کیا تھر پاکستان کے لئے گیم چینجر بننے جارہا ہے


اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز پر حکمرانی کرنے والی ہر حکومت ملک میں توانائی کی کمی کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوشاں رہی لیکن ان کی ترجیحات میں خاصی غلطیاں نظر آئیں۔ جس سے ایسا تاثر ملتا رہا جیسے کہ کسی بادشاہ کے ہاتھ دولت تو آگئی لیکن استمال کرنے کا طریقہ نہ آیا اور ادھر ادھر فضول چیزوں پر دولت لٹا کر تباہ کردی اور اگر دولت قرض لے کر ہاتھ آئی تو پھر رعایا کو اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔

بدقسمتی سے ایسا ہی کچھ تھر میں کوئلے کے ذخائر کے ساتھ بھی بہت عرصے ہوتا رہا مفلوک الحال تھر کی زمین کالہ سونا اگلنے کو تیار رہی مگر حکمرانوں کو شاید اس کالے سونے میں بھی چمکتی چاندی نظر آنے لگی ان ذخائر میں ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد کی بھاگ دوڑ نظر آنے لگی۔ ایک انداز ے کے مطابق تھر میں پائے جانے والے کوئلے کی ذخائر 175 بلین ٹن ہیں جو دنیا میں کوئلے کے بڑے ذخائر میں شمار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر سعودی عرب اور ایران میں پائے جانے والے موجودہ تیل کے ذخائر سے بھی زیادہ ہیں جو کہ گیس میں تبدیل ہونے پر 2000 ٹریلین کیوبک فٹ کے برابر ہوگا جو پاکستان کے اب تک کے تمام ذخائر سے 68 گناہ زیادہ ہے۔ وطن عزیز پر رب کائنات کی مہربانی کے یہ دنیا میں پائی جانے والی کوئلے کی کانوں سے اس طرح بھی مختلف اور سہل ہے کہ ریگستانی ہموار زمین کے نیچے یہ ذخائر موجود ہیں ہموار زمین کے نیچے معدنیات کا ہونا خود ایک نعمت ہے۔

کوئلہ بجلی بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس وقت دنیا کی کل بجلی کی پیداوار کا 40.6 فیصد کوئلے سے بنتا ہے۔ اگر ہم ان ممالک جن کو اللہ تعالی نے کوئلے کی دولت سے مالا مال کیا ہے ان کی بجلی کی پیداوا ری تناسب کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ پولینڈ، ساؤتھ افریقہ، چین، بھارت، آسٹریلیا، قازقستان، جرمنی، امریکہ، برطانیہ، ترکی، یوکرائن، منگولیا، ہانگ کانگ، سربیا، بوسنیا اور جاپان میں کوئلے سے بجلی بنانے کا تناسب 55 فیصد سے 99 فیصد تک ہے۔ تمام ایشیائی ممالک میں منگولیا کوئلے سے سب سے زیادہ بجلی بنانے والا ملک ہے جس کی پیداوار 92.2 فیصد ہے جب کہ منگولیا کے پاس 162 بلین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں۔ اسی طرح یورپی ممالک میں سب سے زیادہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا ملک پولینڈ ہے جو 83 فیصد بجلی کوئلے سے پیدا کرتا ہے۔ اگر اس بین الاقوامی تناسب کا موازنہ وطن عزیز سے کیا جائے تو سر پیٹنے کے سو ائے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ بہت بڑا کوئلہ کا ذخیرہ ہمارے ملک میں موجود ہے اور جسے دریافت کیے ہوئے بھی ایک زمانہ گزر گیا اس کے باوجود ہم کوئلے سے آٹے میں نمک برابر بجلی پیدا کررہے ہیں۔

تھر میں کوئلے کی کانیں سن 1991ء میں جیوولوجیکل سروے آف پاکستان (جی ایس پی) اور امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی کی جانب سے دریافت کی گئیں جو دنیا میں 119 ممالک میں پائے جانے والے کوئلے کے ذخائر میں ساتویں نمبر پر قرار دی گئیں، تھر میں بڑے پیمانے پر کوئلے کی کانوں کی دریافت کے بعد ہی سے آسٹریلیا، جاپان، چین اور بھارت کے سرمایہ کاروں کی نظریں اس حوالے سے شروع ہونے والے منصوبوں پر لگی رہیں۔ دریافت کے بعد ایک طویل عرصے تک اس پر کوئی کام نہ کرنے کی وجہ اس قدرتی خزانے پر ملکیت کی رسہ کشی تھی ایک طویل عرصہ ضائع کرنے کے بعد سترہ جون 2009 کو سندھ حکومت کی جانب سے باضابطہ ایک اعلان سامنے آیا جس میں عندیہ دیا گیا کہ تھر کول کا معاملہ حتمی طور پر طے پاچکا ہے جس کے مطابق حکومتِ سندھ تھر میں دریافت ہونے والے کوئلے کی کانوں کو اپنی ملکیت میں رکھے گی، اسی خاطر وزیر اعلی سندھ کی سربراہی میں تھرکول انرجی بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا اور منصوبے کو جامشورو یونیورسٹی کے حوالے کیاگیا، یونیورسٹی کے پاس اس منصوبے کے لئے درکار مہارت کا فقدان تھا جس وجہ سے منصوبے پر عمل درآمد میں تاخیر مزید طوالت کی جانب چلا گیا۔

تھر کول میں واقع کوئلے کے ذخیرے کو تیرہ بلاکوں میں تقسیم کیا گیا ہے جوتین فیز پر مشتمل ہیں سن 2010 سے 2012 تک کے لیے پہلے بلاک میں ڈاکٹر ثمر مبارک کی زیر قیادت منصوبہ شروع کیا گیا جس کا تخمینہ 9 بلین روپے تھا جس سے 28 مئی 2015 سے بجلی کی پیداوار شروع کی گئی لیکن ڈاکٹر ثمر مبارک کا کہنا ہے کہ اسی دن سے اس پروجیکٹ کے لئے فنڈنگ روک دی گئی اور 2017 تک اس منصوبے کے لئے 03 بلین کی فنڈنگ ہوئی جس سے صرف 150 میگاواٹس بجلی پیدا کی جارہی تھی جو کہ ان کے منصوبے میں استمال ہونے والی بجلی کی ہی مانگ پوری کرنے کے قابل تھی۔ منصوبے کی فنڈنگ رکنے کے بعد ڈاکٹر ثمر مبارک نے تھر کول کے مزید بلاکوں میں شروع ہونے والے منصوبوں کے بارے میں حیران کن انکشافات کیے کہ مزید جن بلاک میں کام شروع کیا گیا ہے وہاں ایمپورٹڈ کوئلے سے بجلی بنائی جائے گی جسے پورٹ قاسم سے تھر لایا جائے گا۔ جب کہ حکومت کی جانب سے اس بات کو یکسر مسترد کیا گیا کہ ایسا کوئی بھی منصوبہ زیر غور ہے ایسا کیوں کر ممکن ہے کہ ہم اپنا بہترین کوئلہ بجلی کی پیداوار کے لئے استمال کرنے کے بجائے باہر سے کوئلہ لے کر استمال کریں۔

مئی 2013 میں سندھ اینگرو کول مائیننگ کمپنی (ایس ای سی ایم سی) کے ذریعے بلاک ٹو کے منصوبے پر کام کرانے کا فیصلہ کیا گیا یہ فیصلہ اس نوعیت سے ایک منفرد فیصلہ تھا کہ پوری دنیا میں کوئلہ نکالنے کے منصوبے پر کام حکومتیں خود کرتی ہیں۔ ایس ای سی ایم سی نے سندھ حکومت کی شراکت سے بلاک ٹو میں کام شروع کیا ہے جس کا رقبہ 98 مربع کلومیٹر ہے ایس ای سی ایم سی کے مطابق یہاں سے نکلنے والے کوئلے سے 5000 میگاواٹ بجلی بنائی جاسکے گی جو آیندہ 50 سالوں کی ضرورت پوری کرے گی اس منصوبے کا کل تخمینہ 50 بلین ڈالر ہوگا۔ منصوبے کی مطابق فیز ون سے 03 جون 2019 کو بجلی کی سپلائی شروع ہوجائے گی جو کہ 660 میگاواٹ ہوگی جب کہ 2020 سے 2021 میں فیز ٹو اور تھر ی سے 1650 میگاواٹ پیداوار ہوگی جس سے مجموعی پیداوار بڑھ کر 2310 میگا واٹ ہوجائے گی اسی طرح 2022 سے 2023 میں مجموعی پیداوار 3630 میگاواٹ اور 2024 سے 2025 تک یہ پیداوار 5000 میگاواٹ ہوجائے گی۔ ایس ای سی ایم سی کی مطابق بتایا گیا ہے کہ امید ہے 2028 میں منصوبے کے لئے جو قرض لیا گیا ہے وہ واپس کردیا جائے اور 2029 سے بجلی مزید سستے نرخوں میں عوام تک پہنچنا شروع ہوجائی گی۔

ایس ای سی ایم سی کی مطابق وہ فیز ون میں جس بلاک میں کام کررہی وہ تھرکول ذخائر کا ایک فیصد ہے جس سے 1۔ 57 بلین ٹن کوئلہ برآمد کیا جائے اس بلاک میں کوئلہ 160 میٹر زیر زمین ہے جب کہ اب تک تقریباً 134 میٹر تک کھدائی کردی گئی ہے۔ کوئلے کی پرت سے اوپر قریب 30 سے 34 فٹ پانی کی پرت بھی موجود ہے اس پرت سے 25 فیصد پانی نکال لیا گیا ہے۔ تھر میں دریافت ہونے والا کوئلہ لگنائٹ کہلاتا ہے، اس کوئلے میں سلفر کی مقدار 7.1 فیصد، راکھ 7.8 فیصد اور نمی کی مقدار 49 فیصد ہے۔ ایس ای سی ایم سی کے مطابق کسی بھی کول پاور پلانٹ کو چلانے کے لئے پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور یہاں پائے جانے والے کوئلے کے ذخائر کے اوپر ہی پانی موجود ہے ورنہ تھر میں بھاری مقدار میں پانی کا ذخیرہ کرنا بھی ایک بڑا کام ہے اللہ نے ہمیں کول پلانٹ شروع کرنے کے تمام قدرتی ذرائع بھی فراہم کردیے ہم اسی کول مائن سے نکلے ہوئے پانی کا ذخیرہ کررہے ہیں جو پلانٹ کو چلانے میں استمال کیا جائے گا منصوبے سے حاصل ہونے والے پانی کے ذخیرے کو گورانو کے علاقے میں گورانو ڈیم میں دوسال کے لئے محفوظ کیا جائے گا جو کہ پلانٹ میں استمال کیا جاسکے گا۔

اس شعبہ میں کام کرنے والی جرمنی کی مشہور کمپنی آر ڈبلیو او کا ماننا ہے کہ کوئلہ کی کانوں کے اوپر سے حاصل ہونے والا پانی قدرتی ہوتا ہے اس میں کوئی کیمکل شامل نہیں ہوتا اس لئے یہ نمکین ہوتا ہے زہریلا نہیں۔ اینگرو کی جانب سے اس علاقے میں کئی پانی کے کنوئیں کھودے گئے ہیں جن سے حاصل پانی سے تجرباتی طور پر اس سال پہلی مرتبہ تھر کے علاقے میں کپاس کاشت کی گئی جس کے اچھے نتائج آئے۔ جب کہ مختلف فلاحی تنظیموں اور ایس ای سی ایم سی کی جانب سے تھر میں سیکڑوں پانی کے کنوئیں دوسرے علاقوں میں بھی کھودے گئے ہیں۔ پلانٹ میں کوئلے کو جلانے سے جو راکھ پیدا ہوگی اس کے لئے بھی دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے رابطہ کیا ہے جس سے ملک میں زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا اس کوئلے کی راکھ سے دنیا کی بہترین ٹائلز اور اینٹیں بنائی جاتی ہیں جب کہ دیگر اشیا کے بنانے میں بھی استمال کی جاتی ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک بھی کوئلے ہی سے بجلی پیدا کررہے ہیں وہاں بھی ان پلانٹس کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ نہیں ہوا کیوں کہ اس سے پیدا ہونی والی آلودگی کو زیرو فیصد کرنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں گزشتہ دنوں صحافیوں کے وفد کے ساتھ ایک مطالعاتی دورے پر تھر کول جانے کا اتفاق ہوا جس کے دوران کئی حقائق سامنے آئے اور تھرکول بلاک ٹو میں جاری کام کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ذہن میں اس منصوبے کے حوالے سے کئی سوالات تھے جن کے جوابات وہاں جاکر ملے اور افسوس اس امر پر ہوا کہ اگر تھرکول میں کوئلے کی دریافت کے فوری بعد توانائی کی کمی اور بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر منصوبے پر کام شروع کردیا جاتا تو اب تک ناصرف وطن عزیز بجلی کی پیداوار میں ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہوتا بلکہ عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے چھٹکارا مل چکا ہوتا اور سستی بجلی بھی میسرہوتی، تھر کا علاقہ ایک سیاحتی مرکز بن چکا ہوتا مقامی لوگوں کو مزید روزگار میسر آتا اور ملک مزید خوشحالی کی راہوں پر چل نکلتا۔

ان منصوبے کے شروع ہونے میں سب سے اہم سوالات یہ بھی تھے کہ اللہ نے جن تھر کے باسیوں کے قدموں کے نیچے سے کالا سونا نکالا اس معدنی ذخیرہ سے ان کی حالاتِ زندگی میں بھی کوئی تبدیلی آئی گی کہ نہیں۔ اس حوالے سے تھرپارکر میں کئی اقدامات قابل اطمینان نظر آئے اور دلی تسلی بھی ہوئی۔ تھر کول کے مقام پر جو گاؤں آباد تھے انہیں متبادل گھر دینے کا اعلان کیا گیا اس کے لیے ایک ماڈل ولیج بنایا جارہا ہے جب کہ ماڈل ہوم تیار ہوچکا ہے جس کا ڈیزائن مقامی لوگوں کی منشا کے مطابق بنایا گیا ہے جس میں تھر کا ثقافتی چونرا بھی بنایا گیا ہے اس ماڈل ولیج کے ہر گھر کا کل رقبہ 1000 مربع فٹ ہے جو متاثرہ 174 خاندانوں کو دیے جائیں گے یہ گھر خاندان کے ہر شادی شدہ مرد کو دیا جائے گا یعنی اگر وہ پہلے ایک گھر میں چار شادی شدہ افراد رہتے تھے اب چاروں افراد کو نئے گھر دیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ متاثرہ خاندانوں کوایک لاکھ تیس ہزار روپے کے شئیر بھی دیے جائیں گے جس میں ہر سال اضافہ بھی ہوگا۔ اس وقت، جاری منصوبے میں 576 مقامی افراد کو مختلف شعبوں میں روزگار دیے گئے ہیں جب کہ 742 افراد کو روزگار کی لئے ٹریننگ دی جارہی ہے۔ جن میں پندرہ خواتین ڈرائیور بھی ہیں۔ منصوبے میں تقریباً 1600 چینی بھی کام کررہے ہیں جن کے تعداد آگے چل کر 25 سو ہوجائے گی۔

ایس ای سی ایم سی کی جانب سے تھر میں گرین پارک، تھر ملین ٹری پروجیکٹ، ون ہوم ون ٹری پروجیکٹ، کراچی یونیورسٹی کے تعاون سے شجرکاری کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ اس علاقے میں تین آر او پلانٹ قائم کیے گئے ہیں جن سے 20000 گیلن یومیہ پانی گورانوں کے علاقے میں واقع تین بڑے دیہاتوں کو دیا جارہا ہے، چوتھا آر او پلانٹ جو اتنی ہی مقدار میں پانی فراہم کرے گا تیاری کے مراحل میں ہے جب کہ پانچواں آر او پلانٹ ستمبر 2017 سے 5000 گیلن یومیہ پانی فراہم کررہا ہے۔ تھر کول کان سے متاثرہ تین گاؤں کے کل 5200 لوگ ہیں۔ حکومت سندھ کی جانب سے ننگر پارکر میں محکمہ سندھ ٹورزم ڈویلپمنٹ کی جانب سے اگست 2017 میں ایک خوبصورت گیسٹ ہاوس تعمیر کیا گیا ہے جس میں تمام سہولیات موجود ہیں اس گیسٹ ہاوس کو بھی تھر کے روایتی گھروں چورا طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔

تھر کی خوشحالی کے لئے تھر فاونڈیشن کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جو تھر کی خوشحالی کے لئے مصروفِ عمل ہے۔ تھر فاؤنڈیشن کے تحت کئی اسکول شروع کیے گئے ہیں 2018 سے مزید اسکولوں میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوجائے گا جس میں 12000 تھر کے بچوں کو داخلہ دیا جائے گا، جب کہ تھر میں بہت سے گاؤں میں کئی ایسے سرکاری اسکول تعمیر ہیں جہاں اسکول کی عمارتیں تو موجود ہیں مگر فنڈز کے نہ ہونے سے تعلیمی سلسلہ شروع نہیں کیا جاسکا، ایس ای سی ایم سی کی جانب سے حکومتِ سندھ کو درخواست کی گئی ہے کہ ایسے تمام اسکولوں کو تھر فاؤنڈیشن گود لینے کو تیار ہے تاکہ بہتر تعلیمی سہولیات فراہم کی جاسکیں، اسی طرح دی سیٹیزنز فاؤنڈیشن (ٹی سی ایف) کے تحت اینگرو کے اشتراک سے اسلام کوٹ میں 05 ٹی سی ایف یونٹ زیر تعمیر ہیں جب کہ ایک پرائمری اسکول اگست 2017 سے شروع کردیا گیا ہے۔ اسی طرح ضلع عمر کوٹ میں واقع مشہور قلعہ جو خستہ حالی کا شکار ہے اسے بھی ایس ای سی ایم سی کی جانب سے دوبارہ اس کی اصل شکل میں لانے کا منصوبہ ہے۔

ایس ای سی ایم سی کی جانب سے تھر کے مقامی فنکاروں کو بھی پروموٹ کیا جارہا ہے جس کی تازہ مثال مائی دھائی کی ہے جو کوک اسٹوڈیو تک پہنچی ہیں۔ تھر فاؤنڈیشن کے تحت تھاریو ہا لیپوٹو گاؤں میں ماروی جو کہ تھر کی ایک مشہور لوک داستان عمر و ماروی کا کردار ہے ان کے نام سے ماروی کلینک سن 2015 سے دو شفٹوں میں کام کررہا ہے جس میں 50 او پی ڈی کام کررہی ہیں اور یومیہ علاج معالجے کی سہولیات کے ساتھ میڈیسن بھی فراہم کی جارہی ہے فروری 2017 سے ماروی کلینک کو انڈس اسپتال کے تعاون سے مزید بہتر کیا گیا جس میں 1300 مریضوں کا ماہانہ علاج کیاجاتا ہے جس میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ تھر فاؤنڈیشن کے تحت انڈس اسپتال کے تعاون سے ایک 100 بیڈجدید سہولتوں سے آراستہ اسپتال بنایا جارہا ہے۔

تھرپارکر میں ان تمام سہولیات کے علاوہ حکومتِ سندھ نے بھی مقامی لوگوں کے لئے بہت سی سہولیات فراہم کی ہیں جن میں گزشتہ نو سالوں میں 1۔ 5 بلین روپے کے ترقیاتی کام کرائے گئے ہیں 5000 لوگوں کو میرٹ پر روزگار فراہم کیا گیا 150 میڈیکل ڈاکٹروں اور 25 ویٹنری ڈاکٹروں کو کنٹریٹ پر بھرتی کیا گیا، مٹھی جو تھر پار کر کا صدر مقام ہے اس میں واقع مٹھی اسپتال کو مزید فعال کیا گیا۔ تھرپارکر میں 1300 کلو میٹر کی پختہ سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ مٹھی میں ایگریکلچر یونیورسٹی کے کیمپس کی منظوری لی جاچکی ہے جس پر جلد کام شروع ہونے والا ہے۔ ایک طویل سڑک کراچی سے تھر کول تک بنائی گئی ہے۔ اسلام کوٹ، چھاچھرو، چیلھار، ننگرپارکر، کالوئی اور ڈپلو میں سولر اسٹریٹ لائٹ تنصیب کی گئی ہیں۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کسی بھی علاقے کی ترقی میں مقامی لوگوں کا نہایت اہم کردار ہوتا ہے اگر انہیں بنیادی سہولیات میسر ہوں گی تو وہ ملکی ترقی میں اپنا بہتر سے بہتر کردار ادا کرسکیں گے۔ بلاشبہ آج کا تھرپارکر گزرے ہوئے کل کے تھرپارکر سے مختلف اور بہتر نظر آتا ہے، آج تھر پارکر میں کئی جگہ پانی کا ذخیرہ بھی نظر آتا ہے تو تھر کے جانور بھی صحت مند نظر آتے ہیں تھر میں جگہ جگہ ہریالی بھی دکھائی دیتی ہے۔ تھر کول پاور پلانٹ سے 03 جون 2019 کو بجلی کی فراہمی شروع ہوجائے گی اسی کے ساتھ پاور پلانٹ میں لگی دیو ہیکل چمنی دھواں اگلنا شروع کردے گی۔

تھر کے لوگ اس حوالے سے ابھی بھی خوف میں مبتلا ہیں کہ کیا ہوگا کہیں آلودگی مزید بڑھ تو نہیں جائے گی، تھرکول سے جو پانی نکال کر ذخیرہ کیا جارہا ہے اس سے ہمارے پانی کے کنوئیں زہریلے تو نہیں ہوں گے، تھر میں پائے جانے والے نایاب نسل کے پرندے جن میں موروں کو نہایت اہمیت حاصل ہے ان کی ہلاکتیں تو شروع نہیں ہوجائینگی۔ تھری لوگوں کے ان خدشات کو دور کرنے کے لئے ان میں مزیدشعور کی بیداری نہایت ضروری ہے۔ دنیا بھر میں کو ل پاور پلانٹ کی چمنی 110 میٹر تک کی اونچائی کی ہوتی ہے جب کہ تھرکول پاور پلانٹ کی چمنی دنیا کی سب ے اونچی چمنی ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی اونچائی اس لئے بڑھائی گئی ہے تاکہ آلودگی زمین کے قریب نہ ہو۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چمنی چاہے جتنی بلند ہو اس سے نکلنے والے دھوئیں کے اثرات زمین پر ضرور ہوں گے، اس لئے پلانٹ کی چمنی سے نکلنے والے دھوئیں کو زیرو آلودگی پر لانے کی ضرورت ہے جس طرح چین نے تجرباتی طور پر بیجنگ اور دوسرے شہروں میں فضائی آلودگی کھانے والے ٹاور نصب کیے ہیں جو نہ صرف ماحول کو گرد و غبار کو صاف کرتے ہیں بلکہ ان کے فلٹر سے فضائی آلودگی صاف کرنے سے جو کاربن حاصل ہوتا ہے اس سے مختلف زیورات بنائے جارہے ہیں۔

اگر تھر میں اس طرح چینی طرز کے فلٹر نصب کردیے جائیں تو نہ صرف ممکنہ فضائی آلودگی کو ختم کیا جاسکے گا بلکہ تھر کی خواتین کو حاصل کردہ کاربن سے زیورات بنانے کا ہنر سکھا کر روزگار فراہم کیا جاسکے گا۔ تھر میں مصنوعی طریقہ سے بارش کے انتظامات بھی مکمل رکھنے ہوں گے تاکہ بوقت ضرورت اس طریقے کو بھی استمال کیا جاسکے۔ میں نے تھر جا کر ماحولیات، صحت اور تعلیم کے حوالے سے جو ترقیاتی کام دیکھے اور اس حوالے سے جو منصوبے جاری ہیں اگر وہ من و عن جاری رہتے ہوئے مکمل ہوجاتے ہیں تو یقین جانیں پھر یہ کہنا بجا ہوگا کہ تھر کے باسیوں کو جو سبز باغ دیکھائے تھے وہ حقیقت کا روپ دھار گئے۔

اس دورے کے دوران جہاں بہت سے سوالات کے جواب مجھے مل گئے، وہیں کئی جواب ابھی باقی ہیں جنہیں صرف آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔ میں خوش امیدی کا قائل ایک پر امید انسان ہوں۔ دیر آید درست آید اگر کوئی ملک کو خوشحالی کی راہ پر لے کر جاتا ہے تو ہمیں اس کام کی تعریف کرنی چاہیے اور اس کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے تاکہ وہ ملک کے بہترین مفاد میں بخیر خوبی پایہ تکمیل کو پہنچے۔ دوسری صورت میں قلم کی طاقت ہمارے پاس ہے جس طرح آج اچھے کاموں کو یہ قلم سراہ رہا ہے خدانا خواستہ کل وعدہ خلافی یاکسی بھی غلط کام پر یہی قلم ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).