اسپیشل بچوں کی ماؤں کو اسپیشل سلام


کچھ روز قبل بازار میں شاپنگ کرتے وقت ایک خاتون کو ایک اسپیشل بچی کے ساتھ دیکھا جو اُس کے لئے شاپنگ کرنے میں مصروف تھی۔ بچی بہت معصوم سی تھی مگر شرارتوں میں مصروف تھی جس کو ماں سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی اور ساتھ میں دکاندار سے بھاؤ تاؤ بھی کر رہی تھی میں نے اس کے چہرے پر کوئی شکن نہیں دیکھی کہ وہ اس بچی کو ڈانٹے۔ بلکہ وہ اُسے پیار سے سمجھا رہی تھی حالانکہ اسے پتہ تھا کہ عام بچوں سے اس کا ذہن کمزور ہے۔ اور بچے تو پھر بچے ہوتے ہیں وہ شرارتیں تو کریں گے ہی۔ تو مجھے دو مہینے پہلے اٹینٍڈ کی ہوئی انٹرنیشنل کانفرنس یاد آئی جس میں ہم نے شرکت کی تھی۔ جس سے پہلے دو ورکشاپ اٹینڈ کرنے کا موقع ملا تھا۔ اُس میں ایک ورکشاپ مخصوص بچوں کے لئے تھا۔ جس کے اساتذہ کے لئے یہ ورکشاپ منعقد کی گئی تھی۔

اس ورکشاپ میں وہ اسپیشل بچے بھی موجود تھے۔ جن کا دارومدار سکول میں اساتذہ، تو گھر میں والدین پر تھا۔ مجھے اس وقت بھی احساس ہوا تھا کہ مخصوص بچے ہماری بہت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔ اوربازار میں بھی یہ احساس شدت سے جاگا کہ ان بچوں کو حد سے زیادہ کئیر اور حفاظت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ اسپیشل بچے ہیں۔ تب مجھے پروفیسر ڈاکٹر عبدالوحید ایک فرشتہ نظر آئے جنہوں نے ورکشاپ منعقد کرائی تھی جس میں فرانس کے ڈاکٹر جوائل بھی موجود تھے۔ مجھے اس وقت ان بچوں کے اساتذہ اور ان والدین پر بہت پیار آیاجو ان بچوں کی پروش میں مصروف ہیں۔ اس ورکشاپ کا مقصد ہی یہی تھا کہ لوگوں میں شعورپیدا کیا جائے کہ اسپیشل بچے ہماری توجہ کے بہت زیادہ مستحق ہیں۔ اور واقعی اس میں کوئی دوسری بات نہیں ہوسکتی۔

اگر اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے معذور افراد کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ان بچوں یعنی معذور افراد کی تعداد میں سالانہ 2.65 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے لئے ملک بھر میں سکولوں کا قیام اب لایا جا رہا ہے۔ لیکن جس انداز سے ان کو ٹریٹ کرنے کی ضرورت ہے اس طرح سے ملک بھر میں ان کے ساتھ صحیح برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ کچھ ہفتے پہلے ایک سکول وین میں کنڈیکٹر کی جانب سے ان بچوں پر تشدد بھی کیا گیا تھا۔ جس کی وائرل ویڈیو نے اُن بندوں کو گرفتار کروا دیا۔ مگر ان بچوں کے ساتھ اس قسم کا رویہ کوئی اچنھبے کی بات نہیں۔ بہت سے گھرانوں میں ان کے ساتھ سخت رویہ اپنایا جاتا ہے۔

یہ بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو اتنی پریشانی کی بات نہیں ہوتی مگر جب بڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ تو اُن والدین کی پریشانی بھی شروع ہوجاتی ہے۔ خاص کر اگر معذور کوئی بچی ہو۔ جس پرخاندان والے ایک پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملک بھر میں ان کے لئے کوئی خاص ادارے نہیں جہاں ان کی تربیت کی جائے یا ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ بعض سنگ دل والدین تو ایسے معذور بچوں کو درگاہوں یاپھر ایدھی سنٹر بھی چھوڑ آتے ہیں۔ کہ عمر بھر کون ان کو پالے پوسے۔

بڑی بوڑھیاں ان بچوں کو والدین کی گناہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی گناہ کیا ہوگا اس لئے اُن کے ہاں ایسے بچے کی پیدائش ہوگئی۔ مگر اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے یہ اللہ کی دین ہے کسی کو صحت مند بچے تو کسی کو بیمار اور معذور بچے عطا کردیتا ہے یاپھر بیماریوں کے باعث بچے معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں جس میں پولیو قابل ذکر مرض ہے یا پھر گردن توڑ بخار یا پھر کبھی کبھار ٹائفائیٍڈ سے بھی جسم کا کوئی حصہ کام چھوڑ دیتا ہے۔ اس لئے وہ معذور بن جاتے ہیں جن کو روزمرہ کے معمولات سرانجام دینے اور معاشرے میں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عموماً لوگ انہیں ترس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں نامکمل انسان کے طور پر دیکھتے ہیں۔

گھر میں عام بچوں سے انہیں بہتر پرورش کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر میں سب کو اس بات کا احساس دلانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ان میں احساس بیدارکیا جائے کہ ان کومعذور یا اسپیشل نہ سمجھا جائے کیونکہ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ باہر ممالک میں ان بچوں اور معذور افراد کے لئے ہر چیز میں رعایت ہے انہیں عام لوگوں سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اسپیشل الاؤنس ملتا ہے یونیورسٹیوں، کالجوں، ہسپتالوں میں ان کے لئے علیحدہ سے انتظامات کیے گئے ہیں۔

سپورٹس کے مقابلے ان کے لئے منعقدکیے جاتے ہیں۔ جس سے انہیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ اور لوگوں سے کم ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ان بچوں کے ساتھ اگر اچھا رویہ ہوتا ہے تو وہ صرف اور صرف ماؤں کا ہوتا ہے۔ باقی بہن بھائی، باپ رشتہ دار معذور بچوں کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔ ہمارے اردگرد کتنے گھرانوں میں مخصوص بچے موجود ہیں اپ خود دیکھیں۔ ان کے ساتھ صرف اور صرف ماں ہی راتیں گزارتی ہیں۔ وہ ہی خیال رکھنے میں مصروف ہیں۔ تو میں آج اُن اسپیشل بچوں کی ماؤں کو اسپیشل سلام کرتا ہوں جو اپنے اسپیشل بچوں کا خیال رکھ کر اپنے لئے جنت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).