بچوں والی طلاق یافتہ خواتین کی شادی کیوں نہیں ہو پاتی؟


شہزادہ ہیری کی میگھن مارکل سے منگنی کی خبر کو ہمارے ہاں بڑے اچنبھے سے دیکھا گیا۔ بھلا شہزادے کو کیا مسئلہ تھا کہ اپنی عمر سے بڑی طلاق یافتہ خاتون سے منگنی کرتا؟ مگر بہت سے لوگوں نے اسے ایک اچھا فعل بھی قرار دیا جسے ہمارے ہاں بھی تقلید کی ضرورت ہے۔

میری ایک دوست نے مجھے ایک ویڈیو بھیجی جس میں ایک مغرب کی خاتون بتا رہی تھیں کہ وہ دو بچوں کی طلاق یافتہ ماں تھیں، مگر ان کے میاں نے سوچتے سمجھتے ان سے محبت کرتے ہوئے ان سے شادی کی۔ کہتی ہیں کہ مجھے اس بات پر پورا یقین نہیں تھا کہ کوئی شخص ان تمام مشکلات کو سمجھتے ہوئے میرے ساتھ چل سکتا ہے۔ ایک رات جب میں بیمار تھی میری تین سالہ بیٹی نے قے کر دی اور اس کی آوازوں سے میرا پانچ سالہ بیٹا بھی جاگ گیا اور اس نے رونا اور چیخنا شروع کر دیا۔ ایسے میں میں نے اس شخص کو فون کیا اور کہا کہ تم سمجھتے ہو کہ تم اس سب کے ساتھ مجھے قبول کر سکتے ہو تو میرے گھر پر آ جاو، وہ بیس منٹ میں پہنچ گیا۔ اس نے میرے ہاتھ سے پونچھا لیا، میری بیٹی کی قے قالین پر سے صاف کی، میری بیٹی کو صاف کیا، میرے دونوں بچوں کو بستر میں لٹایا، مجھے بستر تک پہنچایا اور کہا کہ ہاں مجھے یہ سب قبول ہے، تم بھی اور تمہارے دو بچے بھی۔ کہتی ہیں پھر ہماری شادی ہو گئی، اب بہت سے سال ہنسی خوشی گزر چکے ہیں اور ہمارا ایک بچہ اور بھی ہے،ابھی تک میرا شوہر میرے بڑے دو بچوں سے بھی ایک باپ کی طرح محبت کرتا ہے۔

میری ایک جاننے والی ہیں جو فی سبیل اللہ رشتہ کروانے کا کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ لالچ اور بہتر سے بہترین کی تلاش تو شاید ہمیشہ ہی کی جاتی ہو مگر اب لوگ کھلے بندوں اپنی مانگ کا اظہار کر لیتے ہیں۔ لڑکے والے ہوں تو وہ یہ تک پوچھ لیتے ہیں کہ کیا لڑکے کی نوکری یا کاروبار میں لڑکی والے کوئی مدد کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اور لڑکی والوں کو تو ایک ایسے لڑکے کی تلاش ہوتی ہیں جو بیرون ملک مقیم ہو اور اگر یہاں ہو تو بھی کوئی رقم یا جائیداد پہلے لڑکی کے نام کر سکے۔ ان کا ماننا تھا کہ لوگوں کا انسانیت پر سے اور ایک دوسرے پر سے اعتبار ختم ہو چکا ہے اور لالچ اور خود غرضی بہت سے رویوں سے جھلکتی ہے۔

یہ خودغرضی اور عدم اعتبار کا رویہ تو شادی کے بعد بھی کچھ جگہوں پر دکھائی دیتا ہے۔ ایک جاننے والے شخص نے بتایا کہ ان کی شادی کو پانچ سال بیت چکے ہیں اور دو بچے ہیں ان کے، یہ صاحب ملازمت پیشہ ہیں، کہنے لگے کہ میری بیوی کا خاندانی کاروبار ہے جو وہ چاہتی ہے کہ میں ملازمت چھوڑ کر سنبھال لوں کیونکہ اس طرح ہم دونوں زیادہ کما سکیں گے، مگر میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر کل کو ہماری طلاق ہو گئی تو نہ میری ملازمت رہے گی نہ کاروبار، میں اپنی کشتیاں کیوں جلاوں؟ یہ بات سن کر میں ابھی تک حیران ہوں کہ شادی کے ان تمام برسوں کے بعد بھی ان صاحب کا اپنے رشتے پر کوئی اعتبار آخر کیوں نہیں بن پایا، مگر یہ بے اعتباری روپے پیسے کے بارے میں ہی ہے کیونکہ اسی بے اعتباری کے ساتھ وہ دو بچوں کو اس دنیا میں لا چکے ہیں۔

میری ایک دوست ہیں، جن کی رشتہ والیوں کے توسط سے بظاہر ایک پڑھے لکھے گھرانے میں شادی ہوئی۔ ان کے میاں نے ان کے والدین سے اپنے دفتر میں بیٹھ کر ملاقات کی اور بالکل نفیس آدمی معلوم ہوئے، شادی کے بعد بھی ان کے ساتھ ایک مناسب رویہ روا رکھا گیا، تا وقتیکہ ان کے ہاں اولاد پیدا ہو گئی۔ اولاد کی پیدائش کے بعد جب ان کے میاں کو لگا کہ اب وہ اولاد کی خاطر مجبور ہو چکی ہیں، اس شخص نے انہیں ان کے والدین کے گھر بھیج دیا اور بتایا کہ وہ دفتر جو میں نے اپنا ظاہر کیا تھا اصل میں میرے دوست کا تھا، میں تو معاشی طور پر بہت تنگ ہوں، اب تم اپنے والدین سے فلاں شمار کی رقم لاو تو ہی ہماری شادی شدہ زندگی چل سکتی ہے۔ ان کے والدین وہ رقم دینے کے قابل نہیں تھے، ان خاتون نے ڈیڑھ، دو سال اپنے شوہر کے سدھر جانے کا انتظار کیا اور بالاخر خلع لے لی۔ اس پر بھی ان کے سابقہ شوہر نے انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی کہ دیکھو وہ شادی چلانا ہی نہیں چاہتی تھی اس لئے اس نے خلع لی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ان تمام برسوں میں نہ تو بچے کا کوئی خرچ دیا اور نہ ہی خلع کے بعد۔

میری دوست کہتی ہیں کہ کیونکہ وہ ابھی بالکل جوان تھیں، ان کے والدین نے ان کے لئے دوسرے رشتے کی تلاش شروع کر دی۔ کہتی ہیں کہ اب کے جو رشتے آئے ان میں عمروں کا بے تحاشہ فرق بھی تھا ، کچھ مرد حضرات وہ بھی تھے جو اپنے بچوں کے بیاہ سے فارغ ہو چکے تھے۔ کچھ وہ حضرات بھی تھے جو ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کے خواہاں تھے۔ کہتی ہیں کہ ان کی طرح ایک آدھ بچے والے مناسب عمر کے لوگ تو زیادہ تر غیر شادی شدہ خواتین میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں اور انہیں ایسی خواتین کے رشتے مل بھی جاتے ہیں۔ کہتی ہیں کہ کچھ ایسے لوگ بھی سامنے آئے جن کا انداز ان کے سابقہ شوہر سے مماثلت لئے ہوئے تھا اور جنہوں نے انہیں یقین دلایا کہ ہمارے بچے تو اپنی ماوں کے پاس ہیں اور ہم انہیں خرچ تک نہیں دیتے مگر تمہارے بچے کی ہم پوری ذمہ داری اٹھائیں گے، آخر ایسے شخص پر وہ اعتبار کیونکر کرتیں؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمارے بچے تو تم پالو مگر اپنے بچے کو یا تو اس کے باپ کو دے دو اور یا اپنی ماں یعنی بچے کی نانی کو، ہم اسے نہیں رکھ سکتے۔

میں نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں ہمارے ہاں ایک طلاق یافتہ بچے کی ماں سے شادی کرنا لوگوں کے لئے قابل قبول کیوں نہیں؟ جبکہ مغربی معاشرے میں تو ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ کہنے لگیں کہ “دیکھو، اگر مغربی معاشرے کی طرح ڈیٹنگ اور دوسرے شخص کو جاننے کے بعد شادی ہو تو شخصیت کی بہت سی اچھائیاں ایسی بھی سامنے آ جاتی ہیں جو پیش آنے والے مسائل کے مقابلے میں دوسرے شخص کے لئے پرکشش ثابت ہو سکتی ہیں، مگر ارینجڈ شادی تو عموما شکل شباہت، روپے پیسے اور ظاہری مادی چیزوں کے علاوہ کسی بات پر مشتمل نہیں ہوتی۔  یہ بات تو تسلیم کرنا پڑے گی کہ طلاق کے بعد اور بچے کے بعد بوجھ تو خاتون پر پڑ جاتا ہےاور جذباتی مسائل بھی ہوتے ہیں۔ میں بھی ایک برے تجربے کے بعد عدم تحفظ کا شکار ہوں اور بے پناہ اچھائی اور خلوص کے بغیر مجھے بھی یقین دلانا مشکل ہے۔ پھر شادی ہوتے ہی مجھے پورا یقین ہے کہ میرا سابق شوہر مجھے تنگ کرنے کے لئے بچے کی حوالگی کا مقدمہ کر دے گا اور ہمارے عدالتی نظام میں پیش آنے والی مشکلات اور ان مقدمات کی طوالت سے تم واقف ہو، ایک ایسا شخص چاہیے جو کہ میرے ساتھ ان عدالتوں کے دھکے کھا سکے۔ اس نفسانفسی کے زمانے میں ایسا فرشتہ کہاں سے ملے گا؟”

میں نے کہا مگر آپ خود بھی تو ایک فرشتہ صفت خاتون ہیں۔ کہنے لگیں مگر اس بات کو سمجھنے کے لئے، اس کی قدر کرنے کے لئے، اس بات کو قبول کر کے لے کر چلنے کے لئے اور میرے سارے عدم تحفظات سے سمجھوتہ کرنے کے لئے پہلے تو میرے قریب آ کر مجھے سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس سے آگے میری ساری مشکلات میں میرا ساتھ دینے کے لئے جو شائیستگی، خلوص اور اخلاق کا معیار درکار ہے وہ مجھے ابھی تک تو دکھائی نہیں دیا۔ اس بات کے لئے تو ایک بہت اعلی تربیت، ایک روشن دل اور دماغ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو مادہ پرستی کی بجائے اچھے اخلاق اور اقدار کی بنیاد پر رشتہ قائم کرنا چاہتا ہو، اور اس کے علاوہ اس عدالتی نظام کی بہتری کی بھی تاکہ ایسے میں مستقبل میں پیش آنے والی کم از کم کچھ مشکلات تو کم ہو سکیں اور میں ایسے شخص پر بوجھ ڈالے بغیر کم از کم اپنے بچے کے حقوق تو سہولت سے حاصل کر سکوں۔ کیا تمہیں ایسا ہو پانا کسی معجزے کے علاوہ ممکن لگتا ہے؟

میری دوست کی باتیں تو بہت زیادہ ناامیدی لئے ہوئے تھیں مگر پھر بھی مجھے لگا کہ شاید دنیا قریب آنے سے، اچھی مثالیں بانٹنے سے، ایک کامیاب معاشرے کی کامیاب مثالوں کا ذکر کرنے سے، کبھی کچھ بہتری یہاں پر بھی آ جائے؟ نہیں تو پھر شاید معجزوں کا ہی یقین ، اعتبار اور انتظار کرنا ہو گا۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim