ایک دن ضرور اینکر بنوں گی۔۔۔۔


میرا دل کرتا ہے کہ میں وہی لکھوں جو میں دیکھتی ہوں اپنے ارد گرد، جو محسوس کرتی ہوں۔ لازمی نہیں میرے تجربے یا میرے نظریے سے سب لوگ سو فیصد متفق ہوں۔ میری کسی بھی بات پر تنقید سب کا حق ہے ۔ میرے لئے اتنا بہت ہے کہ مجھے پڑھا جائے اور میں لکھوں۔

میں نے کچھ عرصے کیلئے شہر بدلا ہے اس لئے سفر کے دوران یا مختلف جگہوں پر نئے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اور میں خوش ہوں اس تجربے سے۔ ٹکٹنگ کاؤنٹر سے لے کر ٹرمینل پر بس کا انتظار اور پھر بس میں بیٹھے مسافر سب ہی اپنی مثال آپ ہیں۔ روڈ ہوسٹس خوش ہیں اپنی نوکری سے۔ ایک ایسی روڈ ہوسٹس ملی جس کا شوق تھا اینکر بننا اور وہ بن سکتی ہے پیاری ہے، لیکن اتنا اچھا بولتی نہیں۔ میں نے کہا تو آپ کوشش کریں آپ کو اگر شوق ہے تو لیکن اس کو شوق صرف اسکرین پر آنے کا تھا خبروں سے اور سیاست سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ میں نے اسے کہا اگر ان چیزوں کا شوق نہیں تو ذرا مشکل ہوتا ہے لیکن اس نے مجھے کہا ایک دن آپ مجھے کسی چینل کی اسکرین پر ضرور دیکھیں گی تو میں پھر چپ ہو گئی۔ میں نے کہا اس دنیا میں کچھ بھی ممکن ہے یہ بھی ہو سکتا ہے۔

ایک سفر میں ایک لڑکی میرے ساتھ بیٹھی تو کہتی ہے آپ کو ایک بات بتاؤں، میں نے کہا جی پلیز۔ تو کہتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے آج رش ہے بہت زیادہ تو میں نے ٹکٹنگ کاؤنٹر پر بولا، سر اگر ٹکٹ ہے تو دے دیں مجھے ایمرجنسی میں گھر پہنچنا ہے تو وہاں کھڑے مینجر نے ٹکٹ دلوا دی۔ میں نے شکریہ ادا کر دیا ۔ اور ہوا یہ ہے کہ تب سے اس مینجر کے میسیجز آ رہے ہیں کہ سفر کیسا گزر رہا ہے، آئندہ بھی ضرورت ہو تو مجھے بتا دیا کریں۔ میں ہمیشہ آپ کی مدد کروں گا۔ وہ لڑکی کہنے لگی کہ میں نے شکریہ کا میسج لکھ دیا ۔ کہتی ہے پر حیرت تب ہوئی جب اس کا میسج آیا ”مجھ سے دوستی کرو گی” ہم دنوں ہنس رہی تھیں۔ اور مزید ایسے میسیجز آئے چلے جا رہے تھے “آپ مجھے عام لڑکا مت سمجھیں۔ میں پڑھا لکھا لڑکا ہوں، مجھے ایک چانس دیں۔ مجھے آپ اچھی لگی ہیں” وغیرہ وغیرہ ۔ اور پھر اس لڑکی نے ایک سیکنڈ لگایا اور اس کا نمبر بلاک کر دیا اور ہم دونوں ایک دفعہ پھر صرف ہنستی رہیں۔

اسی طرح سفر کے دوران میں نے دیکھا کہ اکثر ویک اینڈز پر اسٹوڈنٹس گھروں کو جاتے ہیں کالج، یونیورسٹی کے طلبا۔ چار لڑکے کسی کالج کے آپس میں باتیں کر رہے تھے انھوں نے چھٹیوں کے بعد کوئی اسائنمٹ جمع کروانی تھی ان میں اب ایک کلاس کا سی آر (مانیٹر) تھا تو باقی سب اس کی منتیں کر رہے تھے کہ سر سے کہہ کر اسائنمٹ جمع کروانے کی تاریخ آگے کروا دو ، سب اس کو کچھ نہ کچھ کھلانے کی لالچ دے رہے تھے اور سی آر جو کہ ان کا دوست بھی تھا اس وقت مکمل لالچی بچوں کی طرح اپنی فرمائشیں بتا رہا تھا۔ ہاہاہا

مجھے راستے میں ایک خاتون ملی جو میرے ہی شعبہ سے ہیں۔ میں ان کا نام لازمی لکھنا چاہوں گی “سعدیہ کیانی” اچھی خاتون ہیں ، ان سے بات چیت میں مزا آیا۔ خاتون صحافی ہونے کے ناطے ان کا صحافتی تجربہ بھی کافی دلچسپ تھا اور وہ مجھے پہلے سے جانتی تھیں۔ ملاقات پہلی دفعہ ہوئی تھی انھوں نے بتایا کہ آپ کا ذکر پہلے کئی دفعہ سن چکی ہوں۔

ٹرمینل پر ایک لڑکی ملی جو سرگودھا یونیورسٹی میں پڑھتی تھی لیکن لاہور میں ایک چینل کا اینکر پرائیویٹ اینکرنگ کی کلاسز دیتا ہے (گو کہ اس اینکر کا نام سن کر حیرت ہوئی کہ اس کی تو اینکر کے طور پر ابھی اپنی ساکھ بھی بہت کمزور ہے۔) تو ہفتے میں دو دن وہ لڑکی سرگودھا سے لاہور اینکرنگ کی کلاسز لینے آتی ہے۔ اس کو بھی اسکرین کا جنون کی حد تک شوق تھا –

اور صحیح کہتے ہیں زندگی ایک سفر ہے اور ہم ہمیشہ سفر میں ہی ہوتے ہیں۔ جہاں ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اچھے، برے۔ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ہمیں ان سے بات کرنا ہوتی ہے کیونکہ دنیا کا سرکل ایسا ہی ہے کسی کو ہم پسند نہیں کرتے اور کسی کو ہم پسند نہیں ہوتے۔ آپ کو کہیں بھی ہر چیز یا ہر شخص پرفیکٹ نہیں ملتا۔ زندگی کے ساتھ سمجھوتا کر کے ہی چلنا پڑتا ہے۔ جیسے گاڑی میں بیٹھے اگر چالیس ، پنتالیس لوگ ہیں تو لازمی نہیں سب سے آپ کا کوئی رشتہ ہے یا تعلق ہے تو ہی گاڑی میں بیٹھنا ہے ۔ بعض دفعہ تو اپ کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا مسافر آپ کی مرضی کا نہیں ہوتا ۔ زندگی کی گاڑی بھی اسی طرح چلتے رہنا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).