باہر جانے کے لئے قطاریں بنائے نوجوانوں کو روکیں


اس تصویر میں نظر آنے والے نوجوان جو قطار بنا کر باہر ملک جانے کا فارم حاصل کر رہے ہیں اس کے بعد انہیں گھنٹوں زمین پر بیٹھ کر اپنے انٹرویو کی باری کا انتظار کرنا ہے۔ یہ سب کچھ آئے روز اسلام آباد کے مرکزی حصے بلیو ایریا میں ہو تا رہتا ہے۔ سینکڑوں پڑھے لکھے نوجوان اپنا پاسپورٹ لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ ان نوجوانوں سے جب بات ہوئی تو پتہ چلا کہ کوئی انجنیئرنگ کی ڈگری تھامے کھڑا ہے تو کوئی ایم اے کر چکا ہے اور وہ قطر اور سعودی عرب جانے اور پلمبر، پینٹر اور ہیلپر جیسی معمولی نوکریوں کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ بقول ان کے کمپنی کو صرف پیسے چاہئیں باقی تجربے کے سرٹیفکیٹ تو آسانی سے بن جاتے ہیں اور کام تو جا کے سیکھ ہی لیں گے بس کسی طرح پاکستان سے چلے جائیں۔ روزگار کے حصول کے لیے پاکستانی بیرون ملک کا رخ کرتے رہتے ہیں۔ ماضی میں بھی یورپ، مشرق وسطیٰ اور خلیج میں پاکستانی اپنی قسمت چمکاتے رہے ہیں۔ اکثر بے روزگار نوجوان اپنی آنکھوں میں باہر کے سہانے خواب سجا کر قانونی یا پھر غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اکثر لوگ انسانی اسمگلرز اور ایجنٹس کے ہاتھ لگ کر ایک ایسے سفر کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جس کی منزل کے بارے میں ان کو کوئی یقین نہیں ہوتا کہ کب اور کیسے پہنچیں گے بس توکل کے آسرے پر جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور گردشی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ پاکستان اسٹیل مل، پی آئی اے اور پاکستان ریلوے سمیت دیگر سرکاری ادارے سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ دھرنوں اور احتجاجوں نے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کا سب سے بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ نوجوانوں کو روزگار کے لیے خاطر خواہ مواقع نہیں مل رہے ہیں۔ اگر وزیر اعظم کی روزگار اسکیم کی بات کی جائے تو قرضہ صرف ان ہی لوگوں کو ملا جن کے پاس کوئی گارنٹی یا سرمایہ تھا۔

باقی غریب بے روزگار لوگ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوانوں کے لیے وزیر اعظم روزگار اسکیم کے اشتہار منظر عام سے ایسے غائب ہو گئے جیسے کوئی اسکیم تھی ہی نہیں۔ اس صورتحال میں دیکھا دیکھی لوگ بس بیرون ملک جانے کے سپنے دیکھنے لگ گئے کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں چاہے نوکری کوئی بھی ہو۔ آئے روز بیرون ملک پاکستانیوں کی پریشانیوں کی کہانیاں منظر نامے پر آتی رہتی ہیں مگر اس کے باوجود ہمارے بے روزگار نوجوان بغیر کسی غور و فکر کے بیرون ملک جانے کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔ کبھی ہمارے نوجوان کشتیاں الٹنے، بارڈر فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہو جاتے ہیں تو کبھی قیدی بنا لیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں ہر سال ہزاروں نوجوان یوینورسٹیوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل ہوکر نوکریوں کے لیے در بدر پھرتے ہیں۔ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر میں اسامیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جس ملک میں لیبر لاز صرف فائلوں میں ہوں کم سے کم اجرت طے ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہو پا رہا ہو اور ملک میں کیرئیر کونسلنگ نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان اپنے مستقبل سے بے خبر ہوں۔ یقیناً اس صورتحال میں ملک کے نوجوان بیرون ملک روزگار کے حصول کو ہی ترجیح دیں گے چاہے نوکری پلمبر کی ہو یا سیکیورٹی گارڈ کی۔

اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے ملک میں پبلک اور پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دے کر اور ملکی اداروں کی نئے سرے سے تکمیل نو کریں تاکہ روزگار کے نئے نئے مواقع پیدا ہو سکیں۔ اگر جنوبی کوریا 1960 میں پاکستان کی مدد سے پانچ سالہ منصوبے سے ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں۔ کوریا نے ثابت کیا ہے کہ پالیسیاں یا منصوبے کامیاب یا ناکام نہیں ہوتے ان پر عمل درآمد ان کو کامیاب یا ناکام بناتے ہیں۔ جس ملک کی عوام اپنی 70 سالہ بھیانک تاریخ اور تلخ تجربات کے باوجود ابھی بھی سیاسی، معاشی مستقبل اور جھموری حکومتوں کے فوائد سے بے خبر ہوں تو یقیناً اس ملک کے پڑھے لکھے نوجوان اس طرح بیرون ملک روزگار کے حصول کے لیے دن دہاڑے سڑکوں اور چوراہوں پر خوار ہوتے ہوئے نظر آتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).