کیا سیاستدان ٹیکنو کریٹ حکومت کا راستہ روک سکتے ہیں؟


سابق وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ میں تقریر کرتے ہوئے عدلیہ پر تند و تیز تنقید کا سلسلہ جاری رکھا ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان پارلیمانی تعاون کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ جولائی میں نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد سے مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مواصلت اور تعاون ہموار کرنے کی جو بھی کوشش کی تھی، آصف زرداری کی طرف سے اسے مسترد کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان اگرچہ یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ ملک میں جمہوریت کے استحکام اور موجودہ نظام کے تسلسل کے لئے کام کرتے رہیں گے لیکن اس دوران فیض آباد دھرنا کے ذریعے حکومت پر وار کرنے اور مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں انتشار ڈال کر حکمران جماعت کے لئے حالات کو دگرگوں کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ باتیں بھی میڈیا کے ذریعے عام کی جاتی رہی ہیں کہ ملک میں طویل مدت کے لئے ایک ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ عوامی سطح پر اگرچہ فوجی مداخلت سے قائم ہونے والی ایسی حکومت کے خلاف مزاحمت کے آثار موجود نہیں ہیں لیکن فوج کے لئے سب سے بڑی مشکل یہ رہی ہے کہ وہ براہ راست مداخلت کرنے یا آئین معطل کرنے سے گریز کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کے ساتھ تعلقات بھی سرد ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں اور بااختیار حلقے کسی بھی طرح موجودہ حکومت سے جان چھڑانے کی جلدی میں ہیں۔ اس عجلت کی ایک وجہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات بھی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کسی بھی قیمت پر یہ انتخابات منعقد کروانا چاہتی ہے تاکہ اسے ایوان بالا میں اکثریت حاصل ہو جائے جبکہ نواز مخالف حلقے اس سے پہلے ہی ملک میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔

موجودہ حکومت کو نااہل اور غیر فعال قرار دے کر ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کرنے کی تجویز گزشتہ کافی عرصہ سے گردش میں ہے۔ البتہ موجودہ آئینی انتظام میں ایسی حکومت قائم کرنے کا امکان نہیں۔ تحریک انصاف اور بعض دیگر حلقوں کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی کے بعد یہ دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے کہ ملک میں فوری انتخاب کروا لئے جائیں۔ اس طرح توقع کی جا رہی تھی کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے خلاف جو فضا تیار ہوئی ہے، اس میں اس جماعت کی سیاسی قوت کو قابل قبول حد تک محدود کیا جا سکے گا۔ اسی مقصد سے گزشتہ دنوں حلقہ این اے 120 اور این اے 4 میں ضمنی انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) کو چیلنج کرنے کے لئے ملی مسلم لیگ اور لبیک تحریک کو میدان میں اتارا گیا تھا۔ مبصرین کے لئے بھی یہ بات حیرت کا سبب تھی کہ لبیک تحریک نے ان ضمنی انتخابات میں قابل ذکر تعداد میں ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس طرح یہ امید کی جانے لگی تھی کہ قبل از وقت انتخابات کی صورت میں ان نوزائیدہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کا ووٹ توڑا جا سکے گا اور یہ ناراض ووٹر گروہ کسی دوسری ایسی جماعت مثلاً تحریک انصاف کو بھی نہیں ملے گا جو اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ اس طرح 2018 میں ہونے والے انتخابات میں پارلیمنٹ میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ یوں سیاسی جماعتیں جوتیوں میں دال بانٹنے کے کھیل میں مصروف رہیں گی جبکہ ملک کے معاملات فوج کی مرضی و منشا کے مطابق ایک کمزور مخلوط حکومت کے ذریعے طے کئے جاتے رہیں گے۔

مسلم لیگ (ن) نے قبل از وقت انتخابات سے انکار کیا ہے۔ پارٹی کو بیرونی دباؤ کے علاوہ اندرونی انتشار کا بھی سامنا ہے۔ نواز شریف سیاست سے کنارہ کش ہونے اور پارٹی شہباز شریف کے حوالے کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو یقین ہے کہ اگر وہ موجودہ بحران میں نواز شریف کو ایک طرف کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو حالات میں بہتری کی صورت میں نواز شریف مضبوط ہوں گے اور اگر وہ خود چوتھی بار وزیراعظم نہ بھی بن سکے تو بھی مسلم لیگ (ن) کا اختیار مریم نواز کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ شہباز شریف مسلسل کہتے رہے ہیں کہ پارٹی کو فوج سے تصادم کی حکمت عملی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ درپردہ وہ خود کو قابل قبول متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے نواز شریف پر سیاست سے سبکدوش ہونے کے لئے دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔ انتخابی قانون میں ترمیم کے بعد ختم نبوت حلف نامہ کے بارے میں سامنے آنے والا تنازعہ بھی شہباز شریف کی بیان بازی سے شروع ہوا تھا اور فیض آباد دھرنا کے حوالے سے بھی یہ خبریں سامنے آتی رہی ہیں کہ اس میں شہباز شریف کی درپردہ سرپرستی شامل تھی۔ شہباز شریف کو اصل غصہ حلف نامہ میں تبدیلی پر نہیں بلکہ اس بات پر تھا کہ نواز شریف ایسی ترمیم منظور کروانے میں کامیاب ہو گئے جس کے ذریعے وہ نااہل ہونے کے باوجود پارٹی کے صدر بن چکے ہیں۔ یہ تجویز کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا کیوں کہ سابق وزیر قانون زاہد حامد کے سر باندھا جاتا ہے، اس لئے ان سے شہباز شریف کی ناراضی بھی قابل فہم ہے۔

فیض آباد دھرنا اگرچہ حکومت گرانے میں تو کامیاب نہیں ہوا لیکن اس نے اخلاقی اور سیاسی طور پر مسلم لیگ (ن) کو کئی محاذوں پر کمزور کیا ہے۔ جمہوریت کی سربلندی کے دعویدار اور سیکولر اقدار کے حامی اس بات پر نالاں ہیں کہ حکومت نے انتہا پسند مذہبی گروہوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ملک میں انتہا پسندی کے رجحان کو تقویت دی ہے۔ اب کوئی بھی مذہبی گروہ کسی بھی مطالبہ کے لئے دھرنا دے کر اور راستے بند کر کے اپنی شرائط منوانے کی کوشش کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی کے بعض ایسے ارکان بھی تشویش کا شکار ہوئے ہیں جو لبیک تحریک کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہیں کہ آئندہ انتخابات میں ختم نبوت کا نعرہ سیاسی طور سے ان کے خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔ اسی لئے سرگردھا کے پیر حمید الدین سیالوی کو 14 ارکان نے استعفے دے کر اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) کے شہباز اور نواز گروہ اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے پیر سیالوی کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوشاں ہیں۔ اگرچہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) میں انتشار کی خبریں تواتر سے سامنے آتی رہی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر نواز شریف پارٹی کو متحد رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مرکز اور پنجاب میں بدستور مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ اس کے علاوہ شہباز شریف بوجوہ کھل کر نواز شریف کے خلاف میدان میں اترنے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے۔ البتہ ختم نبوت حلف نامہ اور فیض آباد دھرنا کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) پر کاری وار کے امکانات روشن دکھائی دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کی خبروں کو ایک بار پھر قوت ملی ہے۔

فوج کی براہ راست مداخلت کے بغیر غیر جمہوری حکومت قائم کرنے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ سپریم کورٹ اس حوالے سے کوئی حکم صادر کر دے۔ نواز شریف کے خلاف یکے بعد دیگرے فیصلے آنے کے بعد اور نواز شریف کی طرف سے مسلسل سپریم کورٹ پر حملوں کے تناظر میں اس قسم کا عدالتی ردعمل مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ سال رواں کے دوران سیاسی معاملات میں دلچسپی ظاہر کر چکی ہے۔ پاناما کیس اور اس پر آنے والا تند و تیز فیصلہ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی کوئی یہ بات یقین سے کہنے کا حوصلہ نہیں کر سکتا کہ سپریم کورٹ موجودہ آئین کی بعض شقات کو ساقط کرتے ہوئے ملک میں جمہوری نظام کو معطل کرنے کا حوصلہ کر سکتی ہے۔ نواز شریف کے خلاف فیصلوں کے برعکس اگر جمہوری عمل کے حوالے سے کوئی غیر موافق فیصلہ سامنے آتا ہے تو اس کی مزاحمت بھی زیادہ ہو گی اور ہر قسم کا سیاسی گروہ اس کے خلاف بات کرنے پر مجبور ہوگا۔ ایسا فیصلہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے اور آئین کو مجروح کرنے کے علاوہ سپریم کورٹ کی غیر جانبداری اور آئین کے پاسبان ادارے کے طور پر حیثیت کو بھی متاثر کرے گا۔ ملک میں اگرچہ فوج اور سپریم کورٹ کے درمیان ساز باز کے حوالے سے سازشی تھیوریاں موجود رہی ہیں لیکن کوئی واضح اشارہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ بات تقریباً یقین سے کہی جاتی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے جج اپنی صوابدید اور مرضی کے مطابق ہی فیصلے کرتے ہیں۔ نہ فوج نے انہیں کوئی ہدایت دی ہے اور نہ وہ ایسی ہدایت کو ماننے پر راضی ہوں گے۔

ان حالات میں حکمراں جماعت میں بغاوت کے ذریعے نواز شریف کی پوزیشن کمزور کرنے کے علاوہ پارلیمنٹ میں ایسا قانون منظور کروانے کی کوشش کی جا سکتی ہے جو ٹیکنو کریٹ حکومت کا راستہ ہموار کر سکے ۔ اس مقصد کے لئے اقتدار کی قطار میں لگی ہوئی پارٹیوں اور لیڈروں کو یہ کہہ کر تسلی دی جا سکتی ہے کہ عبوری ٹیکنو کریٹ حکومتی انتظام کے نتیجہ میں نواز شریف، ان کی باقیات اور مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قوت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح دوسروں کے لئے راستہ ہموار ہو جائے گا۔ اس ترکیب کو ناکام بنانے میں پیپلز پارٹی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں واضح فاصلہ اور آصف زرداری کی طرف سے نواز شریف سے قطع تعلق سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی رہی ہے کہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کی باہمی لڑائی میں ایک بار پھر جمہوریت کا راستہ مسدود ہو سکتا ہے۔ البتہ اب دونوں پارٹیوں کے درمیان رابطہ بحال ہونے اور غیر جمہوری حکومت کا راستہ روکنے پر اتفاق رائے کی خبر سامنے آئی ہے۔ اس کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں حقیقی معنوں میں خطرات کو بھانپ چکی ہیں یا محض سیاسی فائدہ لینے کے لئے یہ اشارے دے رہی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی قابل غور ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی موجودہ حالات میں واقعی تعاون کے ذریعے جمہوریت کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

دونوں پارٹیاں شخصی اور خاندانی اقتدار کے لئے کوشاں رہی ہیں۔ ان کی سیاست عوامی مفادات یا اصولوں پر استوار نہیں ہے۔ ملک میں اس وقت جمہوریت، سیاسی قائدین اور موجودہ نظام کے خلاف جو رائے تیزی سے قوت پکڑ رہی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ ملک کے سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کا رویہ ہے۔ وہ صرف ووٹ لینے کے لئے عوام کے پاس جاتے ہیں اور اقتدار میں آ کر عوامی بہبود کے اقدامات کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اقتدار کی حفاظت کے لئے عوامی تائید حاصل کرنے کی بجائے جوڑ توڑ اور درون خانہ سازشوں پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں غیر جمہوری ڈھانچے پر استوار سیاسی پارٹیاں اور گروہ کب تک ملک میں جمہوریت کے خلاف اٹھنے والے ناپسندیدگی کے طوفان کا راستہ روک سکیں گے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب کہ غیر جمہوری قوتیں مسلسل متحرک اور مستحکم ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali