شاہ جی اور شورش کی میراث- چند حقائق


“شاہ جی اور شورش کی میراث” پر ہماری گزارشات کا پہلا حصہ قارئین نے چند روز قبل “ہم سب” پر ملاحظہ کیا تھا۔ اس کا دوسرا حصہ نذرِ قارئین ہے۔
اپنے مضمون میں مضمون نگار نے ایک اور نکتہ پر اپنا زورِ قلم صرف کیا ہے، وہ ہے شاہ جی، شورش اور احرار کی مبینہ چندہ خوری، مالی معاملات میں خردبرد وغیرہ۔ درحیرتم کہ الزام لگانے والا خود جس صف سے ہے، اس کا اپنا ماضی و حال نہ صرف چندہ خوری بلکہ مالی معاملات میں غبن اور غریب مرزائیوں کے معاشی استحصال سے عبارت ہے۔ ایک انگریزی کہاوت کا مفہوم ہے کہ شیشے کے گھر میں رہنے والوں کو دوسروں پر پتھر پھینکنے سے احتراز کرنا چاہیئے یا پھر بائبل میں مرقوم مسیح علیہ السلام کا وہ ارشاد کہ تم میں سے پہلا پتھر وہ پھینکے، جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو! ہم تیقن سے نہیں کہہ سکتے کہ فاضل مضمون نگار نے اپنے مضمون میں الفاظ کے جو طوطا مینا اڑائے ہیں، ربوہ کی نظارت اس سے کس حد تک واقف ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے نہایت بودے اور کمزور دلائل پر اپنے استدلال کی عمارت کا تاج محل کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
مذکورہ الزام کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں پر چندے کھانے اور مالی معاملات میں بے قاعدگی کا الزام لگایا جا رہا ہے، خود ان کا رہن سہن اور میعارِ زندگی تاعمر کیسا رہا؟ ان کی رحلت کے بعد ان کی اولاد و احفاد کا میعارِ زندگی کیسا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ شاہ جی کے بدترین سیاسی مخالف بھی اس حوالےسے ان کے فقر و استغنا اور درویشی کے قائل ہیں۔ خود صاحبِ مضمون نے یہ الزام لگانے کے باوجود ایک جگہ پر یہ اعتراف کیا ہے:
“بہت عرصہ بعد ایک احمدی عالم ان سے ملنے ملتان گئے۔ ان کی روداد پڑھ کر ترس آتا ہے کہ ہندوستان کا ایک مشہور مقرر کسمپسری میں اپنے آخری دن گزار رہا تھا۔”
اگلی ہی سانس میں موصوف نے سید حبیب مدیر “سیاست” کے گھسے پٹے الزام کو بھی دھرا دیا: “عطا اللہ شاہ بخاری کو امرتسر میں تین ہزار روپے کا مکان کس نے لے کر دیا؟”
عرض یہ ہے کہ شاہ جی امرتسر میں اپنا ذاتی مکان خریدنے سے قبل پانچ مختلف کرائے کے مکانوں میں رہائش پذیر رہے، 1934 میں جب شاہ جی کے استاد زادہ و ہم سبق مولانا بہاء الحق قاسمی مرحوم (جو معروف مزاح نگار و کالم نگار عطاء الحق قاسمی کے والد اور یاسر پیرزادہ کے دادا ہوتے ہیں) نے اپنا مکان فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو شاہ جی نے اپنی اہلیہ محترمہ کے زیورات بیچ کر اور کچھ اپنے والد صاحب سے پیسے لے کر مبلغ 3400 روپے میں گِلوالی دروازہ والا مکان خرید کیا، برعظیم کی تقسیم تک شاہ جی کی رہائش اسی مکان میں رہی اور بعد از قیامِ پاکستان متروکہ جائیداد کے کلیمز تک داخل نہ کیے اور 1948 سے 1961 تک اپنی حیاتِ مستعار محلہ ٹبی شیر خان ملتان میں کرایہ کے ایک مکان میں گزار دی۔
اس ضمن میں ایک مسلم لیگی دانشور کی شہادت ملاحظہ کیجیے:
“پاکستان بننے کے بعد شاہ جی بحیثیت مہاجر ملتان تشریف لائے۔ آپ امرتسر میں اپنا مکان چھوڑ آئے تھے، مگر آپ نے دوسرے لیڈروں کی طرح یہاں کوٹھی، کوئی بنگلہ، کوئی کارخانہ اور کوئی مکان تک الاٹ نہ کرایا۔ مظہر نواز خان جو کہ شاہ صاحب کی لاعلمی میں ان کی رہائش کےلیے کوئی چھوٹا مکان الاٹ کرانے کی اپنے طور پر کوشش کرتا رہا، مگر نمائشی دینداروں نے اس کی کوئی پیش نہ چلنے دی۔ آخر مجبور ہو کر انھوں نے متحدہ ہندوستان کےاس خطیبِ اعظم کے لیے میرے عقبی محلہ ٹبی شیرخان کے ایک گوشہ میں تیس روپے ماہوار کرایہ پر ایک چھوٹا سا مکان کرایہ پر لے لیا۔ جس میں شاہ صاحب نے آخیر دم تک رہایش رکھی۔
یہ مکان عارضی طور پر لیا گیا تھا اور آپ کے شایانِ شان کوئی اچھا مکان تلاش کرنے کے لیے جب شاہ صاحب سے اجازت چاہی تو اس شیرِ خدا نے مسکراتے ہوئے فرمایا:
“میری جو حیثیت ہے، میں جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں۔ میری حیثیت سے تو یہ مکان بھی بڑا ہے۔ میرے بزرگوں نے تو کھجور کی عارضی چھتوں اور کچی دیواروں میں ہمیشہ گزارہ کیا جنھیں مکان کہنا شاید آپ لوگ گناہ سمجھیں اور یہ تو بہرحال مکان ہے اور مجھے اس واسطے بھی پسند ہے کہ آپ لوگوں نے اسے میرے لیے پسند کیا ہے۔”
(منشی عبدالرحمٰن خان “چند ناقابلِ فراموش شخصیات” ص 129، مطبوعہ عالمی ادارہ اشاعتِ علومِ اسلامیہ ملتان)
شاہ جی کی زندگی کے آخری ایام میں جب آپ بسترِ مرگ پر تھے تو اس وقت کے معروف صحافی و کالم نگار کوثر نیازی، شاہ جی کی عیادت کےلیے تشریف لے گئے، وہ شاہ جی سے اپنی اس آخری ملاقات کو یوں قلم بند کرتے ہیں:
“دوسری مرتبہ میرا ملنا ملتان میں ہوا۔ میں وہاں ایک اجتماع سے خطاب کرنے گیا تھا۔ پہنچا تو معلوم ہوا کہ شاہ جی بیمار ہیں۔ ان کی عیادت کی غرض سےان کے آستانے پر حاضری دی، مگر یا للعجب! یہ کیا؟ ایک کچی بستی میں ایک کچا مکان، نہ کوئی نوکر نہ چاکر، پردوں کی جگہ دیواروں پر بوریاں لٹکی ہوئی، مجھ سے رہا نہ گیا۔ “شاہ جی آپ یہاں رہتے ہیں؟” کہنے لگے، “جی ہاں، یہی محل تو میں نے ہندوؤں کے سرمایہ سے بنوایا ہے!” یہ اس الزام کی طرف اشارہ تھا جو بعض سنگدل لوگ انھیں کانگریس کا تنخواہ دار کہہ کر لگایا کرتے تھے۔ طبیعت تڑپ اٹھی۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گیے، مگر میں نے دیکھا اس بے سروسامانی کے عالم میں بھی شاہ جی کے چہرے پر صبر و شکر کا نور بکھرا ہوا تھا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی، 22 اگست 1982)
اس ضمن میں تیسری شہادت معروف شاعر سید ضمیر جعفری کی ملاحظہ فرمائیں۔ وہ رقم طراز ہیں کہ انھیں ایک بار اپنے ایک دوست کے کام کے سلسلے میں ملتان شاہ جی کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا، ملتان پہنچ کر کافی تگ و دو کے بعد وہ شاہ جی کے آشیانہ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے الفاظ ہیں:
” دل کو پہلا دھچکا مکان دیکھ کر لگا، ہمارے ملک کا بطلِ جلیل اور اتنے معمولی سے مکان میں رہائش پذیر! دروازے پر دستک دی تو ایک مولوی صاحب نکلے، وہ مجھے اندر لے گیے۔ شاہ صاحب پہلے ہی کمرہ میں تشریف رکھتے تھے جو خاصا کشادہ تھا۔ چٹائی بچھی ہوئی تھی، پاک و ہند کا شعلہ نوا خطیب اور جنگِ آزادی کا عظیم مجاہد ایک دیوار کے قریب ایک پرانے سے تکیےکی ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ چند کاغذات سامنے بکھرے پڑے تھے۔ ایک پلندہ تکیے کے نیچے دبا رکھا تھا۔ میں نے سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب دے کر، جس میں تپاک کی گرمی تھی، پھر اپنے کاغذات پر جھک گئے۔ چند کاغذات تکیے کے نیچے سے نکالے اور چند تکیے میں رکھے۔ پھر خاکسار کو ایک نگاہِ بندہ نواز سے نوازا اور گویا ہوئے۔”
ان کے عرضِ مدعا کے بعد شاہ جی نے کالج کے پرنسپل کے نام ایک عجیب و غریب سفارشی خط تحریر کر دیا اور پھر آپ کی مجلس میں مختلف موضوعات کے علاوہ نظام تعلیم بھی زیرِ بحث آیا تو ان کے بقول:
“امیرِ شریعت دو چار جملوں کے بعد جلال میں آ گئے۔ خطابت کا ایک دریا چڑھاؤ پر آ گیا، وہ باقاعدہ تقریرکرنے لگے جیسے ان کے سامنے میں اکیلا نہ بیٹھا تھا، حاضرین کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ کیا نظامِ تعلیم پر تیر برس رہےتھے! “یہ کیسا نظامِ تعلیم ہے جو بےچینی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا، جو دخترانِ ملت کو نچوانے پر تلا ہوا ہے۔” حکومت کے پرزے اڑ رہے تھے! “علم کم ہے، تحریص زیادہ ہے، پبلسٹی پر زور ہے، قلندری نے خواجگی کی قبا اوڑھ لی ہے۔”
ایک ذاتی فہمائش جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گی، یہ فرمائی:
“بیٹا! محرومیوں کے باوجود اپنی ذات پر اعتماد قائم رکھنا۔ قوموں کی زندگی ایک تسلسل کا نام ہے، اس تسلسل کو زندہ رکھنا۔”
شاہ صاحب کے ایک ایک لفظ سے اضطراب و جلال کا دریا چھلک رہا تھا، ان کی آواز دور دور تک جا رہی تھی، جیسے کوئی زخمی شیر دھاڑ رہا ہو!
میں بلکہ سارا ماحول اس وقت شاہ صاحب کے سحرِ خطابت میں جھوم رہا تھا، حقائق دل میں ترازو ہو رہے تھے، ادب کا چشمہ ابل رہا تھا۔ وہاں سے اٹھنے کو جی تو کیا چاہتا مگر ساتھ ہی ڈر لگ رہا تھا کہ اگر سی آئی ڈی نے پہلے چشم پوشی سے کام ہی لیا تھا تو اب ضرور دھر لے گی۔ چنانچہ ایک مقام پر جیسے ہی ان کا آشوبِ دل ذرا دھیما ہوا، ہم اجازت لے کر آستانے سے باہر نکل آئے۔ مگر بہت دور تک قدم اور دل بوجھل رہے۔ یہ ملال کا بوجھ تھا کہ دیکھو جو شخص اس ملک کی آزادی کے لیے اپنے خونِ جگر سے چراغ روشن کرتا رہا، اس کے حجرے میں نہ بتی نہ دیا ہے۔” (امیرِ شریعت کا ایک خط از سید ضمیر جعفری مطبوعہ اردو ڈائجسٹ، دسمبر 1983)
اب ذرا الزام کنندہ کے ممدوح مرزا غلام احمد قادیانی، جماعتِ احمدیہ اور مرزا صاحب کی اولاد اور موجودہ جماعتِ احمدیہ کے سربراہ کی تاریخ بھی ملاحظہ کر لیجئے۔

مرزا صاحب ڈپٹی کشمنر سیالکوٹ کی کچہری میں ایک معمولی تنخواہ پر ملازم تھے۔ خود لکھتے ہیں:
“ہماری معاش کا دارومدار والد کی ایک مختصر آمدنی پر تھا اور بیرونی لوگوں میں ہمیں ایک شخص بھی نہیں جانتا تھا۔ میں ایک گمنام انسان تھا جو قادیان جیسے ویران گاؤں کے زاویہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔” (حقیقۃ الوحی، ص 211)
مرزا صاحب نے عیسائیوں اور آریہ سماجیوں سے مناظرے کی آڑ میں مسلمانوں سے چندہ مانگنا شروع کیا تو تین لاکھ سے زائد روپیہ جمع ہو گیا۔ (حقیقۃ الوحی)
اپنے الہامات کو بنیاد بنا کر انگریزی حکومت کی تائید و حمایت میں اس قدر کتابیں لکھیں کہ وہ تمام کتابیں اگر اکٹھی کی جائیں تو ان سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔
(تریاق القلوب از مرزا قادیانی، ص 15)
مزرا صاحب کا خاندان انگریزوں کا پشتینی وفادار خاندان تھا۔ خود مرزا صاحب نے بڑے فخر اور طمطراق سے اس بات کا جابجا کریڈٹ لیا ہے۔ مرزا صاحب اور ان کے آباء و اجداد کا وتیرہ ہی یہی تھا کہ ہم وطنوں کی جاسوسی کرکے انگریز استعمار سے مراعات اور جاگیریں وصول کریں۔ مرزا صاحب کی چاپلوسی کا انداز ملاحظہ کیجیے:
“میرے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب دربار گورنری میں کرسی نشین بھی تھے اور سرکار انگریزی کے ایسے خیرخواہ اور دل کے بہادر تھے کہ مفسدہ 1857 میں پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس جنگجو جوان بہم پہنچا کر اپنی حیثیت سے زیادہ اس گورنمنٹ عالیہ کی مدد کی تھی۔” (تحفہ قیصریہ، ص 16)
مزید دیکھیے:
“ہمارا جاں نثار خاندان سرکار دولت مدار کا خود کاشتہ پودا ہے، ہم نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنا خون بہانے اور جان دینے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔” (مجموعہ اشتہارات حصہ سوم جمع کردہ محمد صادق، ص 262، اشتہارنمبر 48 مرقومہ مرزا قادیانی 1898 خط بنام بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ)
مرزا صاحب اور ان کی جماعت ہندوستان پر غاصبانہ سامراجی تسلط کے بعد سامراج کے سیاسی جاسوس اور گماشتے کا کردار ادا کر رہی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی جماعتِ احمدیہ مختلف حکومتوں کی آشیرباد سے سکوں کی جھنکار پر اپنے ضمیر کا سودا کرتی رہی۔ اس سلسلے میں 5 اگست 1965 کے روزنامہ نوائے وقت کے صفحہ اول پر چھپنے والی خبر ملاحظہ کیجئے:
“راولپنڈی: 4 اگست: مرکزی حکومت احمدیہ مشنوں کو افریقہ اور دوسرے ملکوں میں اپنے مذہبی نظریات کی تبلیغ کے لیے 1961 سے اب تک گیارہ لاکھ پچاس ہزار نو سو نناوے روپے دے چکی ہے۔ یہ بات پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ مسٹر محمد حنیف نے آج قومی اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دیتےہوئے بتائی۔ کیپٹن احمد خان نے پارلیمانی سیکرٹری سے دریافت کیا کہ کیا یہ حقیقت ہے کہ احمدیہ مشنوں کو زرمبادلہ کی کثیر رقوم کی منظوری ملنے کی وجہ یہ ہےکہ زرمبادلہ کی منظوری دینے والے افسر پر احمدیوں کا اثر ہے؟ پارلیمانی سیکرٹری نے اس کے جواب میں کہا کہ معزز رکن اپنے طور پر جو رائے قائم کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں۔”
ہم اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے بلکہ اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
اب ذرا جماعتِ احمدیہ کے چندہ سسٹم پر بھی کچھ بات کیے لیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہےکہ جماعتِ احمدیہ غریب سے غریب احمدی سے بھی مخصوص ریٹ کے مطابق چندہ وصول کرتی ہے جو مجموعی آمدنی کا کم از کم 8.25% (6.25% + 1% + 1%) پر مشتمل ہوتا ہے۔
سعید احمد خان، ایڈیشنل فنانس سیکرٹری “احمدیہ مسلم ایسوسی ایشن یو-کے” کے مالی سال 2009-10 کے حوالے سے لکھے گئے ایک خط کی کچھ سطور ملاحظہ کیجئے:
We have been advised by Markaz to remind all members to ensure that their laazmi Chandas are being paid in accordance with the prescribed rates. And there are any shortfalls or arrears, then these should be paid immediately without delay.
صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ چندہ اکٹھا کرنے کا الزام صرف مولویوں یا اہلِ مذہب پر ہی نہیں عائد ہونا چاہیئے بلکہ اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لیا جائے کہ آپ کے گھر میں کیا ہو رہا ہے!
ایک طرف تو قادیانی کلٹ کے نام نہاد “خلیفہ” مرزا مسرور کی آف شور کمپنیاں اور اندرون و بیرون ملک جائیدادیں ہیں تو دوسری طرف جن صاحبانِ عزیمت پر صاحبِ مضمون نے گمراہ کن الزامات عائد کئے ہیں، ان کا اور ان کی اولاد کا رہن سہن سادگی سے عبارت ہے۔ برطانوی سامراج کے گماشتے اور اس کی اولاد کی جائیدادوں کا شمار نہیں تو دوسری طرف خانوادہ امیرِ شریعت کے پاس آج بھی ذاتی ملکیت میں دو گاڑیاں تک نہیں۔ شاہ جی کے فرزندوں اور ان کی اولاد کا رہن سہن آج بھی انتہائی سادہ ہے۔
“شاہ جی اور شورش کی میراث” میں ایک الزام یہ بھی لگایا گیا ہے:
“انگریز سرکار کے ڈر سے ان میں جرات نہیں تھی کہ سرعام قتل کے فتوے جاری کرتے لیکن اگر کوئی سادہ لوح قتل کا مرتکب ہو جاتا تو اس کو غازی اور شہید کے تاج بھی احراری ہی پہناتے تھے۔”
لگتا ہے مضمون نگار احرار کو غلطی سے جماعتِ احمدیہ کی طرح فرنگی استعمار کا گماشتہ اور چاپلوس سمجھ بیٹھے ہیں جو انھوں نے یہ درفنطنی چھوڑی ہے کہ انگریز سرکار کے ڈر سے ان میں جرات نہیں تھی کہ سرِ عام قتل کے فتوے جاری کرتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ احرار کا مزاج فتوی بازی کا کبھی رہا ہی نہیں، احرار بنیادی طور پر علماء کی جماعت نہیں، بلکہ نچلے متوسط اور متوسط طبقہ کے مسلمانوں کی ایک اسلامی انقلابی جماعت تھے جس کا خمیر ہی سامراج دشمنی سے اٹھایا گیا تھا، خود مضمون نگار نے اپنے دونوں مضامین میں اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قتل و غارت کا جو الزام مضمون نگار نے احرار پر لگایا ہے، اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ جب کہ ہم یہاں قارئین کی خدمت میں باحوالہ یہ بات پیش کریں گے کہ جماعتِ احمدیہ نے کس طرح تقسیمِ برعظیم سے قبل اور بعد غنڈی گردی اور دہشت گردی کا طوفانِ بدتمیزی برپا کیے رکھا۔
قیامِ پاکستان سے قبل “قادیان” کی بابت قادیانی حضرات کا طریقہ واردات بالکل وہی تھا جو اسرائیل کے حوالے سے یہودیوں کا رہا۔ مرزا بشیرالدین محمود نے پنجاب بھر سے اپنی امت کے افراد بلوا کر قادیان میں بسا لیے تھے۔ قادیان کو انھوں نے اپنی ذاتی جاگیر اور سٹیٹ بنا لیا تھا جہاں ان کی اجازت کے بنا کسی کو پر مارنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ قادیانیوں نے بٹالہ کے دو مسلمان بھائیوں حاجی عبدالرحمٰن اور حاجی عبد الغنی کی “شبان المسلمین” نامی تنظیم کے ارکان پر کئی قاتلانہ حملے کیے، حتیٰ کہ مرزا بشیر الدین محمود کی سازش پر حاجی عبدالغنی کو شہید کر دیا گیا۔ “شبان المسلمین” سال بھر میں ایک سالانہ جلسہ منعقد کیا کرتی تھی جس میں دیگر اضلاع سے بھی علماء شریک ہوتے۔
شورش کاشمیری لکھتے ہیں:
“ایک ایسے ہی جلسہ کے اختتام پر جب کچھ علماء قادیان دیکھنے گئے تو قادیانی شہ زوری کا حال یہ تھا کہ مزرا بشیرالدین محمود کے ایماء پر مرزائی نوجوانوں نے ان علماء پر ہلہ بول دیا۔ انھیں اس بری طرح پیٹا کہ پناہ بخدا۔۔ چونکہ مقامی پولیس اور دوسرے حکام مرزا بشیرالدین کی مٹھی میں تھے اس لیے کسی نے رپٹ تک نہ لکھی اور نہ کوئی دادرسی کی۔ اس کے بعد کئی سال تک صحیح العقیدہ مسلمان قادیان جاتے ہوئے ڈرتے۔ مجلسِ احرار نے اس دہشت کو توڑنے کے لیے اپنے چند رضاکار قادیان بھیجے کہ وہاں جا کر مسلمانوں کی مساجد میں اذان دیں کیونکہ مرزائی اپنے سوا کسی کو اذان بھی نہیں دینے دیتے تھے۔ احرار رضاکار وہاں پہنچے، اذان دی لیکن قادیانی ڈنڈے لے کر پل پڑے اور ان موذن رضاکاروں کو اتنا مارا کہ زخموں سے چور ہو گیے۔ وہ مدت تک ہسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ اس بہیمانہ تشدد کے خلاف مجلسِ احرار نے بٹالہ میں کانفرنس منعقد کی اور حکومت کو پہلی دفعہ للکارا کہ وہ اپنی چہیتی امت کے منہ میں لگام دے ورنہ نتائج خطرناک ہوں گے لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور نہ قادیانی ٹس سے مس ہوئے۔ وہ گویا قادیان کی ریاست کے راجواڑے تھے اور وہاں قانون ان کے اشارہ ابرو پر حرکت کرتا تھا۔ اس کے بعد مجلسِ احرار نے 1935 میں قادیان میں احرار کا دفتر کھولنے کا اصولی فیصلہ کیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مسٹر جی ڈی کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کے الفاظ میں “قادیانیوں کا تمرد اور شورہ پشتی اپنی معراج کو پہنچی ہوئی تھی”۔
جو لوگ قادیانی جماعت میں شامل ہونے سے انکار کرتے انھیں نہ صرف قادیان سے باہر نکال دیا جاتا بلکہ بعض اوقات مکروہ تر مصائب کی دھمکیاں دےکر دہشت انگیزی کی فضا پیدا کی جاتی۔
آغا شورش لکھتے ہیں:
” مرزا محمود نے عدالتی اختیار اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے۔ قادیان میں دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت کی جاتی۔ جو لوگ مخالف تھے، ان کے مکانوں کو جلایا گیا، کئی افراد کو قتل کیا گیا۔ مسٹر کھوسلہ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں اس کی مثالیں بھی دی ہیں۔ ان کے روبرو مرزا بشیرالدین محمود نے تسلیم کیا کہ قادیان میں عدالتی اختیارات استعمال ہوتے ہیں اور ان کی عدالت سب سے آخری اپیل کی عدالت ہے۔ اس غرض سے قادیانیوں نے اپنے اشٹام بھی چھاپ رکھے تھے۔ مزرا محمود قادیان میں قتل کرانے کے ماہر سمجھے جاتے تھے اس غرض سے وہ اپنے والد کی “پیش گوئیاں” اور اپنے “ذاتی الہام” استعمال کرتے۔ مولوی عبدالکریم ایڈیٹر “مباہلہ” شروع میں قادیانی تھے، جب انھیں قادیانیت کی صداقت کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوئے تو اس سے تائب ہوگیے۔ ان پر ظلم و ستم شروع ہوا۔ مرزا محمود نے مولوی عبدالکریم کی موت کی پیش گوئی کی جو “الفضل” میں چھپی۔ نتیجۃ عبدالکریم پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ وہ بال بال بچ گیے لیکن ان کا ضامن محمد حسین قتل کر دیا گیا، جب قاتل کو پھانسی ہوئی تو اس کا جلوس نکالا اور قادیان میں بہشتی مقبرے میں دفن کرایا۔ مولوی عبدالکریم قادیان سے اٹھ کر امرت سر آ گیے، وہاں ان کا مکان نذرِ آتش کر دیا گیا۔ ایک دوسرا قتل مرزائی مبلغ محمد امین کا تھاجس کو کلہاڑی کے وار سے قتل کیا گیا۔ ہلاک اس لیے کیا گیا کہ مرزا بشیرالدین محمود اس سے ناراض ہو گیا تھا۔ پولیس نے اس سلسلے میں کوئی کاروائی نہ کی۔ تب قادیان میں مرزائیوں کی دہشت اور غنڈہ گردی کا عالم یہ تھا کہ ان کے خلاف کوئی شہادت دینے کی جرات ہی نہ کر سکتا تھا۔ مسٹر کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کے الفاظ میں “سرکاری حکام قادیانیت کے مقابلے میں غیر معمولی حد تک مفلوج ہو چکے تھے۔”
1937 کے انتخابات میں قادیانیوں کو عبرتناک شکست ہوئی تو مرزا بشیر الدین کے لیے یہ صورتحال سوہانِ روح تھی۔ انھوں نے راجندر سنگھ آتش نام کے ایک سکھ نوجوان کو دس ہزار روپے کے عوض شاہ جی کے قتل پر تیار کیا۔ اس غرض سے پانچ ہزار روپے پیشگی دیے اور پانچ ہزار قتل کے بعد ادا کرنے کے وعدہ کیا، لیکن راجندر سنگھ نے شاہ جی کو دیکھا، ان کی تقریر سنی تو اپنے ضمیر کو تیار نہ کر سکا۔ (یہی سکھ نوجوان جیل میں آغا شورش کے ساتھ بھی قید رہا) مرزا محمود راجندر سنگھ کے انکار سے پریشان ہوا، اس کو سازش کے منکشف ہونے کا خطرہ تھا۔ اس نے سی آئی ڈی سے سازش کر کے راجندر کو کلکتہ میں گرفتار کرا دیا اور اس پر الزام عائد کیا کہ وہ انقلابی پارٹی کا ممبر ہے۔ جب اس کو پنجاب لایا گیا تو اس نے مرزا محمود کی سازش کے انکشاف کا ارادہ کیا کہ وہ اس حقیقتِ حال سے عدالت کو مطلع کرے گا اور بتائے گا کہ اس کی گرفتاری مرزائی امت کی سازش سے ہوئی ہے۔ مرزا بشیرالدین کو خطرہ تھا کہ وہ شاہ جی کے قتل کی سازش آشکار کرے گا۔ جب راجندر سنگھ کا ارادہ پولیس کے علم میں آیا تو صوبائی گورنمنٹ کے حکم پر اس کو فی الفور رہا کر دیا گیا۔ لیکن شاہ جی کے خلاف مرزائی پولیس افسروں کی پخت و پز سے بغاوت وغیرہ کے جرم میں کئی مقدمات تیار کیے گئے!
احمدی جماعت اور اس کے “خلیفہ” کی غنڈی گردی یہیں پر ختم نہیں ہوتی، قیام پاکستان کے بعد مرزا محمود نے اپنے ناقوس “الفضل” میں کھلے بندوں پاکستان کے پانچ جید علماء کے قتل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ درج ذیل علماء سے خون کا بدلہ لیا جائے گا
(1) سید عطاء اللہ شاہ بخاری
(2) ملا عبدالحامد بدایونی
(3) ملا احتشام الحق تھانوی
(4) ملا مفتی محمد شفیع
(5) ملا مودودی
(الفضل، 15 جنوری، 1952)
ہمارا خیال ہے کہ مضمون نگار قیامت تک ایسا کوئی حوالہ پیش نہیں کر سکتے جس میں شاہ جی، شورش یا کسی اور احرار رہنما نے کسی بھی مرزائی کو باوجود اس طبقے کی بوقلموں گستاخیوں کے، اس طرح سرِعام قتل کی دھمکی دی ہو یا قتل کا فتوی جاری کیا ہو۔ تاریخی حقائق کا یوں برسرِ عام مذاق اڑاتے ہوئے انھیں شرم آنی چاہیے کہ کون سا الزام کن لوگوں پر عائد کیا جا رہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ افراد کا ایک مخصوص حلقہ ہر اس بات کو جو احمدی حلقوں کی جانب سے کی گئی ہو، خواہ مخواہ ہی مستند باور کرنے لگ جاتا ہے، چاہے وہ امرِ واقعہ سے کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو! ہماری دانست میں یہ علمی رویہ نہیں، ہمارے ان روشن خیال دوستوں پر تو یہ ذمہ داری بدرجہ اولیٰ عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی بات کو محض اس لیے شرفِ قبولیت سے نہ نوازیں کہ وہ احمدی حلقوں کی جانب سے آ رہی ہے، بلکہ اس بات کو اتنی ہی کڑی کسوٹی پر پرکھیں اور جانچیں، جس کسوٹی پر وہ اہلِ مذہب کی بات کو رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).