بلیک فرائیڈے پر جنازہ ڈیل


ایک زمانہ تھا جب ایک گھنٹے کے ڈرامے کے دوران مشکل سے دس منٹ کے اشتہارات آیا کرتے تھے۔ وہ بھی ناگوار گزرتے تھے۔ اور اس وقت انتہائی غصہ بلکہ شاید نفرت محسوس ہوتی تھی جب ڈرامہ اہم موڑ پہ ہو، یا تو ہیرو اظہار عشق کرنے والا ہو یا قاتل پکڑا جانے والا ہو اور ایک دم اگلے سین میں ”میری مٹھی میں بند ہے کیا بتا دو نا“ بجنے لگتا تھا۔ یا اچھلتا کودتا ڈینٹونک کا بندر آجاتا جو اس بچارے بندے کو تو کم ہی کوفت زدہ کرتا ہو جسے وہ تنگ کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر ٹی وی کے سامنے بیٹھے ناظرین کو زیادہ کوفت زدہ کردیتا تھا۔ مگر وقت آگے بڑھا ایک کی جگہ درجنوں بلکہ سینکڑوں ٹی وی چینل آگئے اور ان کے ساتھ ہی اشتہارات کا جن بھی دیو بن گیا۔

جس چیز کا آپ سوچ سکتے ہیں اور جس کا سوچ بھی نہیں سکتے ہر چیز اشتہار کے ذریعے بکنے لگی۔ ہر ہر منٹ پہ ایک ہی اشتہار کئی بار چلتا۔ پھر عید بقر عید کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے الگ سے اشتہارات آنے لگے۔ رمضان کے سحری کے لیے الگ اشتہار اور افطار کے لیے الگ اشتہار۔ اب ان اشتہارات کو دیکھ کر لگتا کہ اگر کسی کرکٹ ٹورنامنٹ کے دوران آپ کرکٹ نہیں دیکھ رہے تو پاکستانی نہیں اور رمضان کے دوران نت نئے کھانے نہیں پکا رہے تو مسلمان نہیں۔ بیوٹی پراڈکٹس کی نرالی دنیا ہے جن کا سارا زور اس بات پہ رہتا ہے کہ آپ کا دبلا، گورا، گھنے سیاہ چمکدار بالوں کا حامل ہونا ہی اہم ہے۔ ساتھ ہی جیسے جیسے سینسر بورڈ کی ترجیحات بدلیں تو اشتہارات کے پیرائے بھی بدل گئے۔

پہلے جو بات گا کے بیچی جاتی تھی اب ناچ ناچ کے بیچی جانے لگی۔ جس میں کسی انسان کا ہونا ہی ضروری نہیں ان اشتہارات میں خاتون ٹھونسی جاتی ہیں تاکہ عوام الناس پراڈکٹ کا معیار دیکھے بغیر بس ایک ہوش ربا دوشیزہ کو دیکھ کر ہی سامان خرید لے۔ عموما اشتہارات میں خواتین کو صرف نمائشی طور پہ پیش کیا جاتا ہے وہ بھی اس پیرائے میں کہ وہ بچوں کو نا دکھائے جائیں تو بہتر ہے۔ اور جو مرد ”ان“ اشتہارات کو بغور دیکھیں ان سے اجتناب برتا جائے۔ بقیہ ذی شعور عوام ویسے ہی کسی انسان کی ایسے نمائش لگانے پہ شرمندہ ہو کر چینل بدل ہی لیتی ہے۔

یہ تو تھی ٹی وی تک کی اشتہار بازی اب ذرا اپنا موبائل ہاتھ میں اٹھایئے اور کوئی بھی سوشل سائٹ کھولیے۔ یا کوئی آف لائن ایپلیکیشن ہی چلا لیجیے۔ ہر ہر جگہ اشتہارات کی بھرمار ہے۔ وہ اشتہار بازی جو پہلے رمضان اور عید تک محدود تھی اب ہر چھوٹے بڑے تہوار پہ زور پکڑ لیتی ہے۔ عید آفر ہے تو رنگین پیرہن سے لے کر نئے گھر تک ہر پراڈکٹ پہ نرالی سیل لگی ہوئی ہوتی ہے کہ آپ سوچ کے رہ جائیں کہ اس ڈیل اور آفر کا اس تہوار سے کیا لینا دینا۔

مدرز ڈے پہ ہنی مون پیکج کی آفر دی جاتی ہے۔ فادرز ڈے پہ کچن سیٹ پہ ڈس کاونٹ ملتا ہے۔ ویلن ٹائن ڈے پہ کہیں کپلز کے لیے لال لال کپڑے اور چاکلیٹس سستی ہوتی ہیں تو کہیں اسی دن حیا ڈے کہہ کر چار اسکارفز پہ ایک مفت۔ آزادی پہ کپڑوں سے لے کر باتھ روم کے لوٹوں تک ہر چیز ہری دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ محرم آتے ہی یک دم ہر جگہ کالا سفید رنگ نظر آنے لگتا ہے۔ کچھ عرصے تک یہ بے نام سی تبدیلی تھی اب باقاعدہ محرم الحرام سیل کے ٹیگ لگے نظر آتے ہیں۔ اس پہ ہی بس نہیں کرسمس کے قریب آنے پہ بلیک فرائیڈے سیل کے نام پہ مختلف ڈیل دی جاتی ہیں۔ جن کی بلیک فرائیڈے سیل کامیاب نا ہوپائے وہ پینترا بدل کر بلیسڈ فرائے ڈے، بگ فرائی ڈے کے نام سے ڈیلز دے دیتے ہیں۔

آپ کوئی وڈیو چلائیں یا کوئی کالم پڑھیں، آپ پہ ان اشتہارات کا خود کش حملہ ضرور ہوگا۔ مزید المیہ ہی سمجھیے کہ فیسبک پہ لگائی گئی ذاتی معلومات کی بنیاد پہ آپ کو اشتہارات دکھائے جاتے ہیں۔ اگر آپ نے اسٹیٹس دکھایا کہ آپ کسی دوسرے شہر سفر کر رہے ہیں تو آپ کے پاس اس شہر کے ہوٹلز، مشہور دکان مشہور جگہ اور نجانے کس کس کے اشتہار آنے لگتے ہیں۔ آپ نیٹ پہ جو چیز سرچ کریں ٹھک سے فیس بک پہ اسپونسرڈ پوسٹ میں وہی اگ آتی ہے۔ اشتہارات بھی ایسے کہ اشتہار میں موجود ماڈل دیکھ کر بندہ سوچنے پہ مجبور ہوجائے کہ یہ اشتہار کی ضرورت تھی یا کوئی نرالا سائنسی تجربہ جس میں جسم کے مختلف اعضاء کو مختلف تکلیف دہ زاویوں پہ گھما کے ان کی لچک کی انتہا دیکھی جارہی ہو۔

کچھ بعید نہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ آپ کی ہر ہر پوسٹ کے ساتھ اشتہارات کے ڈھیر لگ جائیں۔
فیلنگ لووڈ ود فلاں کی پوسٹ لگاتے ہی وہ آپ کو نزدیکی شادی ہال کے رعایتی ریٹس دکھائے۔

یا پھر فیلنگ اینگری کی پوسٹ پہ نزدیکی اسلحے کی دکان اور ان کی رعایتی ڈیلز۔ ممکن ہے کہ فیلنگ ال کی پوسٹ لگاتے ہی نزدیکی ڈاکٹر سے لے کر بہترین جنازہ ڈیل بھی مل جائے جس میں ایک کفن کے ساتھ ایک کفن مفت اور نزدیکی قبرستان میں سب سے سستی اور ہوادار قبر بھی دکھا دی جائے۔

مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ داری نے انسان کی ہر ضرورت کو بکاؤ بنا دیا ہے۔ ایک دفعہ انٹر نیٹ سرچ کر کے دیکھ لیجے ہر وہ چیز جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے وہ بھی بیچی جارہی ہے۔ آپ چاہیں تو انسانی فضلہ آن لائن خرید کے اسی کمپنی کی مدد سے دشمن کے گھر پھنکوا سکتے ہیں۔ لاشیں خرید سکتے ہیں۔ آسیب زدہ کھلونے خرید سکتے ہیں۔ جب پانی خرید کے پینا پڑے تو باقی رہ ہی کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کے خیال میں کم از کم ہوا مفت ہے تو بے فکر رہیے جاپان میں اب ہوا بھی بکنے لگی ہے اور آلودگی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے چند ہی دنوں میں آپ کی موبائل اسکرین پہ بھی ایک خالص آکسیجن کا کین لہکتا مٹکتا آجائے گا وہ بھی ڈسکاونٹ آفر کے ساتھ۔

ان اشتہارات میں انسانی نفسیات کی ایسی مار ماری جاتی ہے کہ کائیاں سے کائیاں بندہ بھی کسی نا کسی حربے پہ چت ہو ہی جاتا ہے۔ کہیں روایات کو آڑ بنایا جاتا ہے کہیں انسانی دردمندی کو اور کہیں آزادیء اظہار کو۔ وہی پراڈکٹ جو رمضان میں سر پہ دوپٹا اور ٹوپی اوڑھ کے بیچی جاتی ہے۔ وہ عید میں مہندی لگے ہاتھوں سے بقر عید میں بکرے کے ساتھ اور ویلن ٹائن ڈے پہ جینز میں ملبوس لڑکی ناچ ناچ کے بوائے فرینڈ کے ساتھ بیچتی نظر آرہی ہوتی ہے۔ وہی موبائل پیکج جو رمضان میں مدینے میں موجود شوہر سے دوری کا احساس مٹاتا دکھائی دیتا ہے عام دنوں میں بیک وقت تین لڑکیوں سے دوستی نبھانے کا گر سکھاتا ہے۔

اگر ہوا روایتی ہے تو لڑکی شوہر کی خدمت کرکے پراڈکٹ بیچتی نظر آئے گی اور آزادئء نسواں کی ہوا تیز ہو تو وہی پراڈکٹ عورت کی آزادی کے نعرے لگا کے بیچی جاتی ہے۔ ذہن میں رکھیے پراڈکٹ وہی رہتی ہے بس آپ کی ضرورت کے مطابق اس کی تشریح بدل دی جاتی ہے۔ یعنی ہوا کسی بھی سمت کی ہو عوام کی جیب سے پیسا کسی نا کسی پیرائے میں نکلوا ہی لیا جاتا ہے۔ اور عوام کبھی لالچ میں آکر کبھی مغلوب ہو کر اور کبھی مجبور ہو کر جیبیں خالی کر ہی دیتی ہے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima