِدھر ادھر سے اٹھ رہے تھے۔ اسی دھوئیں کی ہلکی تہہ کے پیچھے سٹیج پر استاد مبارک علی خاں پرفارمنس کے لئے آ چکے تھے جن کے ساتھ طبلے پہ شاہد حسین موجود تھے۔ استاد مبارک علی خاں نے بڑے غلام علی خاں کی مشہورِ زمانہ ٹھمری ”یاد پیا کی آ ئے“ بڑے دل موہ لینے والے انداز میں گائی، شاہد حسین نے جابجا اپنے طبلے کے فن کے کمالات بھی خوب دکھائے جسے مجھ سمیت تمام حاضرین نے بڑی دلچسپی سے سنا اور دل کھول کر داد بھی دی۔ جب طبلے کے اوپر شاہد حسین کی انگلیاں ایک ردھم میں تھرتھرا رہی تھیں تو میرا ذہن آج سے کئی سال پہلے استاد شوکت حسین کی طرف چلا گیا کہ وہ بھی کبھی اسی کانفرنس میں طبلہ بجاتے ہوں گے۔ استاد چھوٹے غلام علی خاں، امید علی خاں، غلام حسن شگن، روشن آرا بیگم، استاد نزاکت علی، سلامت علی، شریف خاں پونچھ والے، برکت علی خاں، امانت علی خاں، سائیں اختر حسین، صادق علی مانڈو اور طفیل نیازی جیسے نامور فنکاروں نے بھی اسی اسٹیج پر کبھی پرفارم کیا ہو گا اور یہ وہی آل پاکستان موسیقی کانفرنس ہے جس میں رسولن بائی بنارس والی اور منیراخاتون الہ باد والی نے بھی ٹپا اور راگ گایا۔ 1961 میں اسی پلیٹ فارم پر مہدی حسن خاں نے اپنی پہلی پرفارمنس دیتے ہوئے فیض کی غزل ”گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے“ گائی اور میلہ لوٹ لیا۔

اب استاد حامد علی خاں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ سٹیج پر موجود تھے۔ استاد حامد علی خاں نے راگ شبھ کونس انتہائی خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ پیش کیا، خوشی کی بات یہ ہے کہ پٹیالہ گھرانے کے نوجوان (استاد حامد علی خاں کے بیٹے) نے بھی اپنے فن کا خوب مظاہرہ کیااور داد سمیٹی۔ خیال گائیکی میں استاد بڑے غلام علی خاں کے بعد پٹیالہ گھرانہ نمایاں مقام رکھتا ہے۔ راگ کے علاوہ حامد علی خاں نے اپنی مشہور ٹھمری ُ”لاگی رے تو سے لاگی نجر“ بھی گائی۔ آخری پرفارمنس شام چوراسی گھرانے کے مایہ ناز گائیک شفقت سلامت علی خاں کی تھی۔ انہوں نے اپنے والد سلامت علی خاں کا پسندیدہ راگ ابھوگی کانڑہ گایا۔ یہ گھرانہ اپنی دُھرپدکی وجہ سے مشہور تھا لیکن استاد سلامت علی خاں اور اُن کے بعد کے گویوں نے خیال گائیکی میں بھی اپنا ایک منفرد مقام بنایا ہے۔ شفقت سلامت علی خاں نے اس دوران ایک بات کہی ” کہ ہم سب کو مل جل کر موسیقی کی خدمت کرنی ہوگی“۔ مجھے یہ بات سن کر ایسا لگا کہ اب” گھرانہ گائیکی“ سے وابستہ گائیکوں نے دیگر(عطائی) گائیکوں کے فن کو بھی تسلیم کر لیا ہے اوریہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ کیونکہ کسی زمانے میں فن ِ موسیقی سے وابستہ یہ گھرانے اپنے خیال، اپنی بندشیں، اپنے انترے، اپنی استھائیاں بھی چھپا کر رکھتے تھے اور فن کی تلاش کرنے والوں کو دھتکار دیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے کلاسیکی موسیقی کا یہ عظیم فن شاید پوری طرح سے نہیں پنپ سکا۔ اس سال موسیقی کانفرنس میں رستم فتح علی خاں، حسین بخش گلو، استاد مبارک علی خاں، نصیرالدین شامی، استاد فتح علی خاں، چاند خاں ، سورج خاں، سائیں ظہور اور نیازی برادران نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آل پاکستان موسیقی کانفرنس پچھلے اٹھاون برس سے موسیقی کے فروغ کے لئے اہم کردار ادا کر رہی ہے لیکن مجھے وہاں بیٹھے شدت سے یہ احساس ہوتا رہا کہ زوال کا عمل بہت تیز ہو چکا ہے جسے روکنے کے لئے سرکار سے لے کر عوامی سطح تک بہت کچھ کرنے کے ضرورت ہے اور اگر ہم نے فنونِ لطیفہ اورخاص کر موسیقی کے فروغ کے لئے اقدامات نہ کئے تو ہمارے کانوں کو مدھر اور کومل سروں کی بجائے گالیاں اور مغلظات ہی سننے کو ملیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).