بندر اور انسان میں فرق


سائیں کی آنکھیں چمکدار تھیں۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ آئن سٹائن کی آنکھیں ایسی ہی روشن تھیں۔ جناح روڈ کے سنگم پر واقع ایک سیاسی جماعت کے دفتر میں ایک جانب سائیں حلقہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے اور دوسری جانب چند نوجوان، بوڑھے سیاست دان سے تاریخ کا گیان لے رہے تھے۔اچانک شیشہ چٹخنے کی آواز آئی۔ ’گدھے‘! بوڑھے سیاستدان کی آواز گونجی۔ نظر اٹھا کردیکھا ،تو صفائی کرتے ایک لڑکے سے دیوار پر ٹنگی ،جماعت کے بانی کی تصویر گر گئی تھی۔ بوڑھے سیاستدان نے ہیرڈوٹس سے تاریخ شروع کی، قیس عبدالرشید کے تین بیٹے تھے ۔ میر وائیس ہوتک پہلا افغان باشاہ تھا۔ شاہ محمود نے اصفہان جلا کر راکھ کر دیا۔ابدالی کے گھوڑے پانی پت میں دوڑتے رہے۔ ایوب خان کی تلوار انگریزسپاہیوں کو چیرتی رہی۔ ملالہ میوند کے میدان میں کھڑی ہے۔امیر امان اللہ خان نے آزادی کا پرچم لہراتا رہا۔ محمد ظاہر شاہ سے ہوتے ہوئے بات سردار داﺅد، نور محمدترکئی، کارل مارکس، لینن ،مادیت، کلاس سسٹم، جدلیاتی مادیت اور یہ بانی جماعت… گویا انسانی جدوجہد کی ساری کڑیوں کا اختتام بانی جماعت پر ہوا۔ پورے پندرہ منٹ کا خطاب تھا۔ سائیں ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کی چمکدار آنکھوں شرارت کی چمک کچھ اور بڑھی۔ کہنے لگے، ’ انسانوں کے پوچنے کے لئے نظریہ گڑھنا پڑتا ہے۔ قربانی لینے کے لئے ہیرو تراشنے پڑتے ہیں۔ جھوٹی روایات اور آدرشوںکی بھٹی سلگانی پڑتی ہے۔ تاریخ میں جھوٹ شامل کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ آپ ایسا سماج تخلیق نہیں کر سکتے جہاں بہت سے انسان، چند انسانوں کی غلامی پر راضی ہوں‘۔

 عمان کے ڈاﺅن ٹاﺅن میںجعفر عبدالکریم اپنے کیمرے اور مائیک کے ساتھ ایک بازار میں کھڑا ہے۔ آج کا سوال ہے، کیا ایک عورت کو اختیار حاصل ہے؟ اگر آپ کی بہن نوکری کے لئے کسی دوسرے شہر جا کر خود رہنا چاہے تو کیا اسے اجازت ملنی چاہیے؟ جعفر نے مائیک ایک سترہ ،اٹھارہ سالہ نوجوان کے آگے کر دیا۔

نوجوان۔ یہ ممنوع ہے۔ یہ ہماری عزت کا مسئلہ ہے۔

 جعفر۔ مگر بہن کی نوکری کا عزت سے کیا تعلق ہے؟

نوجوان۔گھر میں مرد موجود ہیں۔ وہ کام کرتے ہیں۔

 جعفر۔ اگر آپ اپنی بہن کو کام کرنے سے روکتے ہو اور وہ پھر بھی کام پر چلی جائے کیونکہ جیسے آپ کو اختیار حاصل ہے ویسے اس کو بھی اختیار حاصل ہے۔

نوجوان۔میں اسے گولی مار دوں گا۔ میں ایسا کر دوں گا( قہقہہ لگاتے ہوئے)۔

 جعفر۔ کیا مطلب تم اسے گولی مار دو گے؟

نوجوان۔میرا مطلب ہے میں اس کو قتل کر دوں گا۔

 جعفر۔ تمہیں یہ حق کس نے کیا دیا؟

نوجوان۔میرے باپ نے، میرے چچا نے، میرے رشتہ داروں نے۔

جعفر۔ کیا تم یہ نہیں سوچو گے کہ یہ غلط ہے؟ تم ایک انسان کو کیسے قتل کر سکتے ہو؟

نوجوان۔نہیں یہ غلط نہیں ہے۔ یہ ہماری عزت کی بات ہے( قہقہہ)

جعفر۔ کیا تم سنجیدہ ہو یا مذاق کر رہے ہو؟

میں سنجیدہ ہوں۔ قسم سے سنجیدہ ہوں( قہقہہ)

جعفر۔ مگر تم ہنس کیوں رہے ہو؟ وہ ایک انسان ہے۔ اس کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کام کرے۔

نوجوان۔نہیں۔ وہ ایک لڑکی ہے۔

 سائیں کی بات کو تیس برس گزر گئے۔ برینڈن سٹینٹن کی ٹیم ’ہیومنز آف نیویارک ‘ کو سائیں سے ملتا جلتا چمکدار آنکھوں والا ایک سانتا کلاز نما بوڑھا، نیویارک کے ایک پارک میںملا۔برینڈن سٹینٹن کی ٹیم نے کیا سوال پوچھا یہ معلوم نہ ہو سکا۔ چمکدار آنکھوں والے بوڑھے نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا۔’ پتہ نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وقت کے ساتھ آپ کو یہ احساس ہوتاجاتا ہے۔میں خود کو دیکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک بونوبو ہوں۔ دیکھیے بونوبو اور چیمیپنزی میں فرق ہوتا ہے۔بونوبو اپنی مادہ کی حفاظت کرتا ہے۔ اس شہر پر نظر دوڑائیں تو آپ کو تمام لڑکیاں، خواتین اور بوڑھی خواتین بے بس مخلوق نظر آئے گی۔ یہ دراصل فریب ہے۔یہ مسلط کردہ افسانے ہیں۔ وہ ایسی ہی طاقتور ہیں، ایسی ہی متحرک ہیں، ایسی ہی سرکش ہیں، ایسے ہی جاندار ہیں جیسے ہم خود ہیں۔ مگر چونکہ وہ اونچی ایڑی والے جوتے پہنتی ہیں، وہ تیز دوڑ نہیں سکتیں، ان کی طاقت ان سے لے لی گئی ہے ۔اس لئے ان کی عزت اور حق پر حملے ہوتے ہیں اور کوئی کچھ کرنے کو تیارنہیں۔ اگر یہ بونونو کے معاشرے میں ہوتا تو بونوبو ایسا کرنے نہیں دیتے۔ چیمپینزی شاید یہ سب کچھ برداشت کر لیں مگر بونوبو لڑ بھڑ جاتے۔ ہم کیوں برداشت کرتے ہیں یہ سب کچھ؟ اس تعلق اوزاروں سے ہے۔ چیمپینزی اچھے اوزار بنانے والے ہیں۔ بونوبو اوزار نہیں بنا سکتے۔ ہم مرد، اوزار بنانے والوں کی قبیل سے ہیں۔ مرد نے اوزاروں پر قبضہ کر لیا۔ مرد نے قلم پر قبضہ کر لیا۔ اور مرد نے کہانی پر قبضہ کر لیا۔

ترک لوک داستانوں میں بڑے بھائی یشار اور چھوٹی بہن ایلف کی کہانی مشہور ہے۔ ایلف کے ہاتھ میں دو سیب تھے۔ یشار نے ایلف سے ایک سیب مانگا۔ ایلف نے پہلے ایک سیب کو چکھا اور پھر جلدی سے دوسرے سیب سے میں بھی دانت گاڑھے۔ یشار کے چہرے پر مایوسی پھیل گئی۔ وہ باہر نکلنے کو روانہ ہوا۔ ایلف دوڑتی ہوئی آئی اور کہا، ’ بھائی! یہ لو، یہ والا زیادہ میٹھا ہے‘۔

آج ایک یشار عمان کے بازار میں جعفر کو بتا رہا تھا کہ اگر ایلف کام کرنے اس کی مرضی کے بغیر گھر سے نکلی تو وہ اسے گولی مار دے گا۔ سائیں نے کہا تھا کہ جھوٹی روایات اور آدرشوںکی بھٹی سلگانی پڑتی ہے تاکہ کچھ انسان غلامی پر راضی رہیں۔نیویارک کے سانتا کلاز نے کہا تھا کہ ایسا تو بونوبو کے سماج میں بھی نہیں ہوتا۔ہم مگر بونوبو تو نہیں ہیں۔ ہم توہاتھ میں اوزار تھامے، جھوٹی روایتوں کے اسیر انسان ہیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah