کیا اب ہر مولوی کے سامنے پیش ہونا ہوگا؟


میں جہاں کام کرتا تھا، وہاں قریب میں ہی نماز پڑھ لیتا تھا، نماز کے بعد کبھی علامہ صاحب سے بھی ملاقات ہوجاتی تھی، بہت تپاک اور خلوص سے ملتے۔

27 جنوری 2017ء کو عصر کی نماز میں کچھ وقت تھا میں ختم نبوت نشست کے پمفلٹ تقسیم کرنے لگا، ابھی چھ سات لوگوں نے لئے ہوں گے کہ ادھر سے علامہ صاحب تشریف لے آئے میں ایک پمفلٹ ان کے آگے کردیا دیکھتے ہی ان کے چہرے کا رنگ اتر گیا فرمانے لگے یہ کیا فرقہ واریت پھیلا رہے ہو؟ میں عرض کی حضور عنوان تو دیکھ لیجیے، غصے میں کہنے لگے اب تم مجھے سمجھاؤ گے؟ مریدین نے بھی ان کا ساتھ دیا سب کے ایک آواز ہو کر کہا جاؤ اپنا کام کرو علامہ صاحب ٹھیک فرما رہے ہیں۔ میں نے علامہ صاحب کے پیچھے نماز پڑھی اور واپس آگیا۔

چند ماہ بعد اسی مسجد میں ختم نبوت کے عنوان پر بعد نمازِ ظہر بیان کے لئے کسی اور خطیب کو بلایا گیا، علامہ صاحب نے رسالت اور تاج و تخت ختم نبوت کے بھرپور نعرے لگوائے، آخر میں میں نے آواز ناموسِ رسالت والا لٹریچر تقسیم کیا۔ چند لوگ رہ گئے تھے علامہ صاحب کے ایک شاگرد نے دیکھ لیا، جا کر شکایت لگائی انہوں نے بلوایا کہنے لگے پہلے بھی آپ کو روکا ہے آپ باز کیوں نہیں آتے؟ میں نے التجا کی حضور پڑھ کر تو دیکھیں جو ابھی بیان ہوا ہے وہی کچھ اس میں لکھا ہے۔ بہرحال وہ نا مانے مجھے لوٹنا پڑا۔

رمضان المبارک میں میرے بزرگ و محسن حاجی رمضان صاحب اور تنظیم اسلامی والے احباب مختلف مقامات و مساجد میں بلا تفریق تراویح میں دورہ ترجمہ قرآن کرواتے ہیں، ان کے ساتھ مختلف جگہ پر اشتہار تقسیم کرنے کے لئے جانا ہوا۔ آخر میں وہی مسجد جامعہ غوثیہ نشتر کالونی، جمعہ پڑھ کر اشتہار تقسیم کرتے ہوئے پھر علامہ صاحب کے شاگرد نے دیکھ لیا اس نے جا کر بتایا ہوگا۔ علامہ صاحب درود و سلام میں مصروف تھے مؤذن کو بھیجا انہوں نے آتے ہی پوچھا سنیوں کا پروگرام ہے؟ حاجی صاحب نے کہا دورہ قرآن ہوگا انہوں نے پھر سوال کیا سنیوں کا پروگرام ہیں؟ اتنے میں ان کے شاگرد کو مسجد اہلحدیث لکھا نظر آگیا اس نے فوراً مؤذن کو دکھایا جس پر انہوں نے کہا یہ تقسیم نا کرو فرقہ واریت پھیلانے پر پولیس آپ کو پکڑ کر لے جائے گی۔

بہرحال آب بیتی سنانے کا یہ مقصد ہے کہ پیدا ہوتے ہیں فلاں کافر فلاں جہنمی کا سبق پڑھایا جاتا ہے، ورنہ 12 سال کا بچہ جسے ٹھیک سے پڑھنا بھی نہیں آتا اسے کیا علم فرقہ کیا ہوتا ہے، جنت جہنم کے فیصلے کیسے ہوتے ہیں؟ فتوی تو گھر کی لونڈی ہے جسے دل چاہا کافر کہہ دیا سو سال پرانی کتابیں جن کے مصنفین بھی مر کھپ گئے، کتاب بھی اصل حالت میں موجود نہیں وہ نکال نکال کر دکھایا جاتا ہے یہ دیکھو قاسم نانوتوی نے یہ لکھا تھا، رشید گنگوہی نے یہ کہا تھا، علامہ صاحب نے دانت کھٹے کئے تھے منہ توڑ جواب دیا تھا
ابھی حال ہی میں چنیوٹ کی بستی میں تبلیغی جماعت والوں کو کافر کہہ کر قتل کر دیا گیا۔

اس سے بھی نزدیک کی سن لو چار دن پہلے ڈاکٹر آصف جلالی نے اپنی تنظیم کے پیر افضل قادری پر فتوی ٹھوک دیا، ہمارا ہم خیال تک بھی فتوے سے محفوظ نہیں دوسرا مسلک تو بہت دور کی بات۔
کیا آئیندہ محض اختلافِ رائے پر کفر کے فتوے جاری ہوا کریں گے؟ اپنی مرضی کے مسلمان کو مومن مانیں گے؟
کیا صرف ہم مسلک مسلمان ہوا کرے گا؟

کیا ہمیں دوسرے مسالک کے سامنے کلمہ پڑھ کر یقین دلانا ہوگا کہ ہم واقعی ہی مسلمان ہیں؟
کیا اب ہر شخص اپنے عقائد کے ویڈیو ثبوت پیش کرے گا؟
کیا اب ہر شخص خانہ خدا سے تصویر ٹویٹ کرے گا تو ہم اس کا ایمان تسلیم کریں گے؟
کیا اب ہر مولوی کے سامنے پیش ہونا ہوگا؟

یہ کیسی روش ہے؟
ہم کس سمت جا رہے ہیں؟
کب تک یہ سلسلہ چلے گا؟
کب ایک دوسرے کو فرقے کے نام پر، غیرت کے نام پر جہنم واصل کرتے رہیں گے؟

کب تک ہم خود ساختہ عاشقِ رسول کہلواتے رہیں گے؟
کب تک دیوبندی گستاخ رہیں گے؟
کب تک بریلوی مشرک رہیں گے؟
کب تک اہلحدیث نجدی وہابی رہیں گے؟

یہ زمین آسمان، چاند سورج، سیارے ستارے، ہوا پانی مٹی، سمندر دریا آبشار یہ کل کائنات اس لئے بنائی گئی تھی کہ ہم کافر کافر کھیلیں اور آخر میں خود کافر ہو کر مر جائیں؟
نہیں ہرگز نہیں اپنا مقام مرتبہ، مقصد مشن سمجھو دنیا بہت وسیع ہے اسی پر ساری زندگی سوچتے رہو تو فتوؤں کا وقت نہیں ملے گا

خدا کے لئے مسلمان بن جاؤ
خدا کے لئے امت بن جاؤ
اپنا مقصد پہچان لو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).