سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال ممنوع ہے


پاکستان میں مذہب کو سیاسی اور ذاتی مقاصد و مفاد کے لیے استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مغرب سے لے کر مشرق تک اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

مغرب میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب کلیسا کا راج تھا۔ یورپ میں چرچ کے اقتدار اور تنگ نظری کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا ہو ئے۔ Renaissance اور Reformation جیسی تحریکیں چلیں۔ مغرب میں تو انقلاب فرانس کے بعد مذہب کو سیاسی ادارے سے خارج کردیا گیا۔ مگر مسلمان ممالک میں سیاست اور مذہب کے تعلق پر ابھی بھی بحث جاری ہے۔ پاکستان کا بھی شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر مذہب کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

فیض آباد دھرنے کے ڈراپ سین کے بعد ملک میں جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کا بازار گرم ہوگیا تھا۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگوں کے سیکڑوں عذاب، پریشانی اور یرغمالی کے دن کسی کو یاد نہیں رہے ہیں۔ اب مذہبی ٹھیکیداروں کے نازیبا الفاظ اور گالم گلوچ گلاب کے پھول بن کر برس رہے ہیں۔ معصوم حکومت مجبور ہوکر معاہدہ کرنے پر مجبور ہے۔ ملک کا وزیر داخلہ دھرنے کے خلاف آپریشن سے لا علم ہے وہ میڈیا پر عدالت کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر شوکاز نوٹس کی داستان سناتے نظر آرہے ہیں کہ جو کچھ ہوا وہ عدالت کا حکم تھا۔

دوسری طرف وزیر قانون زاہد حامد اپنی جان بچانے اور مسلمان ہونے کا سرٹیفیکٹ حاصل کرنے لیے اپنے بیان حلفی کی وِڈیو جاری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ایک سچے اور پکے مسلمان ہیں۔ بہت سارے حکومتی اراکین فیض آباد آپریشن پر اپنی حکومت اور پارٹی قیادت سے نالاں ہیں۔ کیوں کہ حکومتی اراکین کو اپنی اور اہل و عیال کی زندگیوں کو مذہبی ٹھیکیداروں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس لیے سب خاموش ہیں۔

عمران خان صاحب حکومتی نا اہلی اور وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا مشورے دے کر جلد انتخابات کروانے کے لیے 34 ٹویٹ کر چکے ہیں۔ دھرنا ختم ہونے پر تحریک انصاف کے شفقت محمود صاحب اس قدم کو خوش آیند تو دیکھ رہے ہیں مگر ابھی بھی ان کو حکومت سے سازش کی بو آرہی ہے۔

پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ نون کا ساتھ دینے کے علاوہ وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے ساتھ ہیں۔ مگر دیگر سیاسی پارٹیاں اس موقع اور وقت کی نزاکت کو مد نظر رکھ کر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ آخر کار خدائی خدمت گار کے تعاون سے حکومت کو معاہدے سے نجات مل گئی ہے۔ حکومت کے پاس جواز تو موجود ہے کہ پہلے بھی تو اسی طرز کے معاہدے ہوتے رہے ہیں، جب صوفی محمد کا نظام عدل قائم کیا گیا تھا۔ عوامی نشینل پارٹی کی خیبرپختونخواہ حکومت اور پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے سر خم کیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی تو نظام مصطفیٰ کی تحریک کا آغاز کچھ اس طرح ہی ہوا تھا۔ یہاں تو مساجد میں لاؤڈ اسیپکر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے، چاہے وہ روس کے خلاف افغان جنگ کا موقع ہو یا پھر سیاسی حکومتوں کے خاتمے کے لیے مذہبی رہنماؤں کی گٹھ جوڑ۔ اس میں نیا کیا ہے۔ یہ تو و ہی پرانا مسئلہ ہے جس کے بارے میں قائد اعظم نے کہا تھا۔

”آپ آزاد ہیں، آپ آزادی کے ساتھ اس ریاست پاکستان میں، اپنے مندروں، اپنی مسجدوں یا دیگر عبادت گاہوں میں جا سکتے ہیں۔ آپ کا تعلق خواہ کسی مذہب، فرقے یا عقیدے سے ہو اس کا ریاست سے قطعی کوئی تعلق نہیں۔ ہمارا بنیادی اصول یہ ہوگا کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں، مساوی شہری“۔

اس کے علاوہ جناح نے 1948ء میں امریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں مذہب کے نام پر حکومت کرنے کا اختیار ہوگا“۔ مگر افسوس کے ستر سال گزرنے اور تلخ تجربے کرنے کے باوجود ابھی بھی قائد کے تصور ریاست، مذہب اور سیاست کو سمجھنے سے ہم قاصر ہیں۔

دیکھا جائے تو مذہب کا اصل کام انسان کی روحانی و اخلاقی تربیت کرنا ہے اور سیاست کے ساتھ اس کا اشتراک اسی شرط پر قابل قبول ہے کہ سیاست کو مذہب کی روحانی قدروں اور اخلاقیات کے درس کی خوبصورتیوں سے مزین کیا جائے، ناکہ معاشرے کو اس سطح تک پہنچا دیا جائے کہ مذہبی ٹھیکیدار مذہب کے نام پر طاقت کے آلہ کار بن کر تشدد و انتشار کا راستہ اختیار کر کے ملک اور عوام کو مفلوج و یرغمال بنا کر رکھ لیں۔ جس روش کی بنیاد فیض آباد دھرنے میں دکھائی دی۔ اس لیے ہمیں روشن خیال اور اعتدال پسندانہ سوچ پر عمل کرکے مذہب کے نام پر تشدد، انتشار، تصادم اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کا راستہ دلیل اور منطق سے روکنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).