ملالہ اور میں


آج ملالہ نے اپنی دستخط شدہ کتاب ”میں ملالہ ہوں“ بھیجی تو ایک بار پھر وہ دن یاد آ گئے جب اس کی طالبان کے خلاف دلیرانہ مزاحمت سے ہمیں بے پناہ خوشی ملی تھی، پھر اسے کھو دینے کے غم نے بے پناہ اداس کر دیا تھا اور اس کے ایک نئی زندگی پانے کے بعد پہلے سے بڑھ کر کامیابیاں پانے کی پہلے سے بڑھ کر خوشی ہوئی تھی۔

ملالہ سے تعلق پرانا ہے۔ جب سوات پر طالبان کا غلبہ ہو رہا تھا، لڑکیوں کے سکول بند کیے جا رہے تھے، منگورہ کے ”خونی چوک“ میں ہر روز طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی لاشیں ٹانگی جاتی تھیں، تو بی بی سی اردو پر ”گل مکئی کی ڈائری“ شائع ہونا شروع ہوئی۔ اس میں ایک ننھی لڑکی طالبان کے راج میں اپنے دنوں کی روداد قلمبند کیا کرتی تھی۔ ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ اعتراض کیے جانے لگے کہ اتنی ننھی سی لڑکی کیسے ڈائری لکھ سکتی ہے۔ جدید سکولوں میں اب نرسری اور پریپ کے لیول پر بچوں کو ڈائری لکھنا سکھایا جاتا ہے تو تعلیم میں اتنی دلچسپی لینے والے ضیا الدین یوسفزئی کے خوشحال پبلک سکول میں یہ کیوں نہیں سکھایا جاتا ہو گا؟

ہماری اپنی بیٹی کی عمر ملالہ جتنی ہے۔ چند ماہ کا فرق ہے۔ وہ بھی اس وقت ساتویں جماعت میں ہی تھی اور اتنا ہی اچھا لکھ سکتی تھی۔ اس سے دو سال چھوٹا بیٹا اس وقت انگریزی میں شاعری کر رہا تھا۔ ہمیں ملالہ کی ڈائری پر اتنی حیرت نہیں ہوئی جتنی ان لوگوں پر ہوئی جن کا خیال تھا کہ ایک ساتویں کلاس کی بچی سیدھی سادی زبان میں اپنی ڈائری نہیں لکھ سکتی ہے۔ ہمیں ان لوگوں کے بچوں کی تعلیمی حالت پر افسوس ہوا۔

طالبان کے دور دہشت کے عروج میں جس طرح ملالہ نے ان کے خلاف پشاور پریس کلب میں اور حامد میر کے پروگرام میں کھل کر بات کی، اس نے اس کی اور اس سے زیادہ اس کے والد کی بہادری کا قائل کر دیا۔ باقی سب کی طرح ہمارا بھی یہی گمان تھا کہ عورتیں اور بچیاں پختون ولی کے حصار میں محفوظ ہوتی ہیں اور خطرہ ملالہ کو نہیں بلکہ ضیا الدین یوسفزئی کو ہے۔

یہ علم ہونے کے بعد کہ گل مکئی اصل میں ملالہ یوسفزئی ہے، اسے دنیا بھر میں طالبانیت کے خلاف جدوجہد کی علامت کے طور پر سراہا جانے لگا۔ اسے مختلف ممالک اور اداروں کی جانب سے ایوارڈ ملنے لگے۔ وزیراعظم پاکستان نے بھی ملالہ کو ایک قومی ایوارڈ سے نوازا۔

نو اکتوبر کی صبح ہم ناشتہ کر رہے تھے جب یہ خبر آئی کہ ملالہ یوسفزئی کو گولی مار دی گئی ہے۔ دل ایک دم تھم سا گیا۔ پورے گھر پر سوگ کی سی فضا چھا گئی۔ تصور میں اپنی بیٹی آتی تھی۔ تصور کرنا محال تھا کہ اتنی ننھی سی لڑکی کو کوئی کیسے ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس وقت سے ملالہ میں اپنی بیٹی کی صورت دیکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اور صحت یابی کے بعد جیسے جیسے ملالہ کامیاب ہوتی گئی تو ہمیں یہی لگا کہ ہماری اپنی بیٹی کامیاب ہو رہی ہے۔

یہ صدمہ پوری قوم کو پہنچا تھا اور ایک سکتے کی سی کیفیت طاری تھی۔ یہ دیکھتے ہوئے طالبان کے فکری حامیوں نے طالبان کی شبیہ کو پہنچنے والے نقصان کی روک تھام کے لئے ایک ایسے وقت ملالہ کے خلاف ایک مذموم ترین مہم شروع کی جس وقت وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ اس سلسلے میں احوال ڈاٹ کام نامی ایک ویب سائٹ نے ملالہ کی جعلی ڈائری شائع کی جس میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ برقعے اور داڑھی کا مذاق اڑاتی ہے۔ حالانکہ اس وقت بی بی سی پر ملالہ کی اصلی ڈائری موجود تھی مگر طالبان کے فکری حامیوں نے اس شدت سے اس جعلی ڈائری کا پروپیگنڈا کیا کہ آج بھی بیشتر پاکستانیوں کو یقین ہے کہ ملالہ نے واقعی یہ لکھا تھا اور یہ جعلی ڈائری سوشل میڈیا پر کاپی پیسٹ ہوتی رہی۔

قوم کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جانے لگی کہ ملالہ پر طالبان نے حملہ نہیں کیا۔ مگر ایک مشکل پیدا ہو گئی۔ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ جماعت اسلامی طالبان کو کلین چٹ دلوانے کی اس مہم میں پیش پیش تھی۔ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے فرمایا کہ ”شمالی وزیرستان پر حملے کا جواز پیدا کرنے کے لئے ملالہ کو نشانہ بنایا گیا، ملالہ پر حملے سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ احسان اللہ احسان فرضی آدمی ہے“۔ جماعت کے لکھنے والوں نے یہی لائن پکڑی اور طالبان کو معصوم قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ یہ حملہ امریکی ایجنٹوں نے کیا ہے۔

رفتہ رفتہ یہ مہم اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر گئی۔ ایک طرف ملالہ کے کردار کو نشانہ بنایا گیا، اور دوسری طرف یہ کہا جانے لگا کہ یہ ڈرامہ ہے، ملالہ کو گولی لگی ہی نہیں، سر میں گولی لگنے کے بعد کون زندہ بچ سکتا ہے۔ گویا ان لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ پاکستانی حکومت، پاک فوج، طالبان، ملالہ، امریکی، متحدہ عرب امارات کے حکمران اور برطانوی و امریکی حکام مل کر ڈرامہ کر رہے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ آج تک بے شمار لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ ملالہ کو گولی نہیں لگی تھی۔

ملالہ کے تو خیر سر میں ایک طرف گولی لگی تھی اور گردن کے پاس سے باہر نکل گئی تھی، مگر ایسے انسان موجود رہے ہیں جو دس بیس سال قبل سر میں گولی لگنے کے باوجود زندہ رہے۔ ان کے دماغ میں گولی اس طرح پیوست تھی کہ آپریشن کے ذریعے نکالنا ممکن ہیں تھا اور انہوں نے اس گولی کے ساتھ ہی ایک طویل زندگی گزاری۔ ملالہ کے چہرے کے عضلات کو نقصان پہنچا جو آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ملالہ کا جنرل اسمبلی میں خطاب انوکھا تھا۔ ہمارے سربراہان حکومت تقریر کرتے ہیں تو جنرل اسمبلی کا ہال خالی ہوتا ہے۔ ملالہ کی تقریر کے موقع پر دنیا بھر کے سربراہان مملکت اور وزرائے خارجہ سے وہ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ صدر امریکہ، ملکہ برطانیہ، کینیڈا کے وزیراعظم، اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری، کون کون ہے جو ملالہ سے ملاقات کا متمنی نہیں رہا ہے اور اس کے ساتھ اپنی تصاویر کو اہمیت نہیں دیتا۔

آپ اس بات سے بھی ملالہ کی آواز کی طاقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس وقت ہمارے دوست فیض اللہ خان ڈیورنڈ لائن کے قیدی بن کر افغانستان میں لمبی سزا پانے کو تھے، اور پاکستانی حکومت اور اہم پختون لیڈروں کی ہزار کوشش کے باوجود افغان انہیں معاف کرنے کو تیار نہیں تھے، تو ملالہ یوسفزئی کے ایک فون نے افغان صدر حامد کرزئی کو مجبور کر دیا کہ وہ فیض اللہ خان کو رہا کر دے۔

ملالہ اس وقت پڑھ رہی ہے اور اپنی ملالہ فاؤنڈیشن کے ذریعے پاکستان سمیت دنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہے۔ نوبل پرائز کی تمام رقم اس نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے دے دی ہے اور ملالہ فاؤنڈیشن کے ذریعے مزید رقوم بھی دے رہی ہے۔

اس وقت پاکستانی حکومت اور قوم ذرا سی بھی حکمت سے کام لے تو اکیلی ملالہ وہ کام کر سکتی ہے جو ہمارا دفتر خارجہ دس سال میں نہیں کر پائے گا۔ ملالہ کے غیر معمولی اثر و رسوخ کو پاکستان اپنے سافٹ امیج کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ اس وقت وہ آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ جیسے ہی وہ تعلیم سے فارغ ہوتی ہے تو اسے سفارتی ذمہ داریاں دی جا سکتی ہیں۔ اور کچھ نہیں تو اس کی ملالہ فاؤنڈیشن کے ذریعے پاکستان میں تعلیم کے لئے غیر معمولی فنڈنگ حاصل کر کے ایک انقلاب لایا جا سکتا ہے۔

مگر شرط صرف یہ ہے کہ پاکستانی قوم اسے اپنا تو سمجھے۔ ملالہ کے معاملے میں پاکستانی قوم کے رویے پر تو بار بار جون ایلیا کا شعر یاد آتا ہے۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

بے شمار لوگ اس ملالہ کے خلاف تو کھڑے ہیں جس نے ہمیشہ پاکستان کا بھلا ہی کیا ہے مگر اسے گولی مارنے کے علاوہ ستر ہزار پاکستانیوں کو جان سے مار ڈالنے والے طالبان کی مخالفت نہیں کرتے۔ بے شمار پاکستانی خود کو مارنے والے دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور امن کی بات کرنے والوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔

12 اپریل 2017

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar