پاکستان کا خدا ہی حافظ


ایک دن کچھ دوستوں کے ساتھ سیاسی، مذہبی اور سماجی تناظر میں پاکستان کے حالات پر تبادلہ خیال ہو رہا تھا، کہ ایک دوست نے اچانک میرے طرف دیکھ کر مجھ سے پوچھا ”تو کیا تم مایوس ہو؟ “ برجستہ میرے منہ سے جو جواب نکلا وہ تھا ”ہاں جی، مکمل طور پر“۔ مجھے معلوم ہے مایوسی کفر ہے، مجھے معلوم ہے کہ حالات کی وجہ سے ہتھیار ڈال دینا بزدلی ہے، مجھے معلوم ہے کہ قوموں کے مزاج میں تبدیلی یک دم نہیں آتی۔ مگر مایوسی کے خاتمے کے لئے سرنگ کے آخر میں کوئی ہلکی سی کرن، تاریکیوں سے بھری اندھیری رات میں کوئی ٹمٹماتادیا، ڈوبتی ہوئی نبض میں کوئی ہلکی سی دھڑکن کی ارتعاش، کچھ تو ہو، کوئی موہوم سی امید، کوئی زندگی کی رمق۔ دن گزرتے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ امیدوں کے بت پاش پاش ہوکر مایوسی کی دلدل میں دھکیلتے جاتے ہیں۔

ہم لمبی چوڑی تاریخ کی بات نہیں کریں گے کہ غم زیادہ ہیں اور خوشیاں کم، ہم صرف تازہ ترین کچھ واقعات کی بات کریں گے۔ پہاڑوں جیسی بہتری کی امید تو پہلے بھی نہیں تھی، مگر اکھڑی سانسوں جیسی ہچکی نما امیدوں پر بھی جس طرح موت کا سایہ پڑا ہے، دل بجھ ہی تو گیا ہے۔ فیض نے کہا تھا کہ

دل نا امید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی توہے

مگر جس کرن کی امید کے سہارے ہم نے یہ کٹھن شام گزارنی تھی اس کا حال ہمیں غالب بتا چکے کہ
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے

ایک لڑکے سے بدلہ لینے کے لئے، بدلہ لینے کی جو مرضی وجہ ہو ہم ابھی اس میں نہیں پڑتے، کچھ غنڈوں نے اس لڑکے کی بہن کو سر بازار برہنہ گھمایا۔ غنڈوں سے کیا گلہ، حکومت سے کچھ خاص امید نہیں، مگر وہ لوگ جو وہاں کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے کیا وہ صرف اس لئے چپ کھڑے رہے کہ وہ ان کی بیٹی نہیں تھی۔ اگر وہ خدانخواستہ ان کی بیٹی ہوتی تو وہ اسی بے حسی سے بت بنے کھڑا رہتے؟ ذرا ایک لمحے کو سوچیں کہ جو لڑکی سر پر چادر کے بغیر گھر سے نہ نکلتی ہو، اس کو جب آپ بازاروں میں برہنہ گھمائیں گے تو وہ اپنے میں اتنی ہمت کیسے جمع کر پائے گی کہ ان سب نگاہوں کا سامنا کرے جو اس کو برہنہ دیکھ کر چپ ہو رہے، جبکہ اس کا کوئی قصور بھی نہیں تھا، اور کوئی ہوتا بھی تو یہ سزا تو بہرحال نہیں تھی۔ عوام الناس کی اس بے حسی کے بعد بھی کوئی امید بچتی ہے کہ ہم کبھی ان ذلتوں سے نکل پائیں گے؟

اب ذرا آگے چلتے ہیں۔ آپ ہزار دو ہزار بندوں کو ساتھ لیں، اپنے مطالبات پر مذہب کا رنگ چڑھائیں، کسی بھی بڑی سڑک پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں، ریاست آپ کے سامنے ایسے گھٹنے ٹیک دے گی جیسے ریاست آپ چلا رہے ہیں۔ آپ ایمبولینس کو نہ جانے دیں، آپ موٹر سائیکلوں والوں کو ماریں اور دھمکائیں، آپ پولیس والوں پر بہیمانہ تشدد کریں، آپ گاڑیوں، پٹرول پمپوں اور دکانوں کو آگ لگا دیں، آپ لوگوں کے گھروں پر پتھراؤ کریں، دیواریں پھاند کر ان کی چار دیواری کا تقدس پامال کریں، اپنی تقاریر میں ہر ایک کو غلیظ گالیاں دیں اور پھر اس کی سند صحابہ کے شاذ اقوال سے لیں، یہ سب کر لیں اور پھر ہمارے عوام الناس بڑے آرام سے اپنے صوفے پر بیٹھے فرماتے ہیں کہ بات تو ٹھیک کر رہا ہے صرف طریقہ کار غلط ہے۔ جب آپ ظلم و بربریت کو ’بات تو ٹھیک کر رہا ہے‘ کے لبادے میں چھپائیں گے تو ’طریقہ کار غلط ہے‘ کہنے سے آپ کا ظالم کے ساتھ ہونے کا اثر قطعاً زائل نہیں ہوگا۔ ان حالات کے پیش نظر دیکھیں کہ کس طرح وزراء اپنے اپنے عقیدے کی ویڈیوز بنا بنا کر ان مذہبی لوگوں کو یقین دلا رہے ہیں، کچھ منظر سے ہی غائب ہو گئے ہیں، کچھ کو دوبارہ سے کلمہ پڑھنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ان سب حالات کے بعد خاص کر ریاست کے گھٹنے ٹیک دینے کے بعد مجھے تو کم از کم پاکستان میں حالات کی بہتری پر کوئی امید نہیں نظر آ رہی۔

ایک قدم اور آگے بڑھیں۔ آپ اپنی بہنوں کے ساتھ جا رہے ہیں، راستے میں کچھ اوباش آپ کی بہنوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں، آپ کا ان سے جھگڑا ہو جاتا ہے اور وہ آپ جیسے خوبصورت جوان کو گولی مار دیتے ہیں۔ جب آپ کا خون زمین میں جذب ہو رہا ہوتا ہے تب ہی ساتھ ساتھ آپ کے لئے ہمارا انصاف بھی کہیں دور تحت الثری میں گر چکا ہوتا ہے۔ آپ کو گولی مارنے والے امیر وڈیرے ہیں جن کے سیاستدانوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ آپ کے گھر والوں کو دباؤ اور دھمکی کے ذریعے دیت دے کر چپ کر ا دیا جاتا ہے اور وہ کہیں باہر چلے جاتے ہیں۔ دہشتگردی کے دفعات ہونے کے باوجود، سب کے سامنے گولی مارے جانے کے باوجود، سب ثبوتوں اور گواہان کے باوجود جن کی وجہ سے آپ کے قاتلوں کو موت کی سزا ہوئی تھی، سندھ ہائی کورٹ فیصلہ کالعدم قرار دے دیتی ہے۔ اب آپ اپنی قبر میں لوٹتے رہیں، انصاف کی دہائی دیتے رہیں، اپنے زخموں کے نشان دکھاتے رہیں، کسی نے کچھ نہیں سننا کیونکہ آپ مر چکے ہیں۔ اور ہم سب بھی مر چکے ہیں۔

اور مرنے والوں کو دفنایا جاتا ہے، ان کی زندگی کی دعا نہیں کی جاتی۔ ہم نے تو اپنی امیدیں اب دفنا دی ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).