دھرنا رواج ہے یا علاج؟


دھرنے نے اب باقاعدہ ایک سالانہ تہوار کی شکل اختیار کر لی ہے۔ احتجاج، مطالبات، غصہ، جارحیت، دھونس اور دھمکی یہ سب کچھ ہمیں ان دھرنوں میں سننے کو ملتا یے۔ پنجابی فلموں کی، گرج اب سینما گھروں سے رخصت ہو گئی اور دھرنوں میں سما گئی۔ کبھی سیاسی بینر ز لگا کے تو کبھی دین کے نام پہ لوگوں کو گھسیٹ کے باہر لے آیا جاتا ہے۔ اب عزائم کس حد تک عوامی ہیں اس بات کا تعین سا بقہ اٹھک بیٹھک سے ہو سکتا ہے اور کامیابیوں کا اندازہ بھی ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان مطالبات میں عام آدمی کی بدحالی دور کرنے کی بات ہے، تعلیمی اصلاحات کا ذکر ہے، بے روزگاری کے آفریت سے نجات کے لئے حکومتی توجہ درکار ہے، ناگفتہ بہ حالات جو محکمہ صحت سے متعلق ہیں، کیا ان کی درستگی کے لئے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔

آخر اس سب نشست و برخاست کی طویل مشقوں سے حاصل کیا ہو رہا ہے؟ کیا لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں تیزی آ گئی ہے، غالباً اس کا عملی نمونہ تو پچھلے دنوں پیش ہوا جب وطن عزیز کی گلیوں میں ایک لڑکی کو بر ہنہ کر کے پھرایا گیا۔ عصمت دری بہت عامیانہ سا اور معمولی سا لفظ لگتا ہے، یہ تو اجتماعی گالی ہے۔ عزت اور غیرت کے نام پہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ اگر سیاست اور جمہوریت پہ نقطہ چینی ہو تو کیا یہ ہی واحد حل ہے کہ حکومت ایک سے سے چھنے اور دوسرے کو مل جائے۔ اگر یہ منطقی حل ہے تو صاحب یہی کچھ تو ہوتا رہا ہے، اتنے تسلسل سے ہونے کے بعد آج پھر ہم اسی نقطے میں حل تلاش کرتےہیں جس نے ماضی میں سوائے پچھتاوے اور الزام تراشی کے کچھ نہیں دیا۔ اور توقع کرتے ہیں مسائل حل ہو جائیں گے۔

مذہب کے نام پہ احتجاج برپا ہوتا ہے تو اس میں بھی لوگوں کی حالت زار نہیں بدلتی۔ ان سلسلوں میں اعلی و ارفع حیثیت کے حامل افراد کو خوش بخت کہا جاتا ہے، جبکہ مفلس کو قسمت پہ بین کرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ملک میں چونکہ اکثریت کا مذہب اسلام ہے، جس کی اولین تعلیم میں توحید اور رسالت کا پر چار ہے۔ جبکہ مذہب کی بنیاد میں ہمیں صاف پتہ چلتا ہے کہ عرب میں جہالت اور غلامی سے نجات سب سے بلند مقصد تھا۔ اب عرب میں طاقت ور اور دولت مند طبقے کے لئے ایک بہت بڑی آزمائیش کھڑی ہو گئی تھی۔ ایسا طرز زندگی جس میں شان و شوکت کی جگہ سادگی اور معاشرتی تفریق کی جگہ برابری کے رواج کو فروغ مل رہا تھا۔ طاقت ور اور بالادست عوام کے برابر کھڑے تھے۔ اسلام ان لوگوں کے لئے زیادہ پر کشش تھا جو محروم، مظلوم اور لاچار تھے۔ گویا ان لوگوں کو فطری رویئے درکار تھے جن کا یقین انہیں اسلامی اصلا حات میں مل رہا تھا۔

رسول خدا کی زندگی کو نبوت سے قبل دیکھا، جائے تو پہلا عہد جو انہوں نے کیا وہ اپنے خاندان اور قریبی رفقا کے مابین تھا۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک مظلوم کو ظالم سے نجات نہ دلوا دیں۔ بلکل اسی طرح ظالم کو اس کے انجام تک نہ پہنچا دیں۔ اب اس عظم میں میں مرکزی نقطہ مظلوم فرد ہے، یعنی رسول ﷺ کی تربیت جو بنو سعد میں ہوئی، وہاں بتایا ہوا عرصہ اس لحاظ سے بلخصوص قابل ذکر ہے، چونکہ کہا جاتا ہے کہ ہادیہ بنی سعد میں رسول ﷺ کی پروش کو خود آپ ﷺ نے بڑی خوش بختی قرار دیا۔ اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ مکہ کے تجارتی مرکز کو آنے والے سب قافلے طائف کی وادی کے اطراف خیمہ زن ہوتے تھے۔ وہاں مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کے ا حوال سے آپ ﷺ کو آگہی ہوتی رہی۔ وہ معاشی تفریق کے پس منظر کو بڑے قریب سے دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ معاشی عدم توازن پہ گہری فکر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بعد کے زمانے میں غلامی اور محکومیت کی سختیوں کو بہت شدت سے رد کیا۔

اس کا مطلب ہے کہ مذہب میں تقدیس کو جس قدر اہمیت و درجہ حاصل ہے، اس سے کہیں زیادہ انسانوں کی طرز معاشرت میں بہتری اور معاشی پستی کو دور کرنا اسلام کا موضوع معلوم ہوتا ہے۔ اب رہا مسئلہ سیاست کا تو وہاں بھی حکومت کے حصول میں دلچسپی کی حقیقت زیادہ بڑی دکھائی دیتی ہے، بنسبت اس کے کہ عوامی تکالیف کو کم کرنے میں اور سہولیات کی فراہمی کے لئے ریاست سے مطالبات کیئے جاتے۔ اب جمہوری حقوق میں سر فہرست احتجاج ہی لگتا ہے، لوگوں نے اپنے منتخب امیدواران سے قطعی یہ توقع قائم نہیں کی تھی کہ حکومت صرف ہمیں دھرنوں اور احتجاج کی اجازت دے باقی جو مر ضی کرے۔ چلیں اس چلن کو ہم سب سے مقدم جمہوری حق تسلیم کرتے ہیں، مگر کیا ہر قسم کے احتجاجوں سے لوگوں کی ابتر حالت بدلی ہے۔ کسی دیہی علاقے میں کسی فرد کو دل کا دورہ پڑ جائے تو اسے ایمر جنسی مدد کے لئے آسمان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے، جبکہ لواحقین اس کے آخری سانسوں کی گنتی کرتے ہیں۔ پینے کے پانی کے لئے لوگوں کے پاس یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ یہ جان سکیں کہ کیا جو ہم پانی پی رہے وہ جراثیم سے پاک ہے یا نہیں اور کیا اس میں تمام ضروری اجزا بقدر ضرورت موجود ہیں۔

مہنگائی کے طوفان میں 300 یا 400 روپے دیہاڑی لینے والے آدمی کو کنبے کے چار، پانچ افراد کے پیٹ میں ایندھن ڈالنا ہے، کیسے اس قلیل آمدن میں اس کی انتظامی مہارت کام آئے گی۔ گدھوں کی طرح سارا دن وہ جتا رہتا ہے، اور شام کو نیند کی بجائے اگلے دن کی دیہاڑی کی فکر لگ جاتی ہے۔ ان مسائل کو کس نے حل کرنا ہے؟ کیا مختلف عالمی تنظیموں نے ان دیہاڑی داروں کے بچوں کو تعلیم کے لئے عطیات دینے تھے۔ پھر ان امداد سے چلنے والے اداروں میں مستحقین کے کوٹے پہ امیر شہر کے درباریوں کے بچے تعلیم حاصل کریں۔ یہ عوامی مسائل کسی دھرنے یا کس احتجاج میں اٹھائے گئے ہوں، میں اس ضمن میں ناقص علم ہوں۔ وہی ہر طرح کے کیمپ میں اشرافیہ کی بھرتی ہے، اس صورتحال میں عام آدمی کے حقیقی اور روز مرہ کے مسائل سے کون واقفیت حاصل کرے گا۔

ہاں البتہ جب جانوں کے نذرانے کی بات آتی ہے تو اس وقت یہی دیہاڑی دار طبقہ ان سب طرح کے احتجاجوں اور دھرنوں کے لئے جانیں قربان کرتا ہے اور مرتبہ شہادت پہ فائز ہو جاتا ہے۔ موت کی تقسیم میں سب سے بڑا حصہ عام آدمی کو ملتا ہے، اس کا منطقی جواز یہ ہے کہ چونکہ وہ تعداد میں زیادہ ہے اس لئے ایسی صعوبتوں کا شکار انہیں ہی ہونا پڑتا ہے۔ حیرت ہے کہ قربانی کے لئے پست طبقہ اور حکمرانی کے لئے مخصوص طبقہ، یہ عجیب بے تکا سا دوغلا پن ہے۔ یعنی آپ جن سے اصل طاقت کو حاصل کرتے ہیں، ان کی عمومی مشکلات سے نظریں چرا کر جیتے ہیں۔ ایسے میں دھرنے سے کن کن امراض کا علاج ہو رہا ہے، معاشرتی بگاڑ اور تشدد ابھی بھی رائج ہے۔ احتجاج اب تو ر واج لگتا ہے جس میں کوئی افادہ نہیں۔

سنیئے اہل اقتدار! لوگ جب آپ کو قیادت کا حق دیتے ہیں تو ساتھ ہی یہ توقع کرتے ہیں کہ آپ ان کی تکلیفوں اور سماجی جبر کی سرگرمیوں سے نجات کے لئے ان کے حق میں آواز بلند کریں گے۔ ان کے من کے اندر خوشحالی اور آسودگی کے خواب کا دھرنہ جاری ہے، ان کے مطالبات بہت سادہ ہیں، انتہائی مختصر چاہت ہے انکی۔ وہ عزت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور عمومی سہولیات کی دستیابی کے خواہشمند ہیں۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کوئی سیاسی شخص کرسی اقتدار پہ براجمان ہے، یا پھر کسی اور عنوان کا آدمی مسند پہ بیٹھا ہے۔ ان کی اصل داستان ابھی ان کہی ہے، جس دن اس داستاں کو زباں ملی تو یقین جانیے اس دن باقی آوازیں بہت نحیف ہو جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).