جب مسلمانوں نے بیسویں صدی کی صلیبی جنگ میں یروشلم کھو دیا


ڈانلڈ ٹرمپ نے تو ابھی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے مگر مسلمانوں نے تو اسے صلیبی جنگ میں 101عین برس قبل دسمبر میں کھو دیا تھا۔ گیارہ دسمبر 1917 وہ دن تھا جب مسلمانوں نے یروشلم کو برطانیہ کے حوالے کر دیا۔

گیارہ دسمبر 1917 کے دن برطانیہ کی مصری فوجی مہم کا سربراہ جنرل ایڈمنڈ ایلنبی یروشلم میں داخل ہوا۔ دو دن پہلے شہر کے دروازے پر عثمانی حکام نے سفید جھنڈا لہرا کر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا تھا۔ جنرل ایلنبی نے یروشلم کے جافا گیٹ کو داخلے کے لئے منتخب کیا۔ دروازے کے باہر پہنچ کر وہ اپنے گھوڑے سے اتر گیا اور پاپیادہ اس مقدس شہر کی جانب بڑھا۔ یہ جرمنی کے بادشاہ قیصر ولہلم کے مقابلے میں اپنی عقیدت دکھانے کے لئے تھا۔ 1898 میں قیصر ولہلم دوم یروشلم آیا تو وہ اصرار کر کے اپنے سفید گھوڑے پر سوار ہو کر زائر کی بجائے ایک بادشاہ کی شان سے شہر میں داخل ہوا تھا۔

برطانیہ کے جنرل ایڈمنڈ ایلنبی نے شہر میں داخل ہوتے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے ”صلیبی جنگیں اب مکمل ہو گئی ہیں“۔
19 دسمبر 1917 کے برطانوی جریدے پنچ نے ایک تصویر پر سرخی جمائی، ”آخری صلیبی جنگ“۔ اس تصویر میں رچرڈ شیردل کو دکھایا گیا تھا جو یروشلم کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کی کیپشن تھی ”میرا خواب سچ ہو گیا“۔

جنرل ایڈمنڈ ایلنبی کی کمان میں موجود فرانسیسی کمانڈر ہنری گوراد نے یکم اکتوبر 1918 کے دن دمشق پر قبضہ کیا۔ وہ سیدھا صلاح الدین ایوبی کے مقبرے پر گیا، اسے ٹھوکر لگائی اور چیخا ”صلیبی جنگیں اب ختم ہو گئی ہیں! جاگو صلاح الدین، ہم واپس آ گئے ہیں! میری یہاں موجودگی نے صلیب کی ہلال پر فتح کو برحق ثابت کر دیا ہے“۔

امریکی صدر جارج بش کو طاقت میں لانے والے نیو کانز (نئے قدامت پرست) مشرق وسطی میں اسرائیل کی فتح چاہتے تھے۔ نائن الیون میں عراق پر حملے کے پیچھے بھی یہی مقصد تھا کہ مشرق وسطی کی سب سے طاقتور مسلم فوج کو برباد کر کے اسرائیل کو تقویت بخشی جائے۔ نیو کانز اس لئے یہودیوں کی حمایت کر رہے تھے کہ ان کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسی کی دوبارہ آمد سے پہلے یہودیوں کی مشرق وسطی پر حکومت ضروری ہے۔ جارج بش کے وزیر داخلہ ڈانلڈ رمز فیلڈ جب صدر بش کو عراقی جنگ کے متعلق رپورٹس اور تصاویر دیتے تھے تو ان پر بائبل کی آیات خاص طور پر درج کی جاتی تھیں۔ امریکہ میں مذہبی انتہاپسندی موجود ہے۔

یورپ کے برخلاف امریکہ میں مذہبی شدت پسندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یورپ نے مذہبی جنگوں میں بہت جانیں کھوئی ہیں۔ یہی جنگیں اور چرچ کا استبداد ان کو ریاست اور چرچ کی علیحدگی کی طرف لے گیا تھا۔ امریکیوں کو مذہبی جنگوں کے نقصان کا اندازہ نہیں ہے۔ فینیٹک یعنی مذہبی جنونی کا لفظ سب سے پہلے امریکی انتہاپسند مسیحیوں کے متعلق استعمال کیا گیا تھا۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ صلیبی جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔ تہذیبات کے ٹکراؤ میں اب مسیحی تہذیب اور مسلم تہذیب کی جنگ ہو گی۔

ڈانلڈ ٹرمپ اس وقت سیاسی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے سابقہ مشیر کی روس سے تعلقات کے متعلق گواہی کے بعد وہ دھیرے دھیرے مواخذے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عین اس وقت یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد نیو کانز اور طاقتور یہودی لابی میں ان کی سپورٹ میں اضافہ ہو گا۔

لیکن اس کا نتیجہ دہشت گردوں کی طاقت میں اضافے کی صورت میں بھی نکلے گا۔ داعش مسلسل شکستوں سے دوچار ہونے کے بعد اس وقت تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے۔ القاعدہ کی طاقت ختم ہو رہی ہے۔ ڈانلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد اب پرجوش مسلم نوجوان ان کی صفوں میں شامل ہوں گے۔ ان میں سے کئی دہشت گردی کی کارروائیاں تن تنہا کریں گے جن میں چند درجن مغربی شہری مریں گے اور اس کی قیمت بے شمار مسلمانوں کو چکانی پڑے گی۔ قیمت ہمیشہ کمزور چکاتا ہے۔ ہم نہ معیشت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، نہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر اور نہ کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے پر۔ ایسے میں ہم کمزور نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوں گے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar