ختم نبوت، پارلیمنٹ اور علمائے کرام


پچھلے دنوں پارلیمنٹ میں قانونِ ختم نبوت کے بارے میں کسی دانستہ یا نادانستہ ترمیم کی خبر سامنے آئی جس پر ملک بھر میں پرتشدد احتجاج برپا ہوگیا تھا۔ اس دوران، مختلف مکاتب فکر کے شعلہ بیان علماء نے طول طویل خطابات فرمائے اور تقریباً سبھی نے چند مخصوص قسم کے جملے بڑی تکرار سے دہرائے ہیں جو مجھ کوتاہ فہم کی سمجھ سے باہر ہیں۔ اگر کوئی اہل زبان و اہل علم اس بارے میری الجھن دور فرمادے تواحسان مند رہوں گا۔

ایسے متکرر جملے تقریباً چار ہیں جو کچھ یوں ہیں کہ:“ ہم کسی کو ختم نبوت پہ ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے۔ ختم نبوت ایک حساس معاملہ ہے۔ ختم نبوت کے ڈاکو ہمارے سامنے لائے جائیں۔ ہم ختم نبوت پہ پہریدار ہیں“۔

پہلا جملہ ہے کہ ختم نبوت پہ ڈاکہ ڈالا گیا۔ خاکسار کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ کیا ختم نبوت کوئی مادی چیز ہے جس پر کوئی ڈاکہ ڈال کر ہمارے رسول سے نعوذ باللہ چھین لے جائے گا؟ جب ڈاکو، کسی سے کوئی چیز چھین لیا کرتا ہے تو اصل مالک بیچارہ خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت محمدؐ کی ختم نبوت ان کا خاص امتیازی وصف ہے۔ اب اگر کوئی آدمی خود کو نبی قرار دے دے تو کیا اس نے ہمارے نبیؐ کے وصف پر ڈاکہ ڈال دیا اور ہمارا نبی نعوذ باللہ، اس وصف سے پھر خالی ہوگیا؟

مزید یہ کہ بھلا کسی ملک کی پارلیمنٹ کی قانون سازی سے بھی ختم نبوت پہ ڈاکہ پڑتا ہے؟ جن ملکوں میں ختم نبوت کا قانون نہیں ہے، کیا وہاں ہمارے نبیؐ کی ختم نبوت پہ ڈاکہ پڑا ہوا ہے؟ کیا پاکستان کے پہلے تیس سال تک (جب یہ قانون نہیں بنا تھا) ہمارے نبیؐ کی ختم نبوت میں کوئی شک تھا؟

چاند، فی نفسہ حسین ہے۔ اگر کوئی خود کوچاند کہتا پھرے تو اس سے چاند کے حسن پہ ڈاکہ نہیں پڑجایا کرتا۔ آپ اسے میرا سوئے فہم کہہ لیجیے مگر ”ختم نبوت پہ ڈاکہ“ والی اصطلاح، بخدا مجھے جیسے کم فہم کو تو اہانتِ رسول معلوم پڑتی ہے۔

واپس اصل معاملہ کی طرف آتے ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ میں، ختم نبوت کے قانون میں کسی رکن نے کچھ ترمیم کر دی تھی۔ پارلیمنٹ کے ایک رکن، سینیٹر حافظ حمداللہ نے اس غلطی(یا سازش) کو پکڑلیا۔ ایک اور ممبر پارلیمنٹ شیخ رشید نے اس پہ جذباتی تقریر کردی تواس کے بعد باہر کی دنیا کو بھی اس معاملے کا پتہ چلا۔ (بلکہ خود باقی ممبران کو بھی اسی وقت اس کا علم ہوا)۔ پارلیمنٹ نے دوسرے ہی دن، اس غلطی کودرست کردیا۔ اب کیا پارلیمنٹ نے ختم نبوت پہ ڈاکہ ڈالا ہے؟

پارلیمنٹ کا ایک قانون، جسے پہلے بھی خدا نے نہیں بلکہ اسی پارلیمنٹ کے انسانوں نے بنایا تھا، اس کو اگر وہی انسان، چھیڑ بیٹھے ہیں تو اس کو آئینِ پاکستان کے بے حرمتی بے شک کہہ لیں (حالانکہ یہ بھی غیرمنطقی بات ہے) مگر اس کو ختم نبوت کے عقیدہ پر ڈاکہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟

اپنی بات کو واضح کرنے، ایک مثال دوں گا۔ کسی مجلس میں کچھ دوست بیٹھے ہیں۔ وہاں سے اٹھتے ہوئے، عمر نے زید کا موبائل فون غلطی (یا مرضی) سے اٹھالیا اور چلا گیا۔ باہر نکلتے ہی، عمر کے دوست بکر نے اس کو احساس دلایا کہ یہ موبائل غلط طور پر اٹھا لائے ہو۔ دونوں واپس آئے۔ ابھی زید کو اپنے موبائل کے گم ہونے کا بھی پتہ نہیں تھا کہ عمر نے واپس لاکر اس کو دے دیا۔ ایک ہمسائے کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے چلانا شروع کردیا کہ عمر نے چوری کی ہے، اس کو میرے حوالہ کیا جائے۔ حالانکہ یہ ان دوستوں کو آپس میں معاملہ تھا جو انہوں نے خود ہی حل بھی کرلیا۔

یہ مثال پارلیمنٹ کی حالیہ غلطی پرمنطبق کر لیں۔ غلطی (یا جرم) خود پارلیمنٹ نے کیا۔ اس کا احساس (یا بازپرس) خود پارلیمنٹ نے کی۔ اس کی تصحیح بھی خود پارلیمنٹ نے کرلی تو باہر کے بندے کو اسے ”ڈاکہ“ والا جرم قرار دینے کا کیا حق حاصل ہے؟

مذکورہ بالا مثال پہ، ایک دوست نے فرمایا کہ زید کے موبائل فون میں چونکہ اس کا ہمسایہ بھی حصہ دار ہے، پس اس کو پوچھنے کا حق حاصل ہے۔ عرض کیا کہ جب اس ہمسایہ نے اپنا موبائل، بطور امانت، زید کےحوالہ کیا ہوا ہے تو جب تک زید اسے چوری قرار نہیں دیتا، اس کو کوئی حق نہیں کہ اب دخل دے۔ کیا ہم نے پارلیمنٹ کو اپنی نمائندگی کاحق نہیں دے رکھا؟

دوسرا جملہ جو علماء حضرات دہراتے رہتے ہیں کہ ختم نبوت کا قانون ایک حساس مسئلہ ہے۔ خاکسار کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے یہ مسئلہ حساس کیوں ہے؟ کیا یہ مسئلہ آخرت کے لحاظ سے حساس ہے یا دنیا کے لحاظ سے؟

دنیاوی طور پر تو اس کی حساسیت سمجھ نہیں آتی کیونکہ نہ تو اس قانون کے بننے سے احمدی لوگ ختم ہوئے، نہ ان کو دنیاوی کوئی نقصان پہنچا، نہ پاکستان کو اس قانون کے بننے سے کوئی ترقی و خوشحالی میسر آگئی۔ پس کوئی مجھے سمجھائے کہ دنیاوی لحظ سے یہ کیونکر حساس مسئلہ ہے؟ البتہ آخرت کے لحاظ سے ختم نبوت پہ ایمان لانا، واقعی حساس مسئلہ ہے کہ اس پہ دائمی نجات کا دارومدار ہے۔ اب اس میں کنفیوزن یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ کے کسی قانون کی وجہ سے کوئی آدمی اپنا عقیدہ چھوڑ دے گا۔ خاکسار ببانگ دہل خود کو سنی حنفی دیوبندی قرار دیتا ہے۔ خالص سیکولر ممالک میں بھی جانا ہوا تو یہ عقیدہ میرے ساتھ رہا۔ پاکستان کی موجودہ پارلیمنٹ، اگر سیکولر آئین بنا دے تب بھی میرا عقیدہ ان شاء اللہ، اپنی جگہ ہی رہے گا۔ دنیا کا کوئی قانون بھلا میرے عقیدے پہ ڈاکہ کیسے مارسکتا ہے؟

چنانچہ، میرا عقیدہ خود میرے لئے حساس مسئلہ ضرور ہے مگر اس کا کسی پارلیمنٹ کی قانون سازی سے بھلا کیا تعلق ہے؟

تیسرا جملہ جو حالیہ مہم کے دوران، علمائے کرام کے دہن مبارک سے بارہا سنا کہ ختم نبوت کے ڈاکو ہمارے سامنے لائے جائیں۔ کیوں بھئ؟ آپ کو کیا شرعی یا قانونی اتھارٹی حاصل ہے کہ ممبرپارلیمان آپ کے سامنے لائے جائیں؟ اگرکسی ممبر پارلیمنٹ نے جرم کیا بھی ہے توعدالتیں موجود ہیں۔ (حالانکہ قانون سازی ہی تو پارلیمنٹ کا کام ہے اور اس قانون سازی میں اگر کوئی دین دشمن لابی اپنا کام کررہی ہے تو علماء کے نمائندے، اس لابی پر نظر رکھنے ہی کو وہاں موجود ہیں۔ اور انہوں نے اپنا فریضہ بخوبی نبھا دیا ہے)۔ یوں اگر کسی کو علماء کے سامنے فقط برائے وضاحت پیش کرنا ضروری ہو تو پارلیمنٹ میں بھی علماء موجود ہیں، وفاقی شرعی عدالت میں بھی ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی ہیں۔ ان علماء کے سامنے کیوں پیش نہ کیا جائے اور گلی محلے کے خطیبوں کے سامنے کیوں کسی ممبر پارلیمنٹ کو برائے وضاحت پیش کیا جائے؟

پھر یہ بھی سمجھ نہیں آیا کہ ”مجرم“ کا جرم کیا ہے اور جو علماء ان کو اپنے سامنے پیش کرنے کا ”حکم نامہ“ جاری کررہے ہیں، وہ اس مجرم کو کیا سزا دیں گے؟ علماء کی تقاریر سے“جرم“ کی نوعیت یہ سمجھ آئی کہ کسی“سازشی“ نے قادیانی حضرات کے پارلیمنٹ ممبر بننے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ اب اگر یہ جرم ہے تو شاید پہلا قادیانی وزیرخارجہ، قائد اعظم نے مقرر کیا تھا۔ (اس ”جرم“ پر ان کے مزار کو بطور سزا منہدم کرنے کے لئے ایک دھرنا بھی دیا جاسکتا ہے)۔ لیکن فرض کریں کہ ایک قادیانی کو عام انتخاب لڑنے کی اجازت دے دی جائے تو کیا آپ کو 98٪ فیصد مسلمانوں سے یہی گمان ہے کہ وہ کھلے الیکشن میں قادیانی کو منتخب کرلیں گے؟ جبکہ ہر علاقے کے قادیانی حضرات معروف ہیں۔ (ویسے باقی ممبران پارلیمنٹ تو شاید نہایت پارسا ہیں کہ کسی کافر کے آنے سے پارلیمنٹ کی مقدس اور نورانی فضا مکدر ہوجائے گی)۔

چوتھا جملہ جو اکثر علمائے کرام نے دہرایا کہ مولوی حضرات، عقیدہ ختم نبوت کے پہریدار ہیں۔ اس کا مطلب بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ حضور کی ختم نبوت کو پہریدار کیوں درکار ہیں؟ اور وہ پہریداری کسی مخصوص مولوی صاحب کو کس بنیاد پر عطا ہوئی؟ یا کس نےعطا کی؟ اور آخری بات یہ کہ مولوی صاحب یہ پہریداری کس طریقہ پر کریں گے؟

مولوی صاحبان، دین کی پہریداری کس طرح کرتے ہیں، اس کی ایک زندہ مثال میں اپنے علاقہ (تحصیل پنیالہ) سے پیش کردیتا ہوں۔ اہل علم جانتے ہیں کہ عربی کو لغت الضاد بھی کہتے ہیں کہ لفظ “ض“ کا مخرج بہت ہی مشکل ہے۔ اب ہمارے علاقہ کی کچھ مساجد ایسی ہیں جن کے درمیان دیوار ڈال دی گئی ہے( دونوں طرف الگ الگ جماعت کی نماز ہوتی ہے) کیونکہ نمازیوں میں اس بات پہ لڑائی ہے کہ ولا الضالین میں“ض“ بروزن“ظ“ پڑھنا ٹھیک ہے یا بروزن“د“پڑھنا؟ مولوی صاحبان نے وہاں دین کی ایسی پہریداری فرمائی ہے کہ ”زوادی“ اور“دوادی“ کلمہ گو، ایک دوسرے سے شادی بیاہ تو چھوڑ، سلام تک ٖڈالنے کے رودار نہیں۔ اگر یہی مولوی صاحبان ایسی پہریداری کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے نصیب!

دھرنے کے دوران، امیرالمجاہدین نے ایک عجیب انکشاف بھی فرمایا ہے اوروہ یہ کہ اسلام، امن کا دین نہیں ہے۔ اپنی بات کی وضاحت میں انہوں نے جو خطیبانہ نکتے بیان فرمائے ہیں، ان میں عورت کی عزت کی آڑ لے کر، جذباتی فضا قائم کی ہے۔ فرمایا ” کشمیر میں ہزاروں بچیوں کی عزت لٹ جائے مگر یہ کہیں گے، اسلام امن کا دین ہے۔ برما میں مسلمان لڑکیوں کی آبرو لٹ جائے مگر یہ کہیں گے، اسلام امن کا دین ہے“۔ وغیرہ۔ ان جملوں سے مجھے خیال ہوا کہ رضوی صاحب چونکہ بیٹیوں والے ہیں تو صنف نازک پر اس ظلم نے ان کو دلی صدمہ پہنچایا ہے اور وہ دراصل، ان بچیوں کی حفاظت کی خاطر بے چین ہوکر، ایسی جذباتی تقریریں کررہے ہیں۔ چنانچہ، ان کے جملے کی گرامر کو اگنور کرکے، میں نے ان کی مردانگی کی داد دی۔

پھر یوں ہوا کہ ان کے دھرنے کے دوران ہی قومی میڈیا پہ ایک خبر چلی کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک لڑکی کو برہنہ کرکے برسربازار پھرایا گیا۔ مجھے فوراً امید ہوئی کہ برما اور کشمیر کی بچیوں کی عزت کی خاطر کڑھنے والا دین کا پہریدار، اس مسئلہ کی حساسیت پر سیخ پا ہو کر، اس بچی کی عزت پہ ڈاکہ ڈالنے والوں کو کڑی سزا دے گا۔ (اس لئے کہ مذکورہ بچی کی آبروریزی ک خبر بھی اسی میڈیا نے دی تھی جس میڈیا نے رضوی صاحب کو برما اور کشمیر کی بچیوں کی خبر دی تھی)۔ افسوس کہ اس ضمن میں رضوی صاحب کا کوئی ارشاد سماعت میں نہیں آیا۔

بہرحال، خاکسار، علمائے کرام کی خدمت میں دو معروضات پیش کرنے کی جسارت کرتا ہے۔

ایک تو یہ کہ آپ، امت کی دینی راہنمائی ضرورکیا کریں (یہ آپ کا فرض منصبی ہے) لیکن اس میں تھانیداری مت کیا کریں۔ کفارمکہ کے بارے بھی، قرآن نے رسولؐ کو ہدایت کی کہ ہم نے آپ کو ان پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا تو مسلمانوں پہ تھانیداری کیسی؟ دوسرے یہ کہ خطابت میں ”قول لین“ اگر نہ بھی اختیار کریں تو بھی کم ازکم سیاست و مذہب کے التباس سے پرہیز کیا کریں کہ اس بے مقصد شعلہ بیانی کی وجہ سے ہم جیسے کم فہم، اصل دین کے بارے ہی تردد میں مبتلا ہو جایا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).