پشاور حملے پر عمران خان ایک حقیقی لبرل بنیں گے یا خونی لبرل؟


آج عید میلاد النبی کے مبارک دن کو ایک مرتبہ پھر خون سے سرخ کر دیا گیا ہے۔ پشاور کے زرعی ڈائریکٹوریٹ پر حملہ کیا گیا ہے جہاں یگریکلچر آف سائنس اور ویٹرنری سائنس کے ڈپلومہ کروائے جاتے ہیں۔ وہاں عام طور پر تین چار سو طلبا ہوتے ہیں مگر چھٹی کی وجہ سے اس وقت سو کے قریب تھے۔ اس حملے میں 11 افراد کے شہید اور تیس سے زیادہ کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ پولیس اور فوج کی بروقت کارروائی سے دہشت گرد مارے گئے ورنہ نقصان کہیں زیادہ ہو سکتا تھا۔

عمران خان صاحب نے 29 نومبر کو فرمایا ہے کہ ”اس سے زیادہ خونی لبرل میں نے نہیں دیکھا۔ ان کو خون چاہیے“۔ کیونکہ یہ ڈرون حملوں اور بمباری کی حمایت کرتے ہیں۔ ”جب بھی کوئی انسان کچھ غلط کرے، غیر قانونی کام کرے، جو ظالم انسان ہو، تو ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہے۔ خواہ وہ ہمارا ہم وطن ہو یا غیر ملکی۔ لیکن ہمارے اندر اتنی جرات ہونی چاہیے کہ حق کے ساتھ کھڑے ہوں، انسانوں کے حق کے ساتھ “۔

وہ تواتر کے ساتھ فرماتے رہیں ہیں کہ
”اب لال مسجد تھی۔ سب سے زیادہ میں نے پروٹیسٹ کیا کہ نہ کرنا، جو بھی کرو بندوق کا استعمال نہ کرنا“۔ ”ہماری جو ملکہ ہیں ہیومن رائٹس کی ایک منہ سے لفظ نہیں نکلتا۔ وہاں بمباری گاؤں میں بچے عورتیں مار رہے ہیں وہی لبرل ہمارا چپ بیٹھا ہے“۔ ”ڈرون اٹیکس ہو رہے ہیں۔ میں ان کے خلاف کھڑا ہوں“۔ ”میں خود کو ایک لبرل شخص کہتا ہوں، اس لفظ کے ایک حقیقی مفہوم میں“۔

امید تھی کہ عمران خان جو انگلستان کے ”حقیقی لبرلوں“ کے بادشاہ ہیں، ”ہیومن رائٹس کی دیسی ملکہ“ کی مانند ایسے نہیں بیٹھیں گے کہ ان کے منہ سے طلبا پر حملے کی مذمت میں ایک لفظ نہ نکلے۔ ادھر ان کے دارالحکومت میں طلبا مر رہے ہیں تو وہ چپ نہیں رہیں گے۔ وہ کھل کر مذمت کریں گے۔ وہ حملہ کرنے والے طالبان کے خلاف ویسے ہی کھل کر اور دلیری سے بولیں گے جیسے وہ ”کرپٹ نواز شریف“ اور ”خونی لبرلز“ کے متعلق بولتے ہیں۔ لبرلز کو تو وہ اس جرم پر بھی برا کہتے ہیں جو ان سے سرزد نہِیں ہوا ہوتا۔ عاصمہ جہانگیر کو وہ ڈرون حملوں کا حامی قرار دے دیتے ہیں خواہ عاصمہ نے اس کی حمایت میں بیان جاری نہ کیا ہو۔ مگر طالبان نے تو آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو ننھے بچوں اور اساتذہ کے خون سے ہولی کھیلی ہے، چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ کیا ہے، اب زرعی ڈائریکٹویٹ کے طلبا ان کی گولی کا نشانہ بنے ہیں، کیا عمران خان ان طالبان کو بھی اسی دلیری سے ”سکم“ (فضلہ) کہیں گے جس دلیری سے وہ لبرل کو کہتے ہیں؟

یا پھر وہ پردے کی بوبو بنے رہیں گے اور طالبان اور ملا فضل اللہ کا نام لئے بغیر گول مول انداز میں کہتے رہیں گے کہ ”رحمة اللعالمین کی ولادت کے مبارک دن کے آغازمیں خون کی ہولی کھیلنے والے انسانیت اوراسلام کے دشمن ہیں“، وہ شہداء کے لواحقین سے مکمل یکجہتی کا اظہارکرتے ہیں اورحملے کا نشانہ بننے والوں کی جلد اور مکمل شفایابی کے لئے دعا گو ہیں۔

امید ہے کہ عمران خان اب ایک حقیقی لبرل بن کر دکھائیں گے، خونی لبرل نہیں۔ وہ طالبان کو بھی اسی دلیری سے خونی کہیں گے، تعلیمی اداروں پر طالبانی حملوں کے خلاف اسی دلیری سے بولیں گے، جس دلیری سے وہ ڈرون حملوں اور لال مسجد پر حملے کے خلاف بولے تھے۔ لیکن کہیں لبرلوں کے خلاف یہ دلیری دکھانے کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ ان کو پتہ ہے کہ لبرل خون نہیں بہاتے اور وہ ان سے محفوظ ہیں؟ کہیں پاکستانی اور امریکی حکومت کے خلاف بہادری کی وجہ یہ تو نہیں کہ وہ ان کو کچھ نہیں کہے گی؟ جبکہ ستر ہزار پاکستانیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے طالبان کا معاملہ مختلف ہے۔

ہمیں عمران خان کے 2012 میں بھارتی صحافی برکھا دت کو دیے گئے انٹرویو سے ایک لائن یاد آ رہی ہے۔ ”ہم جیسے لوگوں کو ایک سادہ سا جملہ کہنے سے پہلے بھی دو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کیونکہ ہم ان انتہا پسندوں سے خوفزدہ ہیں جنہیں اس جنگ نے جنم دیا ہے“۔

“People like us have to think twice before making a simple statement because we are scared of the fanatics now that were created by this war”

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar