کیا ہم بھی آخر کار روشن دن دیکھیں گے؟


عامر خان کی سیکرٹ سپر سٹارکو بہت سے لوگوں نے دیکھا۔ بہت سے لوگوں نے ان کے دیے گئے پیغام سے اتفاق کیا، فلم کو سراہا، اس کے بارے میں لکھا، اپنے ذہنوں میں ہی ہمارے معاشرے میں اس کا اطلاق کر کے سوچا۔ دوسرے لفظوں میں اس فلم نے بہت سے لوگوں پر اثر کیا اور بہت سے ذہنوں کو جھنجوڑا۔ مجھے ساری باتوں سے اتفاق ہونے کا ساتھ ساتھ ایک بات جو اچھی لگی وہ یہ تھی کہ اس فلم نے اعصابوں کو جھنجوڑا مگر جھنجھنایا نہیں، ہر برائی کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتی ہوئی اچھائی دکھائی گئی۔ جب ایک سین میں باپ نے ماں کو مارا اور اعصاب چٹخنے لگے تو اگلا سین نئے بچوں کے بیچ بنتے ابھرتے خوبصورت تعلق کا تھا۔ اگر موسیقار کا کردار ایسا بنایا گیا کہ وہ خواتین سے فلرٹ کرتا ہے تو ساتھ ہی میں اسے ایک ٹین ایجر بچی کے احترام کا بھی علم تھا۔ اس فلم میں وہ اچھائی بھی دکھائی گئی جو امید کے لئے، کوئی جذبہ قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔

دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی امریکہ کا ہال مارک چینل کرسمس کی فلمیں دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ فلم کی عمومی کہانی میں دو مرکزی کردار ہوتے ہیں، کبھی بچوں کے سنگل والدین تو کبھی سٹور چلاتی لڑکی، کبھی ایک محنت کرتا مصور تو کبھی ایک بیکری کو کامیاب بنانے کی کوشش میں ہلکان خاتون۔ مرکزی کرداروں میں سے ایک شروع میں کسی مسئلے یا کوشش میں ہوتا ہے اور فلم کے اختتام تک اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاتا ہے اور مسئلے سے نکل آتا ہے۔ ہر فلم میں اچھائی کی جیت ہو جاتی ہے، برائی کی ہار اور آخر میں ایک انتہائی اچھا اختتام کہ جس میں رومانوی جوڑا ہنسی خوشی رہنے لگتا ہے۔

میرے بچوں کو دا لائن کنگ کی کہانی بہت پسند ہے۔ اکثر لگا کر دیکھتے ہیں فلم کے درمیان میں ہر طرف ویرانی راج کرتی ہے تو دل ڈوب جاتا ہےطمگر جب سکار کا برا انجام ہوتا ہے تو بچوں کو تو خوشی ہوتی ہی ہے، مجھے بھی ہر مرتبہ دیکھنے پر یک گونہ اطمینان محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح کیپٹن امریکہ ہو یا کوئی اور سپر ہیرو کی کہانی۔ ہر فلم کے اختتام میں اچھائی ہی جیتتی ہے۔

میرے جاننے والوں میں بہت سے لوگ پڑھے لکھے، باشعور اور حساس ہیں مگر ان پڑھے لکھے حساس اور باشعور لوگوں میں سے زیادہ تر لوگ اب بیرون ملک یا تو جا چکے ہیں یا جانے کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اب ایک اندھیر نگری بن چکا ہے۔ کسی بھی بیرون ملک پاکستانی کو پوچھ لو تو وہ ایک سانس میں گنوا دیتا ہے کہ وہ پاکستان سے باہر کیوں خوش ہے اور کیوں شکر گزار ہے کہ وہ اب پاکستان میں نہیں رہ رہا۔

میری ایک دوست نے مجھے پوچھا کہ تمہارے میاں کی تو تعلیم بھی امریکہ سے ہے اور انہیں وہاں پر کام کا تجربہ بھی حاصل ہے۔ چلو واپس تو آ گئے تھے وہ، مگر پاکستان چھوڑ کر دوبارہ کیوں نہیں چلے جاتے تم لوگ؟ تم اپنے میاں سے کیوں نہیں کہتی کہ باہر منتقل ہونے کی کوشش کریں؟
میں نے پوری سنجیدگی سےاس سوال کا جواب سوچا، بہت سوچا اور مجھے تو بس یہی سمجھ آئی کہ میں فلمی کہانیوں سے بہت متاثر ہوں۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim