دلربا گوگوش – ایران کے زندہ دلوں کی دھڑکن


فائقہ آتشین نامی لڑکی ایران کے ہر زندگی سے پیار کرنے والے کے دل کی دھڑکن رہی ہے۔ فائقہ آتشیں 5 مئی 1950 کے دن پیدا ہوئی اور پہلی فرصت میں اس کا نام بدل کر گوگوش رکھ دیا گیا۔ ہماری رائے میں تو کسی کا نام آتشیں ہو تو محلے کے بچے اسے جل ککڑی کہہ کہہ کر نام بدلنے پر مجبور کر ہی دیتے ہوں گے۔

اس کے والدین کا تعلق بھی شو بزنس سے تھا۔ وہ گاڑی میں کہیں آ جا رہے ہوتے تھے تو ننھی گوگوش گلوکاروں کی نقلیں اتارنے لگتی تھیں۔ یہ دیکھ کر اس کے والد کو کچھ کچھ شبہ سا ہوا کہ اس میں ٹیلنٹ ہے۔ یوں تین سال کی عمر میں اسے سٹیج پر پروفیشنل گلوکاری کرنے کے لئے کھڑا کر دیا گیا۔ سات سال کی عمر میں اس نے فلم میں کام کیا۔ یعنی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چائلڈ لیبر صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔

اس نے دس سال کی عمر میں ”فرشتہ فراری“ (گھر سے بھاگا ہوا فرشتہ) اور تیرہ سال کی عمر میں ”پرگاہ موخوف“ (خوف کی چوٹی) میں کام کیا۔ 1965 میں اس نے ”شیطون بلا“ (بلا کا شیطان) نامی فلم میں جوہر دکھائے۔ اس کی آخری فلم 1979 میں ریلیز ہونے والی ”امشب اشکی می ریزد“ (آج رات کے آنسو) تھی۔ گوگوش نے ڈھائی درجن فلموں میں کام کیا جن میں سے ایک ایران کی تاریخ کی کامیاب ترین فلم قرار پائی۔

مگر گوگوش کی اصل شہرت کا باعث اس کی گلوکاری تھی۔ 1970 میں گوگوش کا میوزک البم ”دو پنجرہ“ (دو کھڑکیاں) ریلیز ہوا اور نصف درجن میوزک البموں کے بعد 1978 میں اس کا البم ”اگہ بمونی“ آیا (اگر تم رک جاؤ)۔

گوگوش اپنی گلوکاری کے علاوہ طرحدار لباس اور انداز کی وجہ سے نوجوان نسل کے دلوں کی دھڑکن بن چکی تھی۔ اس کے لباس کو دیکھ کر ایران کے فیشن کا تعین ہوتا تھا۔ اس کے شارٹ اسکرٹس لڑکیوں میں مقبول تھے۔ لیکن سب سے بڑھ کر اس کے ہئیر سٹائل تھے۔ یہ حسینہ کچھ غیر مستقل مزاج سی تھی اور غالباً کسی ایک نائی کے پاس دوسری مرتبہ نہیں جاتی تھی۔ کبھی اس کے بال بوائے کٹ ہوتے تھے تو کبھی لانبے۔ کبھی کالے ہوتے تھے تو کبھی سنہرے۔ اور پھر یہی بال تہران میں ہر جگہ بکھرے دکھائی دیتے تھے۔ جیسا حلیہ گوگوش کا ہوتا تھا، وہی نوجوان نسل اختیار کرتی تھی۔ اس کے ہیئر سٹائل کا نام گوگوشی پڑ گیا۔ لڑکیاں نائی کے پاس جا کر ”گوگوشی کٹ“ کا مطالبہ کرتی تھیں اور نائی اس دن کا اخبار دیکھ کر فیصلہ کیا کرتا تھا کہ کیسے بال کاٹنے ہیں۔

سنہ 1979 میں وہ لاس اینجلس میں تھی کہ ایران میں انقلاب آ گیا۔ ”ہر ایک نے مجھے کہا کہ تم واپس نہیں جا سکتیں۔ لیکن میں تو اپنے ساتھ کچھ نہ لائی تھی۔ اس لئے تمام تر دباؤ اور ان خطرات کی نشاندہی کے باوجود جو مجھے پیش آنے کا امکان تھا، میں واپس چلی گئی“ گوگوش نے 2000 میں ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا۔ واپس آتے ہی اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔

دوسرے گلوکاروں کی طرح گوگوش کی موسیقی پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ایران کی اسلامی انقلابی حکومت کی رائے تھی کہ موسیقی خلاف اسلام ہے اور اس سے نوجوان تباہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن خاموشی کے ان برسوں میں گوگوش کی مقبولیت بڑھتی رہی۔ زیر زمین دنیا میں گوگوش کے نغمے گونجتے رہے اور وہ نوجوان اس کے دیوانے ہوتے گئے جنہوں نے اسے کبھی گاتے ہوئے دیکھا تک نہ تھا۔

سنہ 1997 میں محمد خاتمی کے صدر منتخب ہونے کے بعد یہ طے پایا کہ موسیقی خلاف اسلام نہیں ہے اور اسے سن کر نئی نسل کے بگڑنے کا خطرہ نہیں ہے۔ کئی خاتون گلوکاروں پر سے پابندی اٹھا لی گئی مگر گوگوش پر پابندی لگی رہی۔ سنہ 2000 میں گوگوش کو پاسپورٹ دے دیا گیا اور وہ ملک سے باہر چلی گئی۔

اکیس برس کی خاموشی کا خاتمہ ہوا۔ گوگوش کا پہلا کنسرٹ ٹورنٹو میں ہوا جہاں وہ کچھ عرصے قیام پذیر رہی تھی۔ بعد میں وہ لاس اینجلس چلی گئی۔ اس وقت سے اب تک گوگوش کے سات البم ریلیز ہو چکے ہیں۔ دسمبر 2010 میں عراقی کردستان میں گوگوش کا ایک بہت بڑا میوزک کنسرٹ ہوا جس میں شرکت کے لئے ہزاروں ایرانی تہران اور دور دراز کے علاقوں سے بارڈر پار کر کے وہاں پہنچے۔ 64 برس سے موسیقی کی یہ ملکہ فارسی ملکوں میں راج کر رہی ہے اور آج بھی وہ پہلے دن کی طرح مقبول ہے۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar