خواتین یونیورسٹی میں ڈانس اور غیر ذمہ دارانہ صحافت


غیر نصابی یا ہم نصابی سرگرمیاں کسی بھی تعلیمی ادارے کی پروموشن کے لئے جزو لاینفک بن گئی ہے۔ اور پھر اُن سرگرمیوں کی میڈیا کوریج اُس سے بھی ضروری چیزہے جس سے پبلسٹی ملتی ہے اور ادارے کی کاکردگی جانچی جاتی ہے۔ خاص کر پرائیویٹ اداروں کو زیادہ مارکیٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ سرکاری ادارے اس جانب اتنی توجہ نہیں دیتے۔ مگر پھر بھی میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ تعلیمی اداروں میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں طلبہ کو انوالو کرنا نہ صرف تعلیمی اداروں کے سربراہ چاہتے ہیں بلکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سےبھی واضح ہدایات ملتی ہیں کہ طلبہ کو منشیات سمیت دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں سے بچانے کے لئے طلبا وطالبات کو مثبت سرگر میوں میں مصروف رکھاجائے اس لئے تعلیمی اداروں میں ہرسال اسپورٹس ایونٹس سمیت مختلف قسم کے پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں طلبا وطالبات اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے حصہ لیتے ہیں اور اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مگر جب ان پروگراموں میں میڈیا کی انٹری ہوجاتی ہے تو ایونٹ میڈیا میں مثبت کی بجائے منفی کردار ادا کرتا ہے۔ کیونکہ بقول میرے ایک دوست کے جو کہ میڈیا میں نہیں ہے وہ کہتا ہے کہ میڈیا والوں کے پاس دو خبریں ہوتی ہیں ایک مثبت اور دوسری منفی، جب اُن کے ساتھ اچھا رویہ اپنایا جائے تو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے اور اگر روئیے میں تبدیلی ہو اور حسن سلوک کے ساتھ پیش نہ آیا جائے تو پروپیگنڈہ کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ اور میں اپنے دوست کے ساتھ اس بات پر متفق بھی ہوں۔

اسکی واضح مثال گزشتہ دنوں شہید بے نظیر بھٹو ویمین یونیورسٹی پشاور لڑمہ کیمپس میں دو روزہ ایجوکیشن ایکسپو میں نظر آئی جسمیں سماء ٹی وی نے صرف ریٹنگ کے لئے ادارے اور ایک طالبہ کی زندگی میں مشکلات پیدا کیں۔ میری اطلاعات کے مطابق نیوز چلنے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کو حکومت نے آڑے ہاتھوں لیا ہے اور جس طالبہ نے ڈانس کیا ہے اُس کو بھی تھریٹس ملے ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی کی میڈیا انچارچ کو بھی پریشانی کاسامنا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبات کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لئے دو روزہ ایونٹ منعقد کیا جس میں یونیورسٹی کے ساتھ ایک دوسرے ادارے کا اشتراک بھی شامل تھا۔ طالبات نے منعقدہ ایونٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔

چونکہ یونیورسٹی ویمین یونیورسٹی تھی اس لئے خواتین فیکلٹی اور طالبات نے اپنا گھر سمجھ کر اس کے پروگراموں میں حصہ لیا۔ جس طرح اپنوں میں یا خاندان میں شادی ہوتی ہے۔ تو مرد و خواتین اپنی روایات کے مطابق ناچتے اور گاتے بھی ہیں۔ کیونکہ خوشی کے مواقع بار بار نہیں آتے۔ تو یہاں یونیورسٹی میں بھی ایک طالبہ نے ڈانس کیا۔ جس کو میرے صحافی بھائیوں نے پروگرام کو بہتر طریقے سے کرنے کے لئے شوٹ کیا کہ اوورآل پیکیج اچھا بن جائے گا۔ مگر بعد میں انتظامیہ نے جب یونیورسٹی کے تمام فنکشن کو عام ایونٹ کی نظر سے دیکھا تو اُس میں ڈیویلپمنٹل جرنلزم کی سٹوری تو تھی مگر ریٹنگ کی اور ٹی آر پی کوئی سٹوری نہیں تھی۔ جس سے چینل کی ریٹنگ اور بیورو کی ٹاپ پوزیشن پر آنے کے چانسز کم تھے اور دوسری جانب ساری میڈیا ٹیمیں کوریج کے لئے گئی تھی ایک تو اس لئے کہ خواتین کے پروگرام تھے اور دوسری میڈیا کا پیٹ بھرنے کے لئے بھی کچھ نہ کچھ مل جاتا۔ تو ساری میڈیا ایک عام ایونٹ کی حیثیت سے ہی نیوز سٹوری چلاتے۔

کچھ یونیک کرنے کے لئے سما ء ٹی وہ پشاور بیورو کی انتظامیہ نے سوچا کہ کیوں ناں طالبہ کے ڈانس کو فوکس کرکے سنسنی پھیلا ئی جائے۔ اور شو کیا جائے کہ پشاور کی یونیورسٹیوں میں طالبات کیا کیا گُل کھلاتی ہیں۔ پشاور جہان خواتین پر تعلیم کے اب کہیں جا کر کھلے ہیں۔ جہاں کی خواتین صرف گھروں میں مقید تھیں۔ جن کا کام صرف مردوں کی خدمت اور بچوں کی پروش تھی۔ صرف چادر اور چاردیواری تک ہی خواتین محدود تھیں۔ دکھایا گیاکہ خواتین کو آزادی ملتی ہے تو وہ کیا کیانہیں کرتیں۔ یہ دکھایا گیا کہ جو پرانی دقیانوسیانہ سوچ تھی وہ ٹھیک تھی۔ خواتین کوجتنا گھرکے اندر رکھوگے ٹھیک ہوگا۔ اور نجانے کیا کیا نہیں سوچ کر اس سٹوری کو چلانے کی چاہ کی گئی ہوگی۔

ان سب چیزوں سے بالاتر ہوکر کہ گزشتہ ہفتے پشاور کی زرعی انسٹی ٹیوٹ کو عسکریت پسندوں نے نشانہ بناکر معصوم طلباء کو شہید کیاہے۔ اے پی ایس اور باچا خان یونیورسٹی کا واقع اسی خطے میں وقوع پذیر ہوا ہے۔ اور جوحالات ہیں اُس سے میڈیا کے کارکن زیادہ باخبر ہیں۔ پھر بھی ان حالات کو بالائے طاق رکھ کرجب ایسی نیوز کو اگے جانے کی اجازت دی جاتی ہے تو ذہنیت پر ماتم کرنے کے سواکچھ نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی نہیں سوچا گیا تو یہ سوچ تو ذہن کے نہاں خانوں میں پنپ ہی گئی ہوگی کہ اس ادارے کی ساکھ پر کیا اثر پڑے گا۔ یا اُس طالبہ کی زندگی پر کیا اثر لائے گا۔ اُس کے خاندان والوں پر کیا بیتی ہو گی۔ پشاور کے حالات جس طرح ہیں وہ اس ادارے کو ٹارگٹ میں لاسکتی ہے ویمین یونیورسٹی میں سیکورٹی کی کیا صورت ہے اور مستقبل میں اس چھوٹی سی نیوز سٹوری کے کتنے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس بارےمیں بالکل بھی نہیں سوچا گیا۔ صرف اپنے چینل کی ویورشپ کے لئے صحافت کا جنازہ نکال دیا گیا۔

اس ایک چھوٹی سی خبر سے کتنا نقصان ہوا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے مگر نیوز آگے لے جانے والے نے غیرذمہ دارانہ صحافت کا عملی ثبوت پیش کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).