بنارس خان موچی، درازندہ کا سعداللہ شاہ: باپ ڈرتا ہے


ڈیرہ اسمعیل خان سے ژوب کی طرف جائیں تو درازندہ کا نیم قبائلی گاؤں آتا ہے۔ درازندہ میں لکڑیاں بیچنے والے سعداللہ شاہ کا بیٹا قاسم شاہ محکمہ زراعت کے تربیتی مرکز میں تعلیم پا رہا تھا۔ سعداللہ شاہ امید لگائے تھا کہ قاسم شاہ برسرروزگار ہو کر اس کا سہارا بنے گا۔ پانچ دسمبر کو قاسم شاہ کو آخری امتحان دینا تھا۔ یکم دسمبر کو پشاور میں تین برقع پوش دہشت گرد زراعت ڈائریکٹوریٹ میں گھس گئے۔ گیارہ معصوم افراد کو شہید کر ڈالا جن میں بیس برس کا قاسم شاہ بھی شامل تھا۔ درازندہ کے لکڑہارے سعد اللہ شاہ کا پیڑ کٹ گیا۔ فیض آباد میں دھرنا ختم ہونے کے بعد برادر عزیز مبشر اکرم نے چند تصویریں بھیجی تھیں۔ ایک تصویر میں کھمبے کے نیچے بوٹ پالش کرنے والے کا جلا ہوا باکس نظر آ رہا تھا۔ دھوئیں سے زمین سیاہ ہو چکی تھی لیکن اس پر بوٹ پالش کی جلی ہوئی ڈبیاں اور برش صاف نظر آ رہے تھے۔ اب سوشل میڈیا پہ فیض آباد کے موچی بنارس خان کی ویڈیو چل رہی ہے۔ بنارس خان دن بھر کام کرنے کے بعد اپنے روزگار کا سامان یہیں چھوڑ جاتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ ایک غریب موچی کے بوٹ پالش سامان کو کسی سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اور پھر مذہب کے نام پر تشدد کرنے والے آئے۔ فیض آباد کی فضا میں گالیاں ہی گالیاں تھیں۔ میٹرو سٹیشن توڑ ڈالے۔ بلند و بالا پلازوں کو آگ لگا دی۔ پولیس اہل کاروں کو اغوا کر کے ان کے بازو اور ٹانگیں توڑ ڈالیں۔ بنارس خان کے رزق کا حیلہ بھی جل گیا۔ ریاست کی بنیادیں ہلانے والوں کو کیا خبر کہ ان کی آتش خطابت نے بنارس خان موچی کا چولہا ٹھنڈا کر دیا ہے۔ ویڈیو میں بنارس خان بے بسی کی تصویر بنا کہہ رہا ہے، ’مجھے معلوم نہیں یہ ریاست نے کیا ہے یا مولویوں نے‘۔ واقعی، اس سوال کا جواب معلوم کرنا بہت مشکل ہے۔

درازندہ کا قاسم شاہ شہید

کل شام شیر خان میرے پاس آئے اور کہنے لگے، کالم لکھیے۔ پوچھا، کیا لکھوں؟ کہنے لگے ’لکھیں، باپ ڈرتا ہے‘۔ شیر خان کا بیٹا سمیع اللہ خان پشاور کے نرسنگ کالج میں چار برس تعلیم پانے کے بعد ہاو ¿س جاب مکمل کر رہا ہے۔ شیر خان سے انیس برس کی رفاقت ہے۔ دبنگ آدمی ہیں مگر مشال خان اور قاسم خان کو بے گناہی کی سزا پاتے دیکھ کر شیر خان کے سینے میں باپ کا دل ڈر گیا ہے۔ زیادہ مدت نہیں گزری، کالا کوٹ پہن کر سڑک پر نکلنے والے ہمیں سندیسہ دیتے تھے کہ ریاست ماں کے جیسی ہو گی۔ دس برس بعد صورت حال یہ ہے کہ ماں سہم چکی ہے اور باپ ڈرتا ہے۔ اور شیر خان کی سادگی دیکھیے کہ کالم نگار کے عجز بیان سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں….

انسانی معاشرہ اس بھرم پہ استوار ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں دادرسی کی کوئی کھڑکی کھلی ہے۔ گھر میں کھانے کی میز پہ بچوں میں کھٹ پٹ ہو جائے تو ماں مداخلت کرتی ہے۔ ایک ان کہا اصول موجود ہے کہ ماں بچوں کے جھگڑے کی تفصیل میں جائے گی اور معاملہ سلجھ جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ بچے لاڈ میں آ جائیں اور ماں کی بات نہ مانیں۔ ایسی صورت میں باپ سے رجوع کیا جائے گا اور باپ ایک جملے میں ناانصافی کرنے والے بچے کی سرزنش کر دے گا۔ انصاف اور بھائی چارے کی فضا پھر سے قائم ہو جائے گی۔ سکول میں جھگڑا ہو جائے تو ہیڈ ماسٹر صاحب موجود ہیں۔ ہر ریاستی یا کاروباری ادارے میں ایک سربراہ موجود ہوتا ہے۔ معاشرے میں انصاف کا سب سے بڑا ایوان تو پارلیمنٹ ہے۔ پارلیمنٹ کی قانون سازی کمزور اور طاقتور کے درمیان انصاف کے خدوخال واضح کرنے کا ادارہ ہے۔ پارلیمنٹ نے حکومت کا بندوبست چلانے کے لئے ایک قائد ایوان چن رکھا ہے، اسے وزیر اعظم کہتے ہیں۔ اگر پارلیمینٹ میں آئین کی تشریح پہ اختلاف ہو جائے تو ہاتھ بھر کے فاصلے پہ عدالت عظمی کا دروازہ موجود ہے۔ عدالت آئین کی تشریح کرتی ہے۔ اس تمام بندوبست کی بنیاد انصاف کی ساکھ پر استوار ہے۔

معاشرہ دبڑگھونس اور زورآوری کے اصولوں پہ نہیں چلتا۔ ریاست میں جو منصب قائم کیے گئے ہیں ان کا احترام واجب ہے۔ اختلاف رائے کرتے ہوئے کبھی صاحب منصب بھی تنقید کی زد میں آ سکتا ہے۔ منصب پہ فائز ہونے والا شخص بنیادی طور پہ تو ریاست کا شہری ہے۔ اپنی انفرادی خوبیوں اور خامیوں سے خالی نہیں۔ اس پر تنقید ہو سکتی ہے۔ منصب کی ساکھ بہر صورت قائم رہنی چاہئیے۔ ہمارے ملک میں یہ المیہ رونما ہوا کہ صاحب منصب سے اختلاف میں منصب کی آبرو بگاڑی گئی ہے۔ یہ المیہ جمہوریت سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان تک منصب اور قیادت کے زاویے استوار تھے۔ پنجاب کا چیف سیکرٹری حافظ عبدالمجید کسی کی دھونس میں آئے بغیر فائل پر نوٹ لکھتا تھا۔ غیرجمہوری قیادت تو سازش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ سازش میں گٹھ جوڑ کرنے والے ایک جرم میں شریک ہوتے ہیں، چنانچہ اپنے شریک جرم کی بالادستی کیوں تسلیم کریں۔ اسکندر مرزا خود کو گورنر جنرل غلام محمد کی ضرورت کیوں نہ سمجھے؟ جنرل ایوب خان کیسے جنرل حبیب اللہ پر قائدانہ برتری قائم کرتے؟ جنرل گل حسن اور جنرل پیرزادہ ایک دوسرے سے رسمی تعلق کے روادار بھی نہیں تھے۔ جنرل فیض علی چشتی نے جنرل ضیاالحق کے بخیے ادھیڑ دیے۔ جنرل گلزار کیانی اور جنرل شاہد عزیز نے جنرل پرویز مشرف کی قامت ٹھیک ٹھیک بیان کر دی۔ یہ محض صاحب منصب پر تنقید نہیں تھی، ناجائز طریقے سے منصب پر فائز ہونے والا دراصل منصب کو بے توقیر کر دیتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں ایک منصب باقی نہیں جس کی دو ٹکے کی حرمت باقی رہی ہو۔ ہر شام ٹیلی ویژن کی اسکرین پر صحافی بے دریغ دھول اڑاتے ہیں۔ خادم حسین رضوی کے ہاتھوں محترم صحافی محمد مالک کی اہانت دیکھ کر معلوم ہوا کہ اگر اہل صحافت سیاسی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کوئی حد، کوئی ضابطہ ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے تو وہ خود بھی ہرزہ سرائی سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

دوسری اجتماعی غلطی ہم سے یہ ہوئی کہ ہم نے ریاست کی سطح پر عقیدے کی آزادی کا اصول بری طرح مجروح کیا۔ عقیدے کی آزادی کا مفہوم یہی ہے کہ عقیدہ جرم نہیں ہوتا۔ عقیدے کے اختلاف کا احترام کرنا چاہیے۔ عقیدے سے قطع نظر ہر شہری کو ایک جیسا تحفظ اور احترام ملنا چاہیے۔ ہم نے اس اصول کو دل کھول کر پامال کیا۔ کوئی وجہ تو تھی کہ معین قریشی، شوکت عزیز اور سرتاج عزیز کے نام ریاست کے اعلیٰ مناصب کے لئے سامنے آئے تو ان کے عقیدے کی پڑتال شروع ہو گئی۔ ہم نے پھانسی پانے والے مظلوم وزیر اعظم کے عقیدے کی کھوج میں ان کے جسد خاکی کا بھی احترام نہیں کیا۔ اس کے بعد یہ ناگزیر تھا کہ اقتدار کے ہر نشان کو اس آزمائش سے گزرنا پڑے گا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پوری قوم کو سربازار گالی گلوچ سننا پڑی ہے۔ گالی جنسی تشدد کی دھمکی ہی تو ہے۔ کچھ لوگ تعجب کرتے تھے کہ سوات میں بچیوں کے سینکڑوں اسکول جلائے گئے۔ تقویٰ کے پتلے خاموش رہے۔ عراق اور شام میں عورتوں کو گائے بھینس کی طرح نیلام کیا گیا، پارسائی کے عماموں میں لرزش نہیں آئی۔ عقیدے کی روشنائی میں قلم ڈبو کر کالم لکھنے والے صحافی نے گالی گفتار کا مذہبی جواز بیان کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس سوچ سے بنارس خان موچی کا روزگار ہی خطرے میں نہیں، سعداللہ خان کا بیٹا ہی نشانے پر نہیں، اس مورچے میں گھات لگا کر بیٹھے غنیم سے ہماری عزت محفوظ ہے اور نہ جان۔ سمیع اللہ خان کا باپ شیر خان ڈر رہا ہے اور اسے ڈرنا چاہیے کیونکہ دروازے ایک ایک کر کے منہدم ہو چکے ہیں اور ریاست سہم چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).