امریکہ مہان ہے


پاکستان میں روزانہ کوئی نہ کوئی بہت اطمینان سے کہیں بھی اور کسی کے بھی سامنے بیٹھ کر کہہ دیتا ہے کہ بھائی صرف قوانین بنانے سے کچھ نہیں ہوتا، ان پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ جب تک معاشرے میں مساوی انصاف نہیں ہوگا تب تک معاشرہ سدھر نہیں سکتا۔ مسائل کی بنیادی جڑ یہ ہے کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر نہیں۔ ریاست کفر پہ تو زندہ رہ سکتی ہے نا انصافی پر نہیں۔ مغرب میں لاکھ خرابیاں سہی، کم ازکم انصاف تو ہے، کسی نہ کسی سطح پر دادرسی تو ہے، دڑم بڑم بلا بلا بلا بل بل بلل۔

دفع کریں تیسری دنیا کے کمینے، ظالمانہ، ذلیل نظام ہائے حیات و ریاست کو۔ آج ہم بات کریں گے لینڈ آف اپرچونٹیز کی۔ ہم سب کے خوابوں میں بسے امریکہ کی۔ اسٹیچو آف لبرٹی کے سائے تلے بسنے والی خوش قسمت آبادی کی۔ دنیا کی سب سے طاقتور، جمہوری آزادیوں کی مرکز ریاست کی کہ جس کے آئین میں انسان کے بلا رنگ و مذہب و ملت و نسل جو بنیادی حقوق تسلیمکیے گئے ان میں خوشی کی تلاش ( پرسوٹ آف ہیپی نیس ) بھی شامل ہے۔

عجب ملک ہے یہ امریکہ بھی۔ یہاں ایک سیاہ فام کا صدر بننا بھی ممکن ہے اور سیاہ فاموں کی اجتماعی زندگی کا اجیرن ہونا بھی ممکن۔ وہ ملک جو پوری دنیا کو آزاد اور خوش و خرم دیکھنا چاہتا ہے، اس کے چار ہزار پانچ سو پچھتر سرکاری اور سینکڑوں دیگر پرائیویٹ ( اوپن اینڈ کلوز ) قید خانوں میں تیئیس لاکھ کے لگ بھگ قیدی بھرے پڑے ہیں۔ بھرے پڑے یوں کہ ہر جیل میں نئے قیدیوں کے لئے محض ایک فیصد کی گنجائش باقی ہے۔

ان اعداد و شمار کا مطلب کیا ہوا؟ مطلب یہ ہوا کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ جیلیں امریکہ میں ہیں۔ (دوسرے نمبر پر روس ہے لیکن وہاں آج بھی صرف ایک ہزار انتیس جیلیں ہیں یعنی امریکہ سے چار گنا کم اور تیسرے نمبر پر چین ہے )۔ ہر ایک لاکھ امریکیوں میں سے سات سو سات جیل میں ہیں۔ (سیشلز کے بعد امریکہ فی لاکھ آبادی میں قیدیوں کی اوسط کے اعتبار سے دوسرا بڑا گنجان ملک ہے )۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاستہائے متحدہ کی سرزمین پر دنیا کی پانچ فیصد آبادی بستی ہے لیکن دنیا کے پچیس فیصد کے لگ بھگ قیدی صرف امریکی جیلوں میں ہیں۔ جیلوں کے اس نظام کو چلانے پر سالانہ تقریباً ساٹھ ارب ڈالر کے اخراجات ہیں۔

ساٹھ فیصد قیدی منشیات سے متعلق چھوٹے موٹے جرائم کی پاداش میں جیل میں پڑے ہیں۔ مگر جتنے بھی قیدی امریکی جیلوں میں ہیں ان میں سے چالیس فیصد سیاہ فام ہیں جبکہ سیاہ فام آبادی امریکہ کی کل آبادی کا محض تیرہ فیصد ہے۔ جیلوں میں دوسری بڑی تعداد ہسپانوی نژاد امریکیوں اور دیگر رنگ داروں کی ہے۔ اور سب سے کم سفید فام قیدی ہیں۔ اس ریاضی کو مزید آسان کر لیتے ہیں۔ اس وقت ہر پندھرواں قیدی کالا، ہر چھتیسواں قیدی ہسپانوی نژاد اور ہر ایک سو چھٹا قیدی سفید فام ہے۔ اس ریاضی کو مزید آسان کرلیتے ہیں۔ امریکی محکمہ انصاف کے ایک اہل کار کے مطابق ہر تیسرے امریکی سیاہ فام کو خدشہ رہتا ہے کہ وہ زندگی میں ایک بار حوالات کی ہوا ضرور کھائے گا۔

سوال یہ ہے کہ سیاہ فام اور ہسپانوی جو کل امریکی آبادی کا تقریباً انتیس فیصد بنتے ہیں، وہ جیلوں کی آبادی کا ستر فیصد سے زائد کیسے بن گئے؟

امریکہ میں فی کس اوسط آمدنی تریپن ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ معیارِ زندگی کے اعتبار سے امریکہ دنیا میں پانچواں اچھا ملک سمجھا جاتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ آمدنی و معیارِ زندگی کے فرق کے اعتبار سے امریکہ، چلی، میکسیکو اور ترکی کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا غیر مساوی ملک بھی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ 2008ء کی کساد بازاری کے بعد جب معیشت بحال ہونی شروع ہوئی تو اگلے تین برس کے دوران معاشی بحالی کے پچانوے فیصد فوائد صرف ایک فیصد آبادی نے سمیٹے۔ اس ایک فیصد کی آمدنی میں تیس فیصد اور باقی ننانوے فیصد کی آبادی میں اعشاریہ چار فیصد اضافہ ہوا۔

امریکہ میں اوسط خاندانی یونٹ چار نفوس ( میاں بیوی اور دو بچے ) پر مشتمل ہے۔ سرکاری طور پر اس خاندان کو غریب تصور کیا جاتا ہے جس کی اوسط سالانہ آمدنی چوبیس ہزار ڈالر سے کم ہو۔ اس اعتبار سے امریکہ کی پندرہ فیصد آبادی غربت میں ہے۔ (یہ شرح گذشتہ باون برسوں میں سب سے زیادہ ہے )۔ ان غریبوں میں سے بھی تقریباً چالیس فیصد وہ غریب ہیں کہ جن کے چار رکنی خاندان کی اوسط سالانہ آمدنی دس ہزار ڈالر سے کچھ اوپر ہے۔ امریکی آبادی کا سولہ فیصد ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کے پاس کسی بھی قسم کی میڈیکل انشورنس نہیں (امریکہ میں کسی کے پاس میڈیکل انشورنس نہ ہونے کا مطلب کیا ہے؟ آپ کسی بھی پاکستانی یا ہندوستانی نژاد امریکی کو پکڑ کے پوچھ سکتے ہیں۔ )

یعنی امریکی غربت کی آسان فارسی یہ ہے کہ ساڑھے چار کروڑ امریکی قومی معیارِ غربت کے احاطے میں آتے ہیں اور ان میں سے سوا دو کروڑ کے لگ بھگ انتہائی کنگلوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان سب غریبوں کی اگر نسلی تقسیم کی جائے تو ساٹھ فیصد غریب یا تو کالے ملیں گے یا ہسپانوی ( یہ اس ملک کی بات ہو رہی ہے جس میں دنیا کے پچیس فیصد ارب پتی بھی بستے ہیں )۔

کیا یہ ہسپانوی اور کالے کام چور ہیں، جرائم پیشہ ہیں، دوسروں کی خیرات پر پلنے کے عادی ہیں؟ شاید نہیں۔ کیا آپ معروف امریکی سینیٹر ریورن جیسی جیکسن کو جانتے ہیں۔ ( وہی جیسی جیکسن جو 1980ء کے عشرے میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی دوڑ میں ایک مضبوط امیدوار تھے مگر انہیں ٹکٹ نہ مل سکا۔ ) سینیٹر جیکسن کا شمار ان سیاہ فام امریکی سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کی عزت پورا امریکہ کرتا ہے۔ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی کنونشن میں یہ واقعہ سنایا۔

ابھی جب میں اس عمارت میں داخل ہوا اور لفٹ میں سوار ہوا تو لفٹ میں ایک سفید فام معزز خاتون بھی تھیں۔ انہوں نے میری رنگت دیکھتے ہی لا شعوری طور پر اپنا پرس پیچھے کرلیا۔
ان دنوں امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں دو سیاہ فاموں کی ہلاکت اور اس کے بعد جیوری کی جانب سے ایک پولیس افسر کو بریکیے جانے کے بعد امریکہ بھر میں شہری حقوق کے حامی مظاہرے کررہے ہیں۔

امریکی پولیس میں نسلی تناسب ایک مسلسل قومی بحث ہے۔ صرف پچیس فیصد پولیس والے غیر سفید فام ہیں۔ بقول جون ایلیا پولیس بھلے امریکہ کی ہو مگر ہوتی پنجابی ہی ہے۔

چلتے چلتے ایک اور بات۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دار معیشت ہے اور دنیا کا سب سے مقروض ملک بھی۔ تادمِ تحریر امریکہ کا قومی قرضہ ایک سو سڑسٹھ کھرب ستاسی ارب پینتالیس کروڑ گیارہ لاکھ اٹھارہ ہزار ایک سو پینتالیس ڈالر ہے۔ اللہ جانے یہ قرضہ کیوں ہے اور کہاں خرچ ہو جاتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).