عمران کو یہودی ایجنٹ کہنے کا معاملہ حساس ہے


یہ ایک ایسا حساس معاملہ ہے جو سچ یا جھوٹ ہونے کی صورت میں یکساں طور پر بھیانک نتائج کا حامل ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے کہ ایک دشمن ملک کا نمائندہ آپ کا ملکی اختیار مانگ رہا ہے اور اگر یہ الزام غلط ہے تو یہ اس سے بھی زیادہ بھیانک صورتحال ہے کہ ملک کے انتہائی اہم مکتبہ فکر دیوبند کا با اثر ترین شخص مولانا فضل الرحمن کسی پر اتنا بڑا الزام لگا کر پورے دیوبند مکتبہ فکر کو کٹہرے میں کھڑا کر رہے ہیں۔

مگر بدقسمتی سے کسی نے بھی اس پر غور نہیں کیا۔ عمران کے حامیوں نے بنا سوچے اس الزام کو رد کردیا جبکہ جمعیت کے دوستوں نے بنا سوچے سمجھے یہ بات من و عن مان لی ہے میں آپ لوگوں کو اس معاملے پر سوچنے کی دعوت دیتا ہوں۔

آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ کیا ایسا ممکن بھی ہے کہ کوئی شخص پاکستانی شہری ہوتے ہوئے بھی کسی دوسرے ملک کے مفادات کے لئے کام کرے؟

اسکے لئے شکیل آفریدی بطور مثال ہمارے سامنے ہیں جو امریکی سی آئی اے کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔ اگر ایبٹ آباد واقعہ نہ ہوتا اور کوئی شکیل آفریدی کو سی آئی ایجنٹ کہ دیتا تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا اور اگر بالفرض شکیل آفریدی کوئی سیلیبرٹی ہوتے تو پھر دعوی کنندہ کی گلو خلاصی ناممکن ہی ہوجاتی۔ شخصیت پرستی برصغیر کے مزاج کا حصہ ہے وہ اپنے ہیروز کو ہر طرح سے معصوم سمجھتے ہیں۔

اب ہم عمران یہودی ایجنٹ والے قضیے پر غور کرتے ہیں مولانا فضل الرحمن کا دعوی ہے کہ عمران یہودی تہذیب کا نمائندہ ہے۔ عام طور اس طرح کے معاملے کو سمجھنے کے لئے پہلے دعوی کنندہ کے مزاج اس کی شخصیت کو پرکھا جاتا ہے، ان کی فہم و فراست جانچی جائے گی یہ بھی دیکھا جائے گا کہ دعوی کنندہ کو مدعی سے کوئی ذاتی رنجش یا پھر مفادات کا ٹکراؤ تو نہیں،
اسکے بعد مدعی کی شخصیت رویے کردار چال چلن رہن سہن کو دیکھا جاتا ہے۔

بات کی جائے دعوی کنندہ مولانا فضل الرحمن کی شخصیت کی تو وہ مفتی محمود کے صاحبزادے اور ایک معزز شخص ہیں۔ انھیں اپنے قبیلے خاندان اور علاقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی اخلاقی حیثیت مسلم ہے۔ ان کے فہم و فراست کے گواہ خود ان کے مخالفین ہیں۔ معاشرے کے لاکھوں معزز علما انھیں اپنا رہبر تسلیم کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں وہ عام طور پر وہ جھوٹ نہیں بولتے۔ وہ ناپ تول کر بات کرتے ہیں۔ ان کی بات اٹل ہوتی ہے مولانا کی شخصیت ان کے موقف کو مضبوط بنیاد فراہم کررہی ہے

اس کے علاوہ جہاں تک ذاتی رنجش کی بات ہے تو وہ معاملہ بھی صاف ہے ان دونوں کا کوئی ذاتی تعلق ہے ہی نہیں، مگر مفادات کے ٹکراؤ والی ایک ایسی بات ہے جسے عام طور پر تحریک انصاف اپنے حق میں بطور دلیل اپناتی ہے وہ اسے پختونخوا میں جمعیت کے شکست کے ری ایکشن سے تعبیر کرتے ہیں۔

مگر ایسا ہرگز نہیں جمعیت نے اس بار پچھلے الیکشن کے بہ نسبت زیادہ نشستیں حاصل کی ہے تحریک انصاف نے جمعیت کے نہیں اے این پی کے ووٹ بینک پر ہاتھ صاف کیا ہے جمعیت کو شکست ہوئی ہی نہیں اور نہ ہی تحریک انصاف کے حکومت حاصل کرنا اس کی وجہ ہے۔

حکومت تو تحریک انصاف نے 2013 میں قائم کی جبکہ یہ بات تو دو سال قبل 2011 میں پہلی بار مولانا نے کہی، اس کے علاوہ بلوچستان میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جمعیت صوبائی حکومت کا حصہ نہیں بنی مگر مولانا نے پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کے بارے میں تو ایسی بات نہیں کہی، لہذا مفادات کے ٹکراؤ والی بات ہوتی تو مولانا فضل الرحمن تمام سیاسی مخالفین کو یہودی ایجنٹ کہہ دیتے۔ یہ پہلی بار ہے کہ مولانا فضل الرحمن کسی کے اس حد تک خلاف چلے گئے ہیں۔ اس سے پہلے انھوں نے نہ کسی کی اس حد تک جارحانہ مخالفت کی ہے نہ ہی کسی کو یہودی ایجنٹ کہا ہے۔ آپ اس پر غیر جانبدارانہ طور پر ضرور سوچئے کہ مولانا بلاوجہ کیونکر اس حد تک چلے گئے ہیں؟

دوسری طرف جس شخص پر الزام ہے کہ وہ یہودی لابی کے لئے کام کرتے ہیں اس کی شخصیت پر غور کرتے ہیں۔ یہ شخص یورپی مزاج ماحول کے رنگ میں مکمل طور پر رنگا ہوا ایک شخص ہے۔ اس کی خاندانی حیثیت بہت زیادہ اونچی نہیں۔ یہ اپنے قبیلے میں کوئی اثر نہیں رکھتا۔ یہ یہودیوں کا داماد ہے۔ یہ شخص جھوٹ بولتا رہا ہے۔ اس شخص پر اس کی جماعت کی خواتین عجیب الزام لگاتی رہی ہیں۔ اس پر تین سال سے بیرونی مشکوک فنڈنگ کا کیس چل رہا ہے۔ یہ شخص ساری زندگی بطور پلے بوائے کے گزار چکا ہے اور اخلاقی طور پر یہ شخص انتہائی کمزور ہے۔ یہ شخصخود نمائی کا انتہائی شوقین ہے۔ ہماری رائے میں ایسا شخص اقتدار کے لئے کسی بھی حد جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ احمدی پیشوا کا یہ کہنا ہے کہ عمران ان سے ملاقات میں یہ یقین دہانی کراچکے کہ اقتدار ملنے پر ان کے حقوق دلائے جائیں گے۔ اب یہ تو سبھی جانتے ہیں احمدیوں کو کونسا حق نہیں حاصل۔ ایک اور ویڈیو میں احمدی پیشوا کہتے ہیں جب تک مولوی ہے آپ بھول جائیں کہ عمران تبدیلی لائیں گے۔ اب یہ ایسی کون سی تبدیلی ہے جس کی راہ میں مولوی رکاوٹ ہے؟ عمران صاحب ختم نبوت معاملے میں مشکوک طور پر خاموش رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے حامی ان چیزوں پر غور کیوں نہیں کرتے؟

آخر میں یہ سوال کہ یہودیوں کو پاکستان سے کیا لینا دینا؟ ہوسکتا ہے کہ وہاں اپنا نمائندہ بٹھانے کی کوشش کرے؟ یہ ایک اٹل حقیقت ہے یہودیوں اور مسلمانوں میں مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی اسلامی ملک ہے۔ اسرائیل کو سب سے زیادہ خطرہ پاکستان سے ہے۔ وہ پاکستان پر حملہ کرنے یا ایٹم بم حاصل کرنے کی حماقت نہیں کرسکتا۔ اس لئے پاکستانی عوام کے ذہن سے یہودی دشمنی نکال کر انھیں اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں تاکہ دشمنی کی وہ وجہ ہی نہ رہے۔ انھیں مسلمانوں سے نہیں مسلمانوں کے عالمگیر حکمرانی کے تصور سے اختلاف ہے وگرنہ امریکہ ملا عمر کے بجائے افغانستان کے حکمران ایک مسلمان کرزئی کو نہیں کسی عیسائی یا یہودی کو مقرر کرتے۔

امید کرتا ہوں تمام احباب ان نکات پر ضرور غور کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).