لبرل لوگ، ویت نام جنگ، داعش اور عمران خان


امریکہ میں پیدا ہونے والے جیکسن پولاک کے فن پاروں میں نہ فریڈرک ایڈون کے سرمئی شاموں کی اداسی جھلکتی ہے اور نہ ایڈورڈ منچ کی چیخ سنائی دیتی تھی۔ جیکسن پولاک کے ہاتھ میں ہنر کا ایک اور دریا تھا۔ ان کے فن پارے فطرت کے مادی مظاہر سے بے نیاز ہیںمگر ان میں دریا کی روانی جیسی مٹھاس اور سرمئی شام کی اداسی در آتی ہے۔ چہروں سے بے نیاز ان فن پاروں میں دیکھنے والی آنکھ کو آنسو اور سننے والے کان کو بے شمار چیخیں سنائی دے سکتی ہیں۔ جیکسن پولاک زمین پر کینوس بچھاتا۔ اس پر عام رنگوں کو پھینکتا جاتا اور کسی لمحے رک جاتا۔ یہ لمحہ وصل کی گھڑی جیساپرکیف ہو سکتا تھا، یہ لمحہ سانس کی ڈوری ٹوٹنے جیسا درد ناک ہو سکتا تھا، ایسے ہی کسی لمحے میں پولاک کو احساس ہوتا کہ تصویر مکمل ہو گئی ہے۔ پولاک کی ہر تصویر کا اختتام ایک سوال کو جنم دیتا ہے۔ ایک سوال جو شایدسقراط کے پیالے پر درج ہے۔ ایسا سوال جوفرہاد کے تیشے سے نکلتا ہے۔ یا پھر شاید ایک ایسی سوالیہ چیخ ہے جو جمعدار ہرنام سنگھ کی گولی کے بعد ٹیٹوال کے کتے کی منہ سے نکلی تھی۔

 پولاک کے فن پاروں سے پہلی شناسائی نانا جی نے کرائی تھی۔بہت بچپن کے دن تھے۔ اس زمانے میں نہ abstract کی سمجھ تھی اور نہ expressionism باطن نگاری پلے پڑتی تھی۔ میں کہتا نانا جی ، ایسی تصویر تو کوئی بھی بنا سکتا ہے۔ نانا جی دھیرے سے مسکرا کر کہتے ، ہاں بنا تو ہر کوئی سکتا ہے مگر اس میں پوچھے گئے سوالات کا جواب کوئی نہیں دیتا۔ میں حیرت سے تصویر کو دیکھتا، مجھے اس میں کوئی سوال نظر نہیں آتا۔ نانا جی ، اس میں سوال کہاں ہے؟ نانا جی کہتے، تورو! جب تم بڑے ہو جاﺅ تو پولاک کی ڈھیر سارے فن پارے اکھٹے کرنا، ہر فن پارے پر ایک بڑا سا سوالیہ نشان بنانا اور پھر اس میں سوال تلاش کرنا، تمہیں بہت سارے سوالات مل جائیں گے۔ کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے میں ہوں کرتا۔ نانا جی کہتے، کہانی سنو گے؟ میں خوشی سے نہال ہو جاتا۔

نانا جی کہانیاں بنتے تھے۔ ہر کہانی سے پہلے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آپ کسی بے آب و گیاہ میدان میں کھڑے ہیں۔ کہانی کے اختتام پر بنجرمیدان میں سینکڑوں رنگوں کے ہزاروںپھول کھل اٹھتے جہاں لاکھوںتتلیاں رقص کرتیں۔ کبھی کبھی مگر یوں محسوس ہوتا جیسے آرائش چمن پر جاڑے کی سرد ہوائیں حملہ آور ہوئی ہوں۔ تتلیاں مر جاتیں۔ پھول مرجھا جاتے۔ زمین بے آب گیاہ میدان بن جاتی اورنانا جی کہانی ادھوری چھوڑ دیتے۔

اٹھائیس سالہ جیک ٹیکساس میں فوج کی ایک ٹیلی فون کمپنی میں انجینئر تھا۔ اپنے دو کمروں کے گھر میں اپنی بیوی ایملی اور اپنی چھ سالہ خوبصورت بیٹی اولیویا کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا۔ہر صبح جب جیک اپنے کام کے لئے نکلتا تو سکول کے لئے تیار ہوتی اولیویا کو ماتھے پر ضرور چومتا تھا۔ بدلے میں اولیویا اسے گال پر چوم لیتی۔ باپ بیٹی کے لئے یہ ایک ایسا معاہدہ بن چکا تھا کہ کوئی بھی اسے توڑ نہیں سکتا تھا۔ پھر جنگ چھڑ گئی۔ جیک کا کام بڑھ گیا۔ وہ رات کو دیر گھر لوٹتا اور صبح نور تڑکے نکل جاتا۔ ہر صبح اولیویا جب اٹھتی تو بابا نہیں ہوتے۔ اولیویا سارا دن اداس رہتی کہ بابا نے اسے ماتھے پر نہیں چوما۔ اس نے ان دنوں کی گنتی کر لی تھی۔ وہ اپنی ماں کو بتاتی کہ آج آٹھ دن ہو گئے جب بابا مجھ سے نہیں ملے۔ آج نو دن ہو گئے۔ آج دس دن ہو گئے۔

ایک دن جیک کو خبر ملی کہ محاذ پر وائرلیس سسٹم میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اسے کل سے ایک ہفتے کے لئے ویت نام بھیجا رہا ہے۔جیک رات کو گھر آیا تو اولیویا بدستور سو چکی تھی۔ اس نے ایملی کو بتایا کہ کل اسے ویت نام بھیجا رہا ہے۔ ایملی ویت نام کا نام سن کر پریشان ہو گئی۔ جیک نے اسے تسلی دی، ’ ایملی پریشان نہ ہو۔ میں کوئی سپاہی نہیں ہوں جو جنگ لڑنے محاذ پر جا رہا ہوں۔ میں ایک انجینئر ہوں۔ میرا کام محاذ سے بہت پیچھے بیس کیمپ میں ہو گا اور میں ایک ہفتے میں واپس آ جاﺅں گا‘۔ ایملی کو جیک کی بات سن کر تھوڑا سکون ہوا۔ جیک نے ایملی سے کہا کہ اولیویا کو ویت نام کی بات مت بتانا، اسے کہنا کہ بابا نیویارک گئے ہیں اور واپسی پر اس کے لئے ڈول ہاوس لے کر آئیں گے۔

صبح جیک تیار ہو کر گھر سے نکلنے سے پہلے اولیویا کے کمرے گیا۔ اولیویا پرسکون نیند سو رہی تھی۔ جیک نے اسے ماتھے پر چوما اور اس کے کمرے نکل گیا۔ جانے کیسے گاڑی کی آواز سے اولیویا کی آنکھ کھلی۔ وہ بھاگتی ہوئی باہر آئی، اس نے جاتے ہوئے بابا کو کئی آوازیں دیں مگر بابا کی گاڑی سڑک پر مڑ گئی۔ اولیویا کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر آئے۔ اس نے بڑبڑا کر خود سے کہا آج بارہ دن ہو گئے۔ تب ہی اس نے دیکھا کہ بابا کی گاڑی واپس گیٹ کے سامنے رک گئی۔ وہ دوڑتی ہوئی بابا کے گلے لگ گئی۔ اس نے روتے ہوئے بابا کو بتایا کہ آپ نے بارہ دنوں سے مجھے ماتھے پر نہیں چوما۔ بابا نے اس تسلی دی۔ اس نے پورے بیس مرتبہ اولیویا کو ماتھے پرچوما اور اولیویا سے کہا کہ تم بھی بابا کو بیس بار گال پر چوم لو۔ پھر اس نے اولیویا کو بتایا کہ ایک ہفتے کے لئے بابا دفتر کے ایک ضروری کام سے نیویارک جا رہے ہیں۔ واپسی پر اپنی گڑیا کے لئے ایک خوبصورت اور بڑا ڈول ہاﺅس لائیں گے۔ بچے کیسے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں، اولیویا خوش ہو گئی۔ اس نے خوشی سے بابا کو گلے لگایا ۔دفتر پہنچ کر جیک کو جانے کیوں یہ خیال آیا مگر اس نے ایک کاغذ نکال کر اولیویا کے نام ایک خط لکھا۔

 ’ پیاری اولیویا، میں بہت دن سے دفتر کے کاموں میں مصروف تھا۔ میں گھر پہنچتا تو تم سوئی ہوتی۔ میں تمہارے کمرے آتا اور تمہیں اٹھائے بغیر ماتھے پر چوم کر سو جاتا۔ صبح اٹھ کر تیار ہوتا ، تمہارے کمرے میں آتا تو تم پھر سوئی ہوتی۔ میں پھر تمہیں ماتھے پر چوم کر کام کے لئے نکل جاتا۔ آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ میں جب گھر سے نکل کر سڑک پر مڑنے والا تھا تو میں نے بیک ویو مرر میں تمہیں باہر آتا دیکھ لیا تھا۔ مجھے کام کی جلدی تھی۔ شام کو میری نیویارک کی فلائیٹ تھی۔ مجھے دفتر میں بہت ضروری کام کرنے تھے۔ تیاری کرنی تھی۔میں نے سوچا کہ مجھے دفتر پہنچنا چاہیے۔ پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ میں روز دفتر وقت پر ہی جاتا ہوں۔ کسی دن میں دفتر سے لیٹ بھی جاﺅں تو باس اس دن میری تھوڑی سی سرزنش کر کے اگلے دن بات بھول جاتے ہیں۔میں نے سوچا کہ میں آج دفتر سے تھوڑا لیٹ بھی ہو جاﺅں تو میرے باس کل یہ بات بھول جائیں گے مگر شاید میری اولیویا پندرہ سال بعد بھی یہ سوچتی رہے کہ بابا نے اس کی آواز کیوں نہیں سنی۔ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ پندرہ سال بعد جب تم بڑی ہو گی تو تم کسی دن مجھ سے پوچھو کہ بابا ایک بار رک تو جاتے۔ دیکھو میں پلٹ آیا۔ یاد رکھنا کہ تم جب بھی مجھے آواز دو گی میں ہمیشہ پلٹ کر تمہارے پاس آﺅ ں گا کیونکہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ ڈھیروں محبت، تمہارا بابا جیک“۔

جیک ویت نام گیا۔ اس نے تین دن بیس کیمپ میں گزارے۔ چوتھے دن اسے وائرلیس سسٹم ٹھیک کرنے کے لئے محاذ کے اگلوں مورچوں پر بھیج دیا گیا۔ جیک کی بدقسمتی کہ محاذ پر پہنچنے سے پہلے ہی ان کا سامنا ایک جنگل میں ویت نام کے گوریلا سپاہیوں سے ہوا۔ جیک اور اس کا سارا عملہ اس حملے میں مارا گیا۔ ساتویں دن جیک کی بجائے اس کا تابوت گھر لوٹ آیا۔

اس واقعے کو پندرہ سال گزر گئے۔ آج اولیویا نے جیک کا خط نکالا۔اس نے اسے کئی بار پڑھا۔ پھر خط کے بوسیدہ کاغذ پر جہاں جیک کا نام لکھا ہوا تھا اس کے نیچے لکھا، ” بابا آپ نے لکھا تھا ، آپ نہیں چاہتے کہ پندرہ سال بعد جب میں بڑی ہوں گی اور آپ سے پوچھوں گی کہ ایک بار تو رک جاتے۔ دیکھو باباآپ کو پکارتے پکارتے پندرہ سال بیت گئے۔ آپ پلٹ کر نہیں آئے“۔ اس کے بعد اولیویا نے خط کے آخری حصے میں ایک بڑا سا سوالیہ نشان بنایا۔

کہانی ختم ہو گئی تھی۔ نانا خاموش ہوگئے۔آپ اولیویا کا نام بدل کر گل مکئی ، ثنا عمران ، انجلی مہتا یا حلا زینب کر دیں۔ آپ جیک کو حمید زادران، عمران شاہد، روہان مہتا یا ابو زینب کر دیں۔ آپ ٹیکساس کو قندھار، لاہور، ممبئی یا بغداد کر دیں، خط کو کونے پر سوالیہ نشان ویسا ہی رہے گا۔

نانا جی نے بتایا تھا کہ خدا نے کسی انسان کو دوسرے انسان پر برتری کی خاطر پیدا نہیں کیا ۔ انسان مگر جبر کو روا سمجھتا ہے۔ نانا جی کو گزرے ہوئے اب مدت ہو گئی ہے۔ میرے کمرے میں جیکسن پولاک کے بہت سارے فن پارے ہیں۔ ان پر بڑے بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ یہ سوال چیختے ہیں کہ اولیویا کے ماتھے پر بوسا کون دے گا؟ تتلیاں کیوں مرتی ہیں؟ پھول کیوں مرجھاتے ہیں؟ جمعدار ہرنام سنگھ نے کتے کو گولی کیوں ماری؟ صوبیدار ہمت خاں کو محاذ پر کون بھیجتا ہے؟ اور یہ کہ لبرل ویت نام جنگ کی مخالفت کیوں کرتے تھے؟ اور یہ کہ خان صاحب، آپ نے داعش کی مخالفت کیوں نہیں کی؟

convergence
ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah