وقت بدلا ہے اساتذہ کے حالات نہں


تنخواہوں کی عدم ادائیگی پرسندھ اسمبلی کے باہر اساتذہ نے احتجاج کیا، اساتذہ کی بھرتیاں سابق صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دورکی گئی تھیں، تاہم اُن کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جارہی تھی۔

صوبائی وزیر تعلیم جام مہتاب کا کہنا ہے کہ ’ان تمام افراد کی بھرتیاں غیر قانونی طور پر کی گئیں ہیں کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے اساتذہ جعلی ہیں، 2012 میں تھوک کے حساب سے اساتذہ بھرتی کیے گئے، آسامیاں موجود نہیں تھیں پیسے لے کر بھرتیاں کی گئیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں صوبے میں تئیس ہزار جعلی بھرتیاں ہوئیں، تمام اساتذہ کو ٹیسٹ کے مرحلے سے گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کل یہ خبر پڑھی تو سوچا کچھ اپنا تجربہ سب کے ساتھ شیئر کیا جائے اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا جائے۔ 28 اکتوبر کو میرا جانا ایک گورنمنٹ اسکول میں ہوا، یہ اسکول صدر کے ایک علاقے میں واقع ہے یہاں میری ایک ساتھی اسکول میں ہیڈ ماسٹرنی کے ٖفرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ بچپن میں گورنمنٹ اسکول میں پڑھا تھا، سوچا وہی ماحول اب بھی ہوگا۔ ایک بڑی سی عمارت ہوگی ہر کلاس میں 30 یا 35 بچے تیز آواز میں پڑھ رہے ہوں گے۔ ایک بڑا کشادہ میدان ہوگا۔

مگر جب وہاں پہنچی تو منظر بالکل ہی مختلف تھا ایک خستہ حال عمارت تھی، ایک جماعت میں 6 یا زیادہ سے زیادہ 10 طالب علم تھے، عمر رسیدہ خواتین معلمات کے فرائض انجام دے رہی تھیں، فرائض کی انجام دہی کے نام پر اپنی ملازمت کے اوقات پورے کر رہی تھیں، یہ کہنا فی الحال محال ہے۔ وہاں کے اس وقت کے ماحول کو اگر ایک جملہ میں سمیٹوں تو اس وقت برگر پارٹی کا سماں تھا۔ جب وہاں میں نے مختلف اساتذہ سے بچوں کی تعلیم کے بارے میں جاننا چاہا تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ وہاں تو کوئی نصاب متعین ہی نہیں ہے۔

اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بچوں کو کیا حاصل ہورہا ہوگا اور پاکستان کا مستقبل کس طرح کے لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا۔ اس وقت میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی جب مجھے بتایا گیا کہ وہاں کسی کی بھی تنخواہ 50 ہزار سے کم نہں ہے۔ اس وقت نہایت ہی افسوس ہوا کہ مناسب معاوضہ ملنے کے باوجود یہ اساتذہ آخر کس سمت چل رہے ہیں۔

غفلت اور بدعنوانی کی عادت اتنی پختہ ہو گئی ہے کہ معصوم بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے میں بھی خوف محسوس نہں ہوتا۔ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ہے جو ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی نوکریوں کے لیے دھکے کھاتا پھرتا ہے اور مجبوراً پرائیوٹ سیکٹر میں معمولی تنخواہوں پر کام کر رہا ہے اور ایک یہ طبقہ ہے جو سیٹ خرید کر آج بیٹھ کے کھارہا ہے۔ ہر صورت میں نقصان ان غریب بچوں کا ہو رہا ہے تعلیم حاصل کرنا جن کا بنیادی حق ہے مگر انھیں ایسے اساتذہ اور نظام کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔

کبھی کبھی ایک کے بعد ایک ایسی حقیقت سامنے آتی ہے، جس پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا، ذہن ماوؐف سا ہونے لگتا ہے۔ اس دوران میں نے وہاں ایک اور شخص کو دیکھا جو اس وقت سیکریٹری صاحب کے آفس سے خفیہ طور آیا تھا، وہاں نہ جانے کن کاغذوں پر دستخط پر دستخط ہورہے تھے؛ پہلے تو میں سمجھ نہں پائی۔ مگر کچھ دیر میں ساری حقیقت کھل گئی۔ جب میں نے ان سے کہا کہ جناب یہاں اتنے عمر رسیدہ لوگ بیٹھے بٹھائے بنا کام کے پیسا کما رہے ہیں، تو ہمارے لئے بھی کوئی سیٹ نکال لی جائے تاکہ ہم کچھ کام کرکے کمالیں۔ جواب میں ان حضرت نے میری ساتھی سے کچھ سرگوشی کی۔ میری ساتھی نے جب مجھے ایک اشارہ کیا تو میں مسکرادی وہ اشارہ کچھ ایسے تھا کہ کیا میں پیسوں کا انتظام کرسکتی ہوں، تو میری نوکری بنا کسی ٹیسٹ کے پکی ہوجائے گی۔

میں آج بھی پوائیویٹ سیکٹر ہی میں ملازمت کررہی ہوں۔ اس تجربے نے مجھے بہت کچھ سکھایا، مگر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ جب ان بچوں کے معصوم چہرے، سوالیہ نظریں، محبت بھری مسکراہٹیں، نگاہ میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ وہ منتظر ہیں، اچھی تعلیم اور ایک کامیاب مستقبل کے لئے۔ میں دعا گو ہوں، ان مستقبل کے معماروں کے لئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).