حامد میر کا سازشی کالم


حامد میر صاحب کے طرز فکر میں کئی جھول ہیں۔ چونکہ وہ آزادی اظہار کے مسئلہ پر نامعلوم افراد سے گولیاں بھی وصول کر چکے ہیں اس لئے ان کو داد بھی دینی پڑتی ہے۔ لیکن ان کی تنگ نظری اور تعصب کو روکنا بھی ضروری ہے۔ ماضی قریب میں ان کی ایک ایسی ہی بے احتیاطی کی وجہ سے ایک صاحب کو قادیانی ہونے کے شبہ پر ان کے طالبان دوستوں نے مار ڈالا تھا۔ وہ آڈیو ٹیپ ان کو بھولی نہیں ہو گی۔

اپنے حالیہ کالم میں انہوں نے اپنے اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے احمدی دشمنی کی کمی پوری کی ہے۔ سارا ملک ان مولویوں کو کوس رہا ہے جنہوں نے ختم نبوت کے نام پر اپنی اصلیت دنیا کو دکھا دی۔ میر صاحب کو وہم ہے کہ کہیں اس شور شرابے میں کوئی احمدیوں کے عقیدہ کی منصفانہ چھان بین نہ شروع کر دے۔

میر صاحب کے مطابق بھٹو کی پارلیمنٹ کے نامی گرامی بزرگ سیاستدان آئین کی دوسری ترمیم کے معاملے میں پیش پیش تھے۔ ان میں ایک معتبر نام ملک محمد جعفر صاحب کا بھی ہے۔ ملک صاحب وزیر ثقافت تھے۔ میر صاحب کے مطابق سوشلسٹ تھے اور اس لیبل کے حامل ہو کر ختم نبوت کے متعلق ان کی رائے شائد کوئی اضافی وقعت رکھتی ہے۔ سوشلسٹ ہوتے یا کیپٹلسٹ، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ان باتوں میں کیا ربط پایا جاتا ہے۔

پھر میر صاحب ملک جعفر کی جماعت احمدیہ سے وابستگی پر توجہ دلاتے ہیں۔ ان کے مطابق ملک جعفر نے جماعت احمدیہ کو ترک کر دیا تھا۔ اور اس سلسلہ میں وہ آئی اے رحمان کا ایک تعریفی حوالہ بھی نقل کرتے ہیں کہ موصوف نے آزادئ اظہار کی خاطر عقیدہ کو قربان کیا۔ اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ایمان ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ جو چاہے مانے، جو چاہے نہ مانے۔ نہ اس پر کوئی تعذیر ہے اور نہ کوئی طعن۔

میر صاحب کا اصل وار دراصل ملک جعفر صاحب کی تعریفوں کی اوٹ میں چھپا ہوا ہے۔ کالم تو ہے ہی بے ربط لیکن جماعت احمدیہ سے عداوت کا ارادہ تھا۔ جس بہانے سے ہو جائے۔ اسرائیل سے احمدیوں کے تعلق کے الزامات آج کی بات نہیں۔ جب عرب اسرائیل تنازعہ ستر کی دہائی میں اپنے عروج پر تھا، تبھی سے جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی ٹھیکیداروں نے احمدیوں کے خلاف یہ جھوٹا پراپیگینڈا شروع کر دیا تھا کہ اسرائیل میں چھ سو پاکستانی احمدی فوج میں بھرتی ہیں۔ ربوہ اور تل ابیب میں خفیہ روابط ہیں اور احمدی دراصل صیہونی سازش کے تحت پاکستان کو کمزور کر رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ چھ سو کی تعداد اب بھی نہیں بدلی۔ چالیس سال بعد بھی اگر احمدی مخالف پراپیگینڈے کو دیکھیں تو اب بھی اسرائیلی فوج میں چھ سو احمدی شامل نظر آتے ہیں۔ حقیقت میں تو ایک احمدی بھی اسرائیل کی فوج میں کبھی شامل نہیں رہا۔

اصل حوالہ کسی غیر معروف سی کتاب میں کچھ یوں تھا کہ اسرائیل میں عرب مسلمانوں کی تعداد بیان کی گئی تھی، جن میں چھ سو کے قریب احمدی تھے۔ یہ احمدی اس دور کے فلسطین میں آباد ہیں جب اسرائیل کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اور اپنے ساتھ لاکھوں عرب ملسمانوں اور مسیحیوں کی طرح موجودہ ریاست اسرائیل میں رہتے ہیں۔

جماعت احمدیہ کا موقف ریاست اسرائیل کے بارے میں شروع ہی سے واضح رہا ہے۔ فلسطینی عرب جب اپنی زمین اونے پونے داموں یہودی آباد کاروں کو فروخت کر رہے تھے، امام جماعت احمدیہ نے ان کو منع کیا۔ جب قضیہ اقوام متحدہ میں پیش ہوا تو سر ظفراللہ خان نے فلسطینی حقوق کے لئے امریکہ، برطانیہ اور روس کے سامنے دلائل کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ جب فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ ہوا تو انہیں نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کا نہیں، امریکا اور روس کا فیصلہ ہے۔ عرب رہنماؤں نے ان کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے۔ اور اخباروں میں ایسا تذکرہ ہوا کہ عربوں نے اپنے بچوں کے نام ظفراللہ رکھنے شروع کر دئیے۔

جہاں تک قومی اسمبلی کی کارروائی کی رپورٹ کا تعلق ہے، اس کا تفصیلی ریویو پھر کبھی پیش کیا جائے۔ حامد میر صاحب نے ملک جعفر صاحب کے بیان کو روایت کر دیا ہےجو انہوں نے احمدی وفد کی غیر موجودگی میں اسمبلی میں پڑھا ۔ ملک صاحب نے تو تکا مارا تھا کہ جماعت احمدیہ اور اسرائیل کے درمیان روابط کی تحقیقات کروائی جائیں۔ یہ وہ شخص کہہ رہا ہے جو میر صاحب کے نزدیک گھر کا بھیدی ہے۔ اگر ایسا ہی قابل اعتبار بھیدی ہوتا تو وثوق سے کہہ دیتا کہ ایسے روابط موجود ہیں۔

امام جماعت احمدیہ نے قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہو کر تمام الزامات کے جواب دیئے ۔ یحییٰ بختیار صاحب نے تقریبا چار سو سوال پوچھے ہوں گے۔ ان میں سے ختم نبوت کے متعلق اکا دکا ہی سوال ہوگا، وہ بھی ضمنی طور پر پوچھا گیا۔ اس موضوع پر جماعت کا موقف ویسے بھی محضرنامے میں پیش کیا جا چکا تھا اور علماء پر مشتمل سوالات کی کمیٹی کو ختم نبوت پر بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ہاں جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی بھرمار کی گئی تاکہ اراکین اسمبلی کو احمدیوں سے بد ظن کیا جا سکے۔

حامد میر صاحب نے بھی کچھ ایسا ہی سوچ کر یہ کالم لکھا ہے۔ اسرائیل سے روابط کے متعلق سوال 20 اگست نہیں، 21 اگست کو کیا گیا تھا۔ اور اٹارنی جنرل گویا ثابت کرنا چاہتے تھے کہ جماعت کے اسرائیلی حکومت سے تعلقات ہیں۔ چودھری شریف صاحب سن 1938 سے 1956ء تک کبابیر (Kababir) میں امام رہے اور اس پر آشوب عرصہ میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کیا۔ ان کی کارکرگی پر ایک احمدی جریدے نے لکھا ‘یاد رہے کہ یہ سارا تحریری کام ان حالات میں کیا گیا ہے کہ فلسطین میں کشت و خون جاری تھا اور فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اور اسرائیل کی سلطنت کو معرض وجود میں لا کرعربوں پر ایک ناگہانی مصیبت نازل کر دی گئی تھی۔۔۔ ان ہولناک ایام میں مولانا محمد شریف صاحب کبابیر کے اسرائیل میں آ جانے کے باوجود اپنا فرض باحسن وجوہ پورا کرتے رہے۔ اور ہر ممکن موقع پر اسلام کا پیغام پہنچاتے رہے۔‘ (ماہنامہ الفرقان، ربوہ۔ فروری 1956ء) چودھری شریف جو پاکستانی شہریت نہیں رکھتے تھے، اسرائیلی صدرکے بلانے پر ان سے ملے اور قران کا تحفہ پیش کیا۔ اس کا ذکر جماعت کی سالانہ رپورٹ میں کیا گیا جسے ایک انکشاف کے طور پر اخبارات میں خوب اچھالا گیا۔

اس کے جواب میں امام جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ اسرائیل کی تمام مسلمان تنظیموں کے ساتھ حکومت کا رویہ ایک ہی جیسا ہے۔ اٹارنی جنرل دراصل سنسنی خیز الزام لگانا چاہتے تھے۔ لیکن امام جماعت احمدیہ نے ان کی امیدوں پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا کہ ان کو افریقہ کے دورے کے دوران اسرائیلی سفیر نے ملنے کی درخواست کی تھی جسے انہوں نے رد کر دیا ۔ یہاں پر یحییٰ بختیار صاحب نے پینترا بدلا اور اکھنڈ بھارت کا الزام سامنے رکھ دیا۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ ان دنوں بھی تبلیغی جماعت کے وفود باقاعدگی سے اسرائیل جاتے ہیں اور وہاں کے عرب مسلمانوں میں کچھ اسرائیل کی فوج میں بھی ہیں اور پارلیمنٹ کے ممبر بھی۔ فلسطینی احمدی البتہ فوج میں شامل نہیں ہوتے اور نہ ہی اسرائیلی سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں۔

اب ذرا بات ہو جائے ملک جعفر صاحب کی۔ بقول میر صاحب ان کی کتاب کو مجلس تحفظ ختم نبوت والوں نے بڑے شوق سے اپنی ویب سائٹ پر عامتہ الناس کے فائدے کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔ لیکن جو کارنامہ جعفر صاحب نے آئین کی ترمیم لکھتے ہوئے دکھایا اس کی بھی وضاحت ضروری ہے۔ مجلس ختم نبوت والے اگرچہ ان کی اس کتاب کو جماعت احمدیہ کے خلاف ایک عمدہ ہتھیار سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک صاحب نے اپنے ایسے خیالات کا اظہار اس کتاب میں کیا ہے جو پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت کو قبول نہیں۔ موصوف پرویزی (طلوع اسلام) کے مکتبہ فکر سے وابستہ رہے ہیں جن کے خلاف ختم نبوت والے کیا اور دیگر فرقے کیا، سبھی نے کفر و الحاد کے ہزارہا فتوے لگا رکھے ہیں۔ ماہنامہ لولاک کے مدیر نے فروری 1976 میں لکھا کہ “(ملک جعفر) نہ مرزائی ہیں، نہ مسلمان، بلکہ وہ دہریہ ہیں‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).